Oct 31

Click here to View Printed Statment

تعریفی اسناد‘امتیازی اعزازات اور سنہری تمغات ہر کامیاب انسان کا حق بھی ہے اور خواہش بھی۔ ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ زندگی کے کسی شعبے میں جب بھی کوئی نمایاں کارنامہ سرانجام دے تو سماج اس کو سراہائے‘ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اس کے سینے پر تمغے سجائے۔ مردم شناس سوسائٹی کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ اچھائی اور نیکی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ہم روشن راہوں کے مسافروں کو ان کے حصے کی پذیرائی دینے میں کنجوسی نہ کریں۔

Continue reading »

written by host

Oct 27

Click here to View Printed Statment

دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں جس محاذ پر سب سے زیادہ سرگرمی دکھائے جانے کی ضرورت ہے وہ غربت کا محاذ ہے۔ فوجی آپریشنز وقت مقررہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن دہشتگردی کی وجوہات ختم کرنے کا عمل دیرپا اور مسلسل ہوتا ہے۔آج کا پاکستان کراچی سے خیبر تک دہشتگردوں کی کارروائیوں سے لرز رہا ہے۔ کہیں پنجابی طالبان کے نام سے یہ لوگ متحرک ہیں اور کہیں پشتو بولنے والے مجرم سامنے آرہے ہیں۔اب دہشتگردی کی وبا کسی ایک صوبے‘ طبقے یا گروہ تک محدد نہیں رہی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں جہاں غربت کے سائے گہرے ہوتے ہیں‘وہیں سے خودکش بمباروں کی بھرتی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی اختلاف انتہا پسندی کی شکل اس وقت اختیارکرتا ہے جب پیٹ کی بھوک انسان کو ہر طرف سے بے اختیار کردیتی ہے۔بعض بزدل بھوکے حالات سے مجبور ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ نوجوان خون بغاوت پر اتر آتا ہے۔ جونہی کوئی ماسٹر مائنڈ کسی غریب نوجوان کو خودکش بمبار بننے کے لئے مذہبی جواز فراہم کرتا ہے‘ پھر انتقام کی بدترین شکلیں سامنے آتی ہیں۔

Continue reading »

written by host

Oct 26

Click here to View Printed Statment

عین اس وقت جب ہماری بہادر مسلح افواج دہشتگردوں کے قلب پروار کر رہی ہیں۔ بعض نادان دوست ہماری قومی یکجہتی پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن ”راہ نجات“ کوئی آسان معرکہ نہیں ہے۔ پختہ یقین ہے کہ ہمارے جانثار بھائی اور بیٹے کامیاب ہوں گے اور محسود اور دیگر غیرت مند قبائل کو چار فیصد دہشتگردوں کی دستبرد سے نجات دلا کر رہیں گے۔ لیکن میدان کا رزار میں جیتی ہوئی جنگوں کو سیاسی طور پر جیتنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔خطرہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی گروہ بندیاں ہماری عسکری کامیابیوں کو شکست میں تبدیل نہ کردیں۔ دہشتگردوں کو ”مظلوم“ قرار دینے والے حلقے ”اسلام دوستی“ کا اسیر ہو کر کہیں تدبیر اور تعبیر کی پھرسے غلطی نہ کر بیٹھیں۔

Continue reading »

written by host

Oct 16

Click here to View Printed Statment

فوجی وردیوں میں ملبوس‘فوجی نمبر پلیٹ والی سوزوکی وین میں سوار ہو کر جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دھوکہ باز دہشتگرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے یا بری طرح ناکام رہے‘ اس بحث کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن دس اکتوبر کا دن ہماری قومی زندگی میں قیمتی اثاثے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ہر دس اکتوبر ہمیں یاد دلائے گا کہ ہمارے کمانڈوز بہادری اور جانفشانی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ جونہی وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لئے حرکت کریں گے گولیوں سے بھون ڈالے جائیں گے۔ موت سامنے دیکھتے ہوئے بھی چار کمانڈوز آگے بڑھتے ہیں‘کمانڈر کے سامنے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں اور دہشتگردوں کی توجہ تقسیم کرنے کے لئے سیکورٹی روم کے سامنے آجاتے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Oct 15

اگست 1951ءمیں امریکہ کے مشہور کولیئرز میگزین میں امریکہ کی ٹینسی ویلی اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور معروف ماہر آبپاشی مسٹر تھول کا ایک مضمون چھپا عنوان تھا ”ایک اور کوریا بن رہا ہے“۔ اس مضمون میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کے جھگڑے کی تفصیل پیش کی گئی۔ اس مضمون کا یہ فقرہ بہت مشہور ہوا کہ ”بھارت پاکستان کو ایک گولی چلائے بغیر تباہ کرسکتا ہے“۔

Continue reading »

written by host

Oct 07

Click here to View Printed Statment

اس میں اب کیا شک رہ گیا ہے کہ پاکستانی سیاست کو سرجری کی ضرورت ہے۔ وطن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اقتدار کے کئی ادوار گزارے ہیں۔ تخت و تاج سے محروم بھی ہوئے اور سر یرآرائے مَسند بھی دیکھے گئے۔ دونوں پارٹیوں نے ایوانوں میں جا کر بھی عوام کو مایوس کیا اور پس دیوار زندان ہو کر بھی ڈیلیں ہی کی ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے منشور میں عوام محض خانہ پری کے لئے دکھائی دیتی ہیں۔ ملک کے بنیادی مسائل سے لے کر عوامی اشوزتک بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ لوڈشیڈنگ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں نے عام پاکستانی کو حالات سے بددل کررکھا ہے اور یہ بَددلی اس ملک سے لاتعلقی پر منتج ہورہی ہے۔ پنجاب میں میاں محمد شہبازشریف نے پورا رمضان روزہ داروں کو قطاروں میں کھڑے رکھا۔ آج آٹا پھر سے بھاری قیمت پر فروخت ہورہاہے۔

Continue reading »

written by host

Oct 06

دوست کے ہمراہ لاہور میں اس کے گھر کے گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ اس کے معصوم بچے اپنے والدین کو دیکھ کر پکار اٹھے ”ماتا پِتا آ گئے، ماتا پِتا آ گئے“۔ پاکستانی مسلمان بچوں کی زبان پر ماتا پِتا کے الفاظ سن کر میرا ماتھا ٹھنکا اسی دوران میرے دوست کی معصوم بچی اپنے والد سے لپٹنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئی اور اپنے سے کچھ بڑے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگی یہ ہے میرا بھائی ”ہنومان جی“ ۔

Continue reading »

written by host