Sep 24

Click here to View Printed Statement

پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ یہ جنگ ہم پر مسلط کردی گئی ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ضیاء الحق دور میں غلط خارجی پالیسیوں کے سبب ہم نے دہشت گردی کا راستہ کھولا اور پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کا ساتھ دے کر اس عفریت کو مکمل طور پر اپنے گلے ڈال لیا۔ آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ’ روس اور دیگر طاقتیں سکون اور امن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ پاکستان ‘ہمارا پاکستان ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہوچکا ہے جس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ سولہ دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں دہشت گردوں نے بربریت کی انتہا کردی تھی اور آٹھ ماہ بعد بڈا بیر ایئربیس پر نمازیوں کو خون میں نہلا کر انہوںنے ایک بار پھر اے پی ایس کی خونی یادوں کو تازہ کردیا ۔

Continue reading »

written by host

Sep 21

Click here to View Printed Statement

رینجرز کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بڑے بڑے ڈاکوئوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے اور اگر تفتیش اور تحقیق میں مار نہ کھا گئے تو عدالتوں کے ذریعے عبرتناک سزائوں کی نوید ہے۔ سفید پوش ڈاکوئوں کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے آپ ناکہ نہیں لگا سکتے’ ریڈ نہیں کرسکتے’پولیس مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی رعب داب میں لپٹے اور عزت مآب کی قلغیاں سجائے ان قومی ڈاکوئوں کی تعداد بھی بہت ہے اور ان کے بنتے ٹوٹتے اتحاد وفاقی اداروں کو بعض اوقات بے بس کر دیتے ہیں۔ لیکن سپہ سالار اعظم جناب جنرل راحیل شریف کی کمٹمنٹ پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اس مشکل ترین مہم میں مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری دلی دُعا ہے کہ وہ خوشامدیوں سے بچ بچا کر قومی بقاء کے اس صالح عمل کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں اور وارداتیوں کی ریشہ دوانبوں سے محفوظ رہیں۔
میں معروف اور دیکھے بھالے ڈاکوئوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔اخبارات کے اندر کرائم کارنرز ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام اور پرامن شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹنے والے ڈاکو کس قدر نڈر اور سفاک ہیں۔ رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ ٹی وی چینلز پر متواتر ٹکّر اور تازہ ترین خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔

Continue reading »

written by host

Sep 17

Click here to View Printed Statement

بھاری فیسیں وصول کرنے اور آئے روز ان فیسوں میں اضافہ کرتے جانے والے سکولوں کے خلاف بچوں کے والدین نے آجکل آہ و بکا شروع کر رکھی ہے۔ حکومت نے ان ”مجبور” والدین کی اشک شوئی کے لئے کراچی’ لاہور اور اسلام آباد میں واقع ان مادر پدر آزاد سکولوں کی انتظامیہ سے مذاکرات کے نام پر چائے پانی کا اہتمام کیا ہے اور خوشخبری دی ہے کہ فیسوں میں کیا گیااچانک اضافہ واپس لے لیا جائے گا۔
میں خود بھی ایک نظریاتی سکول چلاتا ہوں اور جانتا ہوں کہ پانچ سو سے آٹھ سو روپے فیس لے کر سکول کو بہترین طریقے سے چلایا جاسکتا ہے۔میں جب پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کے بارے میں پڑھتا اور سنتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سکولوں کی مختلف کیٹگیریز ہیںِ۔ایسے سکول بھی موجود ہیں جو اس غریب مُلک میں ڈالر کرنسی میں فیس وصول کرتے ہیں۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ بھاری بھر کم تنخواہوں کے باوجود اساتذہ پڑھانے کے علاوہ ہر کام کرتے ہیں ۔فکر مند والدین اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے مجبوراً پرائیویٹ سکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں ۔لیکن دس دس بیس بیس ہزار ماہانہ فیس ادا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے والدین کی تشویش ناقابل فہم ہے۔

Continue reading »

written by host

Sep 15

Click here to View Printed Statement

بدلتے سماجی اور معاشی تقاضوں کی بدولت اب شہروں کی شناخت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر کے طور پر مشہور تھا لیکن اب اس شہرت میں تعلیمی اداروں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس نے تعارف کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیکل کالج نے تعلیمی فضاء ہی تبدیل کردی ہے۔ طالبات کے کالجز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور استعداد سے ماحول میں علمی خوشبو رچ بس گئی ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے تو دوسری طرف والدین اور طلباء و طالبات کی سہولت کے لئے نت نئے تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب گوجرانوالہ کو بھی کالجوں کا شہر قرار دیا جاسکے گا۔
شہر کے تعلیمی تعارف کا سہرا وہاں سے منتخب ہونے والے چند ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے سر جاتا ہے ۔ ان محدودے چند افراد کا ر نے واقعی عوامی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے ۔ لیکن یہ ناانصافی ہوگی اگر پنجاب کے علم دوست وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ عوامی سہولیات کی فراہمی اور اجتماعی سماجی کاموں کے لئے میاں صاحب صوبہ کے عوامی نمائندگان کو اداروں کے قیام پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
جناب عبدالرئوف مغل گوجرانوالہ سے ایم۔پی۔اے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں فروغ تعلیم کے لیے انتھک کام کیا ہے ۔ حال ہی میں بچیوں کے لئے ایک عظیم الشان کالج بنوایا ہے۔ پانچ ستمبر کو اس کالج کی افتتاحی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ Continue reading »

written by host

Sep 15

Click here to View Printed Statement

ڈاکٹر سعید الٰہی رجل العمل ہیں۔ عمل کے آدمی ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔اور چونکہ موروثی طور پر پاکستانیت سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی سوچ پاکستان سے باہر جاتی نہیں ہے۔ ان سے جو ایک بار ملتا ہے دوبارہ ملنے کی آرزو پالتا رہتا ہےِ۔ بناوٹ سے کوسوں دور ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور وہ زندگی کے ہر لمحے میں ملک کے لئے کچھ کر نا چاہتے ہیں۔ منصوبے اور تصّورات ہاتھ باندھے حاضر رہتے ہیں۔ عام آدمی ایک وقت میں کسی ایک اشو کو سُلجھا رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک نہیں کئی دماغ ہیں۔ وہ بیک وقت درجنوں محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ادھر مسئلہ پیدا ہوا اُدھر کھٹاکھٹ اس کے دو تین حل سامنے آگئے۔ان کے دفتر میں مغل دربار کا سا ماحول ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے ۔ بیگ راج جیسے کئی رتن قلم کاغذ لئے ہدایات لے رہے ہوتے ہیں ۔ سیاست پر تجزیہ چل رہا ہے ‘ کسی دوست کی سفارش ہورہی ہے’ ٹی وی پروگرام ریکارڈ ہور ہا ہے’ سیمینار کی تیاری ہورہی ہے’گھریلو معاملات بھی طے ہو رہے ہیں۔ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب سے ہلال احمر کے چیئرمین بنے ہیں سٹاف کی دوڑیں لگی رہتی ہیں ۔ افسر شاہی معدوم ہوگئی ہے۔ کام ‘کام اور بس کام کا منظر دیکھنا ہو تو اس انتھک مسیحا کے ساتھ ہو لیجئے۔ آپ جسمانی اور دماغی طور پر تھک جائیں گے لیکن ڈاکٹر سعید الٰہی کو ہشاش بشاش پائیں گے۔ وہ کم خور ہیں۔ بہت کم سوتے ہیں۔ کام ہی ان کی ”انجوائے منٹ” ہے۔ Continue reading »

written by host