Aug 11

Click here to View Printed Statement

ہمارے والدین ”کرپشن” کے لفظ سے واقف نہیں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد رشوت ستانی کی اصطلاع عام ہوئی تھی۔ بعض بیوروکریٹس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بڑے رشوت خور ہیں۔ تقسیم کے وقت جھوٹے کلیم بنانے اور ان جعلی کاغذات کے عوض رشوت لے کر زمینیں اور جائیدادیں الاٹ کرنے والوں کا چرچا رہتا تھا۔ جب عدالتی نظام پھیل گیا تو بعض ججوں کے بارے میں بھی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ فلاں جج رشوت خُور ہے۔ رشوت ستانی ایک ایسا الزام اور جُرم تھا کہ عام لوگ کسی راشی افسر کو دیکھ لیتے تو کُھلے عام بیزاری کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ بعض دفاتر کے اندر ”رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں” کی حدیث مبارکہ جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی۔ رشوت خوری کیخلاف سماجی اور مذہبی جماعتیں مہمات بھی چلاتی تھیں۔ رشوت خور عہدیدار کے ساتھ کوئی معزز شہری اپنی بیٹی بیاھنے پر تیار نہیں ہوتا تھا۔ پولیس افسران کے خلاف رشوت کے مقدمات بننے شروع ہوئے

Continue reading »

written by host

May 05

Click here to View Printed Statement

انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ضرورت مندوں‘ یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا ہے۔قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرکے آخرت کا سامان تیار کرو۔سورة الحدید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے‘
”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاﺅ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب(امین) بنایا ہے“۔
اللہ کی رضا کے لئے ضرورتمندوں کی ضروریات کو پوراکرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔
خرچ کرنے کا انداز مختلف ہوسکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی طور پر انفاق کرنے کا حکم ہےِ۔یہاں ایک باریک نکتہ سامنے آتا ہے کہ ظاہری طور پر انفاق کرنے یا انفاق کو ظاہر کرنے کی بھی کچھ شرائط ہیں۔آپ اگر ایک ہسپتال بنوا رہے ہیں تو یہ ظاہری انفاق ہے ۔اس سے کسی ضرورت مند کی عزت نفس مجروح ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ۔ ایسے کسی فلاحی اور رفاعی پراجیکٹ کے حوالے سے اگر تشہیر کا پہلو نکل رہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر کسی بیوہ یا یتیم کی مدد ہورہی ہے اور کسی طرح کا امدادی سامان تقسیم کرنا ہو تو پھر فوٹو سیشن بہت ہی معیوب لگتا ہے۔ Continue reading »

written by host

Feb 24

Click here to View Printed Statement

ہریانہ کے جاٹوں نے احساس محرومی کا شکار ہو کر دہلی کو جانے والی پانی کی نہر بند کردی’پٹریاں اُکھاڑ پھینکی’ عمارتوں کو نذر آتش کردیا۔ فوج بھی پُرتشدد مظاہروں کوروک نہیں پائی۔جاٹ برادری کی احتجاجی تحریک میں 20 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے’ سینکڑوں زخمی ہوئے لیکن مرکزی حکومت مظاہرین کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتی رہی۔ مذاکرات کامیاب ہوئے یا ناکام حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاس اپنے کسانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ جاٹ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ مودی سرکار کا شائننگ انڈیا فی الحال بُجھا ہوا ملک ہے جس میں جمہوریت تو بہت ہے لیکن عوام کی حالت زار روز بروز بگڑتی جارہی ہے۔ احساس محرومی پھیلتا جارہا ہے اور خطہ غربت سے رہنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ Continue reading »

written by host

Jan 27

Click here to View Printed Statement

راستے روکے نہیں جاسکتے۔ قافلے منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔زمین تنگ نہیں کہ کوئی متبادل روٹ نہ مل سکے۔ نااتفاقی کے سبب اگر ایک بار اعتماد ختم ہوجائے تو پھر قافلے والے وقت ضائع نہیں کرتے۔ کاروبار میں دوستیاں نہیں ضرورتیں اہم ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاستدان آپس میں جھگڑتے رہیں گے تو چین کوئی نہ کوئی متبادل حل نکال لے گا۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کاروباری رفاقت نے پاکستان کی اقتصادی راہداری کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ چاہ بہار کی بندرگاہ زیر تعمیر ہے۔گوادر نہ سہی چاہ بہار تو ہے ۔ایرانی صدر یورپ میں تجارتی معاہدے کر چُکے ہیں۔ایران کے بنکوں نے از سر نو تجارت شروع کردی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے تحفظات ہی دور نہیں ہورہے۔ وزیر منصوبہ بندی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ”کمیونیکیشن گیپ“ پیدا ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے آل پارٹیز اجلاس میں تمام پارٹیاں متفق تو ہیں لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ Continue reading »

