Mar 26

Click here to View Printed Statement

دنیا بھر میں ایک سو نوے کے لگ بھگ ممالک ہیں اور ان میں بسنے والوںکی تعداد تقریباًسات ارب ہے۔ کوئی ایسا ملک نہیں جہاں قومی ایام پر ہم آہنگی کی بجائے فکری انتشار پیدا کیا جاتا ہو۔کوئی ملک اس فضول بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا جس میں اس کے قیام کی وجوہات کو ناجائز قرار دیا جائے ۔کوئی قوم اتنی احسان فراموش نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے محسنوں کے کردار پر کیچڑ اچھالے۔ کسی ریاست کا قانون اپنے ذرائع ابلاغ کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ ملکی وجود کے خلاف پروپیگنڈا کرنے‘ مسلمہ حقیقتوں کو متنازعہ بنانے اور قومی تخلیق کے اسباب کو غیر حقیقی قرار دےنے پر مذاکرے کرائے۔

Continue reading »

written by host

Mar 26

Click here to View Printed Statement

ابھی تک تسلی بخش وضاحت کا انتظار ہے۔حکومت پاکستان نے ”دوست ملک“ سے ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے کے پیچھے کارفرما معاملے کو افشاءنہیں کیا۔قوم کو تسلی دی گئی ہے کہ ” ایران اور سعودی عرب سمیت تمام برادر ممالک سے متوازن تعلقات قائم کئے جائیں گے“۔ ڈالر کی بے قدری کے پیچھے محرکات میں سب سے بڑا محرک یہی ڈیڑھ ارب ڈالرز ہیں جو مبینہ طور پر سعودی حکومت نے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی ذاتی درخواست پر مملکت اسلامیہ کو بطور تحفہ دیئے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زائد قومی خزانے میں ”پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ“ کے عنوان سے منتقل ہوچکے ہیں اور باقی بھی عنقریب آنے والے ہیں۔اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر دوست ملک کی طرف سے کی جانے والی یہ مہربانی کسی وقت واپس لے لی گئی تو ڈالر پھر بے قابو ہو کر روپے کو روند ڈالے گا۔

Continue reading »

written by host

Mar 05

Click here to View Printed Statement

 خون ہی خون ہے۔ دو چار دن کے وقفے کے بعد پاکستانی سوچنے لگتے ہیں کہ شائد قاتلوں اور دہشتگردوں کو رحم سا آگیا ہے۔ ایک موہوم سی اُمید پیدا ہونے لگتی ہے لیکن اُمید کی ڈوری کا سرا پوری طرح تھام نہیں پاتے کہ پھر کسی چوک’ کسی چوراہے پر انسانی جسم کے خون میں لتھڑے ہوئے ٹکڑے ملتے ہیں۔ کوئی جلی لاش کسی ایمبولینس میں رکھی جارہی ہوتی ہے۔ بم دھماکہ’ریموٹ کنٹرول دھماکہ’ خودکش دھماکہ’ ٹارگٹ کلنگ’ بوری بند لاش’ اغوائ’ ہماری سماعتوں میں خوف ہی خوف بھر جاتا ہے۔ ایک پوری فضاء سوگوار ہوجاتی ہے۔صف ماتم لپیٹنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ ہر انسان کش کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے والے ببانگ دہل اخبارات اور ٹی وی والوں کو فون پر بتاتے ہیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کرنے کا کارنامہ فلاں گروپ نے سرانجام دیا ہے۔ عورتیں’بچے’بوڑھے’ شیعہ’سنی’ مسلم’ غیر مسلم ۔کوئی بھی تو محفوظ نہیں ہے۔وردی اور شیروانی ‘امیر اور غریب سب ہی قتل گاہوں میں سربریدہ پڑے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Mar 01

Click here to View Printed Statement

عوام کی بھاری اکثریت کا خیال ہے
”اگر کوئی اور ملک ہوتا تو بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا مشغلہ کرنے والے باغیوں کی بستیوں کا صفحہ ہستی سے صفایا کردیتا۔امریکہ‘جاپان‘چین۔کوئی بھی ملک یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ جنونیوں کا ایک گروہ فساد فی الارض کرتا پھرے اور ریاست ان کی منت سماجت کرتی رہے۔“
دلائل اور منطق پر یقین رکھنے والے کہتے ہیں کہ‘
”اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔آئین تو آئین ہوتا ہے۔ یہ ریاست اور عوام کے درمیان معاملات طے کرنے کا ایک فارمولا ہے۔فرض کیا اس آئین میں کوئی شق بھی اسلامی نہ ہو تو کیا اس کے باسیوں کو قتل کرنا جائز ہو جائے گا؟ کیا ریاست پاکستان اس بات کی اجازت دے گی کہ ایک گروہ اسلحہ اور بارود کے زور پر ریاست پر قبضہ کرے اور اس عمل کو شریعت کے عین مطابق قرار دے۔ کسی بھی ریاست کے آئین کو جو نہ مانے وہ باغی اور باغی کی داڑھی ہو یا مونچھیں وہ موت کی سزا پاتا ہے۔ اور جو ریاست ایسے گروہوں کو قرار واقعی سزا نہیں دے سکتی وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ جو فوج اور سیکورٹی ادارے ریاست سے باغیوں کا صفایا نہ کر سکیں ان پر اربوں روپے خرچ کرنے کا جواز کہاں سے لائیں گے“۔
اس طبقہ کے دانشور کہتے ہیں‘ Continue reading »

written by host