Feb
19
|
Click here to View Printed Statement
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف عملاً پھٹ پڑے ہیں۔ نیب نے احتساب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے پنجاب حکومت کی طرف پنجے بڑھائے تو چیخیں نکل گئی ہیں۔ ایف آئی اے میں بھرتیوں کا سکینڈل’ رائے ونڈ روڈ کی تعمیر کا معمہ’گرین لائن ٹرین کا مُدّا اور پاک قطر ایل این جی معاہدے کا پھڈا۔اور پندرہ افسران کی گردن کے گرد پھندا۔ کیا کیا راز سامنے آرہے ہیں۔دو تہائی اکثریت والی حکومت کے وزیراعظم نے بھری محفل میں اپنی بے بسی کا رونا رویا۔ کہا کہ وہ نیب کے چیئرمین کو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بیوروکریٹس کو حراساں نہ کیا جائے لیکن چوہدری قمر الزمان نے کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔وزیراعظم نے یہ بھی بتا دیا کہ اگر چوہدری صاحب نے اپنے ”کارندوں” کو تنگ کرنے سے نہ روکا تو پھر حکومت قانونی بندوبست کرے گی۔ پنجاب کے وزیر قانون نے وزیراعظم کے مئوقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے کسی شخص کو نوے روز حراست میں رکھنا اور پھر اسے چھوڑ دینا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ نیب کو محض اس لئے کارروائی کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ پنجاب کو دوسرے صوبوں کے برابردکھایا جائے۔باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے وزیر تعلیم نے بھی نیب کے خلاف کافی ”رون پٹن” کیا ہے۔اسی لئے وزیراعظم نے بہاولپور میں اس ایشو کوعوامی سطح پر اُٹھایا ہے۔
خیبرپختونخواہ حکومت نے نیب آرڈیننس میں من مانی ترامیم کروا لی ہیں۔اس ترمیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نیب کے صوبائی سربراہ جنرل حامد نے استعفیٰ دے دیا ہے۔انہوں نے مختلف ٹی وی پروگراموں میں الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعلیٰ خٹک بھی کرپشن میں ملوث ہیں۔بہرحال اٹھارویں ترمیم کی ڈھال کی صورت میں جناب خٹک نے خود کو بچا لیا ہے۔ باقی صوبے بھی اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
صوبہ سندھ تو شروع دن سے ہی نیب کی ”وارداتوں” کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ جناب زرداری تو میاں نوازشریف کو متعدد بار میٹھی میٹھی دھمکیاں دے چُکے ہیں بلکہ خبردار بھی کرچکے ہیں۔ سندھ حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے بعد بڑی حدّ تک اپنا تحفظ کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کی گرفت ڈھیلی کرنے کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے زرداری صاحب کُھل کر سامنے آگئے ہیں۔
منظرکچھ اس طرح کا سامنے آرہا ہے کہ اگر چوہدری قمر الزمان وزیراعظم کی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوتے تو پھر قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم لائی جائے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدر مملکت اپنے پاکیزہ ہاتھوں سے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری کردیں۔
تحریک انصاف بظاہر ایسی کسی ترمیم یا آرڈیننس کی مخالفت کرے گی لیکن عملاً کوئی رُکاوٹ نہیں ڈال سکے گی۔ ایم کیو ایم بھی شور تو مچائے گی لیکن نیب کو کنٹرول کرنے کے لئے ترمیم پاس ہونے دے گی۔پیپلزپارٹی کو اور کیا چاہیے۔ کرپشن کا ”تاج” تو اسی پارٹی کے سرسجایا گیا ہے۔ اُسے میاں صاحب نے خود یہ سنہری موقع فراہم کردیا ہے ۔ زرداری جس عذاب کی دہائی دے رہے تھے میاں صاحب نے اس کی گواہی دے دی ہے۔
ایک سوال اُبھرتا ہے اور بار بار ابھرتا ہے کہ آخر نیب کے چیئرمین اس قدر بہادر اور طاقتور کیسے ہوگئے ہیں۔اُن کے اندر اتنی بڑی قوت کہاں سے آگئی ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے بیوروکریٹ کو خوفزدہ کردیا ہے۔انہوں نے حکومت وقت وہ بھی نواز شہباز کی حکومت سے پنجہ آزمائی شروع کردی ہے۔وہ ایماندار افسر کے طور پر مشہور ہیں۔ تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر انہیں نیب کے منصب اعلیٰ پر فائز کیا تھا وہ وزارت دفاع میں ڈیفنس سیکرٹری کے عہدے پر خدمات انجام دے چُکے ہیں۔ وہ ایک ریٹائرڈ میجر ہیں اور اکیسویں گریڈ کے بیوروکریٹ۔ وزارت دفاع کے سیکرٹری کی سیٹ جی ایچ کیو کی رضامندی کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں ”جی ایچ کیو” سے ہدایات لینے کی عادت ہی پڑ گئی ہو۔حکومت کو اصل صورتحال کا علم ہوگا۔ وزیراعظم نے یوں ہی عوام کے سامنے نیب کا ٹرائل نہیں کیا۔ یہ دھمکی صرف چوہدری قمر الزمان کو نہیں’ اشارہ کسی اور طرف بھی ہوسکتا ہے۔