Apr
21
|
Click here to View Printed Statement
پاکستانی قوم نے یہ منظر بھی دیکھنا تھا۔پانامہ لیکس کے پردے میں اُٹھنے والے سیاسی طوفان نے جہاں حکمرانوں کی ہوائیاں اُڑائیں وہیں سیاستدانوں کی حواس باختگی بھی سامنے آئی۔ یہ منظر ہم سب نے دیکھا کہ وزیراعظم نوازشریف‘وزیرداخلہ چوہدری نثار‘وزیراعظم کا خاندان اور حزب اختلاف کے رہنما سب کے سب ایک ہی وقت میں لندن یاترا کر رہے تھے۔عمران خان کو بھی لندن جانے کی جلدی تھی۔ ان کے ساتھ ان کی مبینہ طور پر ”اے ٹی ایم مشینیں“ بھی لندن میں تھیں۔ الطاف حسین پہلے ہی لندن میں خود ساختہ جلا وطنی سے لطف اندوز ہورہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی بسلسلہ ”علاج“ اسی دیارغیر میں مقیم ہیں۔ بقول شاعر‘
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میّر ہوئے
سب اسی زلف گرِہ گیر کے اسیر ہوئے
یوں لگتا تھا جیسے پاکستان تو آزاد ملک ہے لیکن اس کا حکمران طبقہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ان کا کاروبار اور اولاد دونوں باہر ہیں۔اثاثے باہر ہیں۔ علاج باہر ہوتا ہے اور سیاسی مشاورت بھی انگلینڈ میں ہوپاتی ہے۔ جب بھی یہ طبقہ کسی ایمرجنسی‘ کسی سیاسی ہلچل یا کسی کرپشن کہانی کا شکار ہوتا ہے لندن کی طرف بھاگتا ہے۔ ان کی لگامیں اب بھی کسی برطانوی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں ہیں۔انگریز کا ملک آج بھی ہمارے غلامانہ ذہنیت کے مارے طبقہ اشرافیہ کے لئے آخری جائے پناہ ہوتی ہے۔ابھی یہ تبصرے جاری تھے کہ آخر سب ایک ہی وقت میں مختلف بہانوں سے لندن میں کیوں جلوہ افروز ہیں کہ ہم نے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستانی قوم کی مزید جگ ہنسائی دیکھی۔ ہوسکتا ہے کہ یورپ میں ”سابقہ بیوی“ سے میل ملاقات کوئی معیوب عمل نہ ہو لیکن آپ جس قوم سے ووٹ لینا چاہتے ہیں اس کے نزدیک سابقہ بیوی جسے طلاق دے دی گئی ہو اس سے روابطہ قائم کئے رکھنا اخلاقی انحطاط کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ آپ لاکھ کہیں کہ آپ اپنے بیٹوں کی نانی کے گھر موجود تھے‘ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیںکہ بچوں کی ماں بھی اُسی گھر میں رہتی ہیں۔ پھر اس پر مزید شرمندگی یہ کہ آپ اپنے سابق سالے کی سیاسی مہم بھی چلا رہے ہیں۔آخر آپ کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ اس اوورایکٹنگ سے آپ کس طرح اپنی نیک نامی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل آپ سے محبت کرتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس جذبے کا استحصال کرتے رہےں۔اولاد کے لئے سابقہ بیوی سے ضروری رابطہ ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے اسلامی تعلیمات نے ایک ضابطہ طے کر رکھا ہے۔ آپ ایسی مشکوک ملاقاتیں اور وارداتیں مت کریں جس سے آپ کے کردار پر مزید کیچڑ اُچھالنے کا موقع ملے۔ آپ کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے لوگوں نے ”بچوں کی نانی“ کے گھر کے سامنے جو تماشا لگایا اس سے سارے پاکستانیوں کے سرشرم سے جُھک گئے ہیں۔ ”پردہ داری“ ایک اسلامی قدر ہے اور ایک دوسرے کے گھروں میں جھانکنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنے اس قدام کے لئے کوئی جواز پیش کرسکے۔ حسین نواز کے گھر کے سامنے تحریک انصاف کے کارکنوں کا مظاہرہ یا رائے ونڈ کے سامنے دھرنے کا اعلان یہ سب وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن مجھے مسلم لیگی قیادت سے اس بات کی ہرگز توقع نہیں تھی کہ وہ بھی تحریک انصاف کے منہ زور کارکنوں کی سطح پر آجائے گی۔ جو بھی کہیں یہ بہت ہی غلط ہوا اور یہ ایک ایسی رسم چل پڑی ہے کہ اب کسی سیاسی رہنماءکا گھر محفوظ نہیں رہے گا۔ بات بنی گالہ اور رائے ونڈ سے نکل کر لندن کے گلی کوچوں میں پہنچ گئی ہے۔ پہلے ہی آپس میں جماعت در جماعت بٹی ہوئی پاکستانی کمیونٹی دیارغیر میں ایک دوسرے کے لئے مزید غیر ہوگئی۔ اختلاف دشمنی میں ڈھل گیا اور بہت ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان مسلح تصادم ہونے شروع ہوجائیں۔
ایک بار رُک کردیکھ لو کہ اپنے وقتی سیاسی فائدوں کے لئے ایک دوسرے ہی نہیں آنے والی نسلوں کے لئے بھی آپ بداخلاقیاں بو رہے ہیں۔ ایسی فصل پر خیر اور نیکی کے پھول نہیں کھلتے صرف کانٹے اور تھور ہی پروان چڑھتے ہیں۔