Jul
01
|
Click here to View Printed Statements
کبھی پاکستان کی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ تھی۔ 1960ءکے عشرے میں پاکستان کے ماہرین اقتصادیات نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ساﺅتھ کوریانے بغیر کسی جھجھک کے پاکستان کے اقتصادی ماڈل کی نقل تیار کی اور اپنے ملک کو پاکستانی قدموں پر قدم رکھ کر چلانا شروع کردیا۔متاثر ہونے کی بھی حد ہوتی ہے۔ سئیول شہر کوبھی کراچی کی طرز پر بسایا گیا ۔وہ جوہمیںماڈل سمجھ کر ہمارے پیچھے چلے تھے وہ آگے بڑھتے گئے اور ہم روز بروز پیچھے کی طرف سرکتے گئے۔ آج ہم کہاں اور ساﺅتھ کوریا کہاں کھڑا ہے! کوئی تقابل ہی نہیں کوئی موزانہ زیب نہیں دیتا۔آج ہماری ترقی کی رفتار2.2 فیصد پر آکر ایسے رکی گویابریکیں لگ گئیں۔ ہزار دھکے مارو لیکن زمین جنبد نہ جنبد گل محمد
سودی نظام سے وابستہ معیشت سے جڑی اس دنیا کی ترقی میں بہت بڑا کردار بینکوں‘ بنکاری اور بینکاروں کا رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین سرجوڑ کر ملکی معیشت کی بہتری کیلئے منصوبہ سازی کرتے ہیں اور بینک ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے ترقی کے پہیے کو حرکت میں لاتے ہیں۔ امریکہ‘ چین ‘جاپان اور بھارت۔یہ بینکاری نظام ہی ہے جس پر ان ممالک کی ترقی و عروج کا دارومدار ہے ۔چین کے بینک سرمایہ کارانہ سوچ کے حامل ہیں اور بہت سی امریکی کمپنیوں کو سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔ ایسے ممالک جن کے پاس پیسہ نہیں وہاں چینی بینک اور کمپنیاں مل کر پراجیکٹس مکمل کر رہے ہیں اور ان پراجیکٹس سے خاطر خواہ منافع کما رہے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ برسوں میں بینکاری سسٹم نے بہت ترقی کی ہے۔بینکوں کی عمارتوں کے شیشتوں کے سائز اور رنگ ہی نہیں بدلے انداز اور اطوار بھی تبدیل ہوگئے۔ ہر سال بھاری منافع کمانے والے ان بینکوں نے لوگوں کو منافع دینے کی بجائے ان کو ”کنزیومر ازم“ کی طرف راغب کرکے مال کمایا ہے۔ کریڈٹ کارڈز‘ کاروں پر قرضہ جات‘مکانوں کے لئے قرضے‘غرض ان بینکوں نے کسی ترقیاتی منصوبے میںشراکت داری کرنے کی بجائے صرف اور صرف اکاﺅنٹ ہولڈرز کو سہولیات کی فراہمی کے بدلے کھاتہ داروں کی رقوم سے ہی پیسے کاٹے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں بینکنگ نظام”کماﺅ“ کی بجائے”کھاﺅ“ بن گیا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس بھی ایک بینکار ہی تھے۔انہوں نے میگا کی بجائے مائیکروفنانسنگ کا ایسا نظام وضع کیا کہ آج بنگلہ دیش میں شراکت داری کے ذریعے منافع کمانے کی ایک دوڑ لگی ہے۔معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے چل رہا ہے۔ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوا۔آخر ہمارے بینکار اور اقتصادی ماہرین مل کر ایسا پروگرام کیوں ترتیب نہیں دے سکے ۔ سروسز کے بدلے پیسہ کمانے کا رجحان بینکوں کے وجود پر کیا اثرات ڈالے گا؟ ایسے ہی سوالات لئے میں نے اپنی تنظیم ”پاکستان اکانومی واچ“ کے وائس پریذیڈنٹ عظمت اللہ کے ہمراہ گزشتہ دنوں کراچی کے معروف بینکاروں سے ملاقاتیں کیں۔
”بینکوں میں ڈاﺅن سائزنگ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ادغام یعنی ”مرجر“ کے رجحان نے بھی جنم لیا ہے۔ظاہر ہے یہ صورتحال بینکنگ سسٹم کیلئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ایسے منفی اشارات کا بنیادی سبب بینکوں کی موجودہ پالیسی ہے۔آج کل کم و بیش تمام بینکس قرضے فراہم کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔حکومت اور حکومتی اداروں کو ”لوننگ“ ہورہی ہے یا کنزیومر ازم کو فروغ دیا جارہا ہے۔بینکوں کا اصل کام ترقیاتی منصوبوں کیلئے سرمایہ کی فراہمی ہوتا ہے۔اسی سے نظام بینکاری پر اعتماد بڑھتا ہے اور منافع میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔سروسز اور لون کی فراہمی کے بعد سرمایہ ساکت ہوجاتا ہے۔‘ملک ترقی کرتا ہے نہ سماجی طور پر معاشرہ آگے بڑھتا ہے“سمٹ بینک کے چیف ایگزیکٹو جناب حسین لوائی نے بڑے ججے تلے انداز میں اصل مرض کی طرف نشاندہی کی۔ جناب حسین لوائی صرف بینکار ہی نہیں معیشت دان بھی ہیں۔ قومی سطح کے ایسے بینکار ہیں جنہوں نے متعدد ڈوبتے ہوئے بینکوں کو سنبھالا اور انہیں قومی ترقی میں حصہ ڈالنے کے قابل بنایا۔
اسلامی بینکاری کے ماہر اور بینک اسلامی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر حسن عزیز بالگرامی تجزیہ اور تبصرہ سے گریزاں دکھائی دیئے لیکن انہوں نے راقم کو یقین دلایا کہ ملک میںاسلامی بینکاری کا مستقبل روشن ہے اور عام لوگوں میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں ان کا بینک کامیابیاںحاصل کر رہا ہے۔
دبئی اسلامک بینک کے فنانشنل کنٹرولر گیون گون سالوز سے بھی ملاقات ہوئی۔ خوش مزاج اور ملنسار بینکار ہیں۔ ان کے خیالات کا حاصل بھی یہی ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اب بینکاروں کو شراکت داری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی طرف توجہ کرنا چاہیے۔غیر ضروری اخراجات کم کرنے چاہیں اور کھاتہ داروں کو سہولتوں کی فراہمی آسان اور سستی کرنی چاہیے۔
یہ ایک المیہ ہوگا اگر منافع کی بلندیوں کو چھولینے کے بعد ہمارے بینک ایسی منصوبہ بندی نہ کرسکیں جس سے زوال کو ٹالا جاسکے۔قومی ترقی کو اگر بینکاری کا ہدف قرار دے کر آگے بڑھا جائے ‘متحرک اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرانے کے لئے سرمایہ فراہم کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایک بار پھر ساٹھ والی دہائی کو دہرانہ سکے!