written by host

Jan 14

Click here to View Printed Statement

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مخاصمت آج کا نہیں برسوں پُرانا معاملہ ہے۔ کبھی یہ مخالفت کم ہوجاتی ہے اور کبھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔بدقسمتی سے آجکل دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ سفارتی اور سیاسی حملے کر رہے ہیں۔ جب بھی سعودی عرب اور ایران آپس میں ناراض ہوتے ہیں یا ان کی باہمی چپقلش خطرے کے نشان سے آگے بڑھتی ہے مسلم اُمہ کے ماتھے پر خوف کے پسینے تیرنے لگتے ہیں۔ چونکہ مسلم ممالک کے اندر شیعہ سنی جھگڑے ہوتے آئے ہیں اس لئے عام مسلمان ڈرنا شروع کر دیتا ہے کہ کہیں دو ملکوں اور حکومتوں کی باہمی رنجش مسلکی تفریق میں تبدیل نہ ہوجائے۔ باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن پاکستانی بہت سہمے ہوئے ہیں۔ اسی خوف کا اظہار حزب اختلاف کے تمام رہنماﺅں نے کیا ہے‘ اسی طرف جناب عمران خان نے توجہ دلائی ہے اور یہی خوف حکومت کو کسی واضح لائحہ عمل پر چلنے نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں یہ تصور پختہ ہوگیا ہے کہ ایران اہل تشیع کا نمائندہ ملک ہے اور سعودی عرب اہل سنت کا محافظ ہے۔ Continue reading »

written by host

Oct 29

Click here to View Printed Statement

سچے رضاکار کو کسی تعریف یا تحسین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رضاکارانہ جذبہ انسانی تسکین اور روحانی تشفی کے ساتھ جُڑا ہوتا ہے۔ طمانیت قلب ہی سب سے بڑا صلہ ہوتاہے۔ ایک مسلمان خلق خدا کے کاموں میں اس لئے حصہ لیتا ہے تاکہ اللہ پاک کی رضا مندی اور قربت حاصل کرسکے۔ جہاں تک کسی فرد کی رضاکارانہ سرگرمیوں کے حوالے سے سماجی اور سماجی تنظیموں کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کے لئے رضاکاروں کی عزت افزائی‘ تصدیق اور توثیق ضروری ہوتی ہے۔
پاکستان میں انسانی خدمت کے درجنوں ادارے موجود ہیں۔ سرکاری ‘ نیم سرکاری اورغیر سرکاری سب کی اپنی اپنی خدمات ہیں۔دُکھ اور درد کی گھڑی میں ہمدرد ی کے دو بول بھی بہت وقعت رکھتے ہیں۔ ہلال احمر پاکستان ان سب اداروں سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ریڈکریسنٹ یعنی ہلال احمر ایک طرف قومی سطح کا ادارہ ہے تو دوسری طرف یہ ریڈکراس /ریڈکریسنٹ موومنٹ کا حصہ بھی ہے۔ ایک سو نوے ممالک میں ایسے قومی ادارے موجود ہیں۔ انسانی خدمت کی اس تحریک کا ہیڈکوارٹر جنیوا میں ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس/ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز کے ملاپ سے یہ ایک تحریک بنتی ہے ۔ کسی ممبر مُلک میں کوئی قدرتی آفت آئے‘ دہشت گردی ہو یا جنگیں ہوں اس تحریک میں شامل تمام ادارے اور سوسائٹیاں مدد کو پہنچتی ہیں۔ لیکن اصل امتحان اس ملک کی ریڈکراس یا ریڈکریسنٹ کا ہوتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Oct 15

Click here to View Printed Statement

شفیق اور ملنسار’معاملہ فہم اور زیرک’ا ہلیت اور ایمانداری چہرے سے عیاں ۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کے ماہر۔مخاطب پر بوجھ نہ اُدھورے جُملے۔ بناوٹ اور تصّنع سے دُور۔پہلی ملاقات میں ہی شخصیت کا اسیر ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ میں شخصیت پرستی سے کوسوں دُور رہنے والا آدمی ہوں۔ احباب جانتے ہیں کہ میرا قلم ریاکاری کی بیماری سے ہنوز بچا ہوا ہے۔ شجاعت علی بیگ سے جو لوگ ملے ہیں وہ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ بیگ صاحب نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اس شعبے کو معزز کردیا۔ پاکستان کے سینئر ترین بینکار ہیں۔ سندھ حکومت میں وزارت ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے وزیر رہے۔ انہوں نے پورے سندھ کے تعلیمی اداروں کا دورہ کیا’ اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ایک بڑی ہی معلوماتی اور کارآمد رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ گورنر سندھ اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بھجوائی گئی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد تو نہ ہوسکا لیکن یہ حکومتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ دو برس قبل جب مملکت پاکستان کی طرف سے نمایاں شخصیات کو تمغات سے نوازنے کا مرحلہ آیا تو ایجوکیشن منسٹری نے اس رپورٹ کا حوالہ دیا۔ رپورٹ از سر نو دیکھی گئی اور اسے اس قابل سمجھا گیا کہ اس کے خالق کو ستارہ امتیاز سے نوازا جائے۔

