Feb
08
|
Click here to View Printed Statement
اس امر میںکوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم الامت علامہ ا قبال کو کشمیر کے جذباتی’روحانی اور ایسی بے پناہ محبت تھی کہ اس کا اظہارانہوں نے اپنے کلام ‘خطوط اور عمل سے کئی مواقع پر کیا۔ علامہ اقبال کے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے تھا۔انہیں اس پر ناز تھا کہ اُن کی شریانوںمیں دوڑنے والا لہوکشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔
ایک جگہ وہ فرماتے ہیں’
تنم گلے زخیابان جنت کشمیر
ولم ز خاک حجازو نواز شیرازاست
یعنی کہ ”میرا بدن گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میر ا دل ارض حجاز اور میری صدا شیراز سے ہے ”۔ کشمیر سے جدی تعلق رکھنے کے باوجود انہیں اس امر کابھی گہرا احساس تھا کہ وہ اس وادی جنت نظیر کا مشاہدہ بچشم خود نہیں کرسکے۔ یہ احساس محرومی اشعار کے قالب میں یوں ڈھل کر سامنے آیا۔
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اس باغ جاں فزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثے میں ہم کو آئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہمارا وہ جنت نظیر ہے
موتی عدن سے’ لعل ہوا یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ختن سے دور
ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دُور
سیالکوٹ سے جب وہ لاہور پہنچے تو یہاں انہوںنے کشمیری مسلمانوں کی قائم کردہ تنظیم ”انجمن کشمیری مسلمانان” میں شمولیت کی اور اس حد تک اس کے سرگرم کارکن بنے کہ انہیں اس انجمن کے ذمہ داران نے انجمن کا سیکرٹری جنرل بنا دیا۔ اقبال کشمیر’پنجاب اور ہندوستان بھر میں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار پر کڑھتے اور اسے بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اُن کا عہد شباب ہی میں یہ مطالبہ تھا کہ کشمیریوں کو ریاست کے ڈوگرہ حکمران اپنے گھروں کو واپس جانے دیں۔انہیں وہاں پر آباد ہونے اور اپنی امداد کے خود مالک ہونے کا حق دیا جائے۔اُن کی کشمیر سے والہانہ محبت اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا’
سامنے ایسے ‘ گلستاں کے کبھی گھر نکلے
حبیب خلوت سے ‘ سرطور نہ باہر نکلے
ہے جو ہر لحظہ تجلی گر مولائے خلیل
عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے
وہ 1921ء میں کشمیر گئے۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ ان کی میزبانی کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے مہاراجہ کا مہمان بننا قبول نہیں کیا۔وہ اس وادی جنت نظیر کے مختلف شہروں’قصبوں اور دیہاتوں میں گھومتے پھرتے رہے۔وادی کے قدرتی حسن سے مسحور ہوتے رہے اور انہوں نے اس دوران اپنی آنکھوں سے کشمیری مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کاجائزہ لیا۔
واضح رہے کہ مقبوضہ وادی جموں وکشمیر میں آزادی کی تحریک 1931ء میں شروع ہوچکی تھی۔ انہوں نے اپنے کلام میں کشمیری مسلمانوں کو محکومی اور مظلومی کی زنجیریں توڑنے کا پیغام دیا اور ان کے دل کے آتش کدے میں آزادی اور حریت کے انگاروں کو اپنے گرم جذبات کی سانسوں سے بھڑکایا۔اقبال کی ایک مشہور کتاب جاوید نامہ ہے۔ دراصل یہ پوری کتاب کشمیری مسلمانوں کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کا پیغام دیتی ہے۔علامہ نے اس طویل مثنوی میں کشمیر پر ایک پور باب رقم کیا ہے وہ عالمی تخیلات میں کشمیر کے عظیم صوفیاء اور بزرگ شاعروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اپنی اس تخیلاتی اور تصوراتی ملاقات کے دوران اقبال کشمیر کے مشہور بزرگ میر سید علی ہمدانی المعروف حضرت شاہ ہمدان سے بھی ملاقات کرتے ہیں اور ان کے حضور اپنی یہ شکایت رکھتے ہیں کہ ”آپ کے ماننے والوں کو آج ستم کی تیغ کچل رہی ہے۔آپ نظر کرم فرمایئے ہماری شکایت پر توجہ دیجئے’ہمیں بتایئے آپ کی مدد کب پہنچے گی’ اس مثنوی میں وہ فارسی زبان کے ایک عظیم صوفی شاعری غنی کاشمیری سے بھی مکالمہ کرتے ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال کے قلب و قلم میں کشمیر رچا بسا تھا۔1939ء میں علامہ اقبال وفات پاگئے۔اس عالم فانی سے دنیائے بقا کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل بھی وہ مظلوم’مجبور اور محکوم کشمیریوں کے حوصلوں کو آواز دیتے رہے۔انہوں نے انہی دنوں یہ دعا کی تھی کہ ”توڑ اس دست زجفاکیش کو یارب… جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا” علامہ کو دُکھ تھا کہ انگریزوں نے مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرا سے 75 لاکھ شاہی سکوں کا تاوان وصول کرکے پوری وادی اس جابر اور سفاک حکمرانوں کے حوالے کردی۔ علامہ اقبال نے 1931ء میں مظلوم کشمیریوں کی جہدوجہد کو منزل آشنا کرنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی بنائی ۔ بعدازاں انہیں اس کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا لیکنبعض مصروفیات کی وجہ سے وہ آل انڈیا کشمیر کے منصب صدارت سے مستعفی ہو گئے لیکن ایک فعال کارکن کی حیثیت سے اس کے تمام اجلاسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے۔
جاوید نامہ کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ”ارمغان حجاز میں ” ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض کے عنوان سے کئی نظمیں لکھیں۔
پہلی نظم میں وہ لکھتے ہیں
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضائوں میں ہیں بے تاب
تیسری نظم میں وہ کشمیر اور کشمیریوں کی حالت زار کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچے ہیں
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر!
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر!
سینئہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطا وامیر
کہہ رہا ہے داستان بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ!
ہے کہاں روز مکافات؟ اے خدائے دیر گیرا
اقبال کو یقین کامل تھا کہ کشمیر میں آزادی کی جو تحریک شروع ہوئی ہے اس کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی۔آج بھارت کی ساڑھے 8 لاکھ افواج کے کشمیریوں کی تحریک حریت کی آگ کو سرد کرنے میں ناکام رہی۔ اسی تناظر میں علامہ اقبال فرماتے ہیں
جس خاک کے خمیر میں آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
1990ء سے کشمیرمیں گورنر راج نافذ ہے۔ ایک لاکھ حریت پسندوں کی مقبوضہ وادی کے مختلف شہروں اور قصبوں میں زندہ قبریں برہان وانی اور اس کے پیروکاروں کو اقبال کے الفاظ میں یہ پیغام دے رہی ہیں کہ
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں’ سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں!
خودی سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے ‘ باقی تمام تفسیریں
شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبول حق ہیں فقط مرد حُر کی تکبیریں