Continue reading »

written by host

Sep 15

Click here to View Printed Statement

بدلتے سماجی اور معاشی تقاضوں کی بدولت اب شہروں کی شناخت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کے شہر کے طور پر مشہور تھا لیکن اب اس شہرت میں تعلیمی اداروں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس نے تعارف کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میڈیکل کالج نے تعلیمی فضاء ہی تبدیل کردی ہے۔ طالبات کے کالجز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور استعداد سے ماحول میں علمی خوشبو رچ بس گئی ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے تو دوسری طرف والدین اور طلباء و طالبات کی سہولت کے لئے نت نئے تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب گوجرانوالہ کو بھی کالجوں کا شہر قرار دیا جاسکے گا۔
شہر کے تعلیمی تعارف کا سہرا وہاں سے منتخب ہونے والے چند ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کے سر جاتا ہے ۔ ان محدودے چند افراد کا ر نے واقعی عوامی نمائندگی کا حق ادا کردیا ہے ۔ لیکن یہ ناانصافی ہوگی اگر پنجاب کے علم دوست وزیر اعلیٰ شہبازشریف کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ عوامی سہولیات کی فراہمی اور اجتماعی سماجی کاموں کے لئے میاں صاحب صوبہ کے عوامی نمائندگان کو اداروں کے قیام پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
جناب عبدالرئوف مغل گوجرانوالہ سے ایم۔پی۔اے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقے میں فروغ تعلیم کے لیے انتھک کام کیا ہے ۔ حال ہی میں بچیوں کے لئے ایک عظیم الشان کالج بنوایا ہے۔ پانچ ستمبر کو اس کالج کی افتتاحی تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ Continue reading »

written by host

Sep 15

Click here to View Printed Statement

ڈاکٹر سعید الٰہی رجل العمل ہیں۔ عمل کے آدمی ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔اور چونکہ موروثی طور پر پاکستانیت سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی سوچ پاکستان سے باہر جاتی نہیں ہے۔ ان سے جو ایک بار ملتا ہے دوبارہ ملنے کی آرزو پالتا رہتا ہےِ۔ بناوٹ سے کوسوں دور ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور وہ زندگی کے ہر لمحے میں ملک کے لئے کچھ کر نا چاہتے ہیں۔ منصوبے اور تصّورات ہاتھ باندھے حاضر رہتے ہیں۔ عام آدمی ایک وقت میں کسی ایک اشو کو سُلجھا رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک نہیں کئی دماغ ہیں۔ وہ بیک وقت درجنوں محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ادھر مسئلہ پیدا ہوا اُدھر کھٹاکھٹ اس کے دو تین حل سامنے آگئے۔ان کے دفتر میں مغل دربار کا سا ماحول ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے ۔ بیگ راج جیسے کئی رتن قلم کاغذ لئے ہدایات لے رہے ہوتے ہیں ۔ سیاست پر تجزیہ چل رہا ہے ‘ کسی دوست کی سفارش ہورہی ہے’ ٹی وی پروگرام ریکارڈ ہور ہا ہے’ سیمینار کی تیاری ہورہی ہے’گھریلو معاملات بھی طے ہو رہے ہیں۔ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب سے ہلال احمر کے چیئرمین بنے ہیں سٹاف کی دوڑیں لگی رہتی ہیں ۔ افسر شاہی معدوم ہوگئی ہے۔ کام ‘کام اور بس کام کا منظر دیکھنا ہو تو اس انتھک مسیحا کے ساتھ ہو لیجئے۔ آپ جسمانی اور دماغی طور پر تھک جائیں گے لیکن ڈاکٹر سعید الٰہی کو ہشاش بشاش پائیں گے۔ وہ کم خور ہیں۔ بہت کم سوتے ہیں۔ کام ہی ان کی ”انجوائے منٹ” ہے۔ Continue reading »

written by host

Aug 31

Click here to View Printed Statement

ایک سال پہلے اور آج کے کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اِکا دُکا واقعات کے باوجود منی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں بھی تھم چکی ہیں۔ اور بھتہ خوری کی لعنت سے بھی بڑی حد تک چھٹکارا مل چکا ہے۔ میں ہر ماہ کراچی آتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کاروباری حلقوں میں گھومتا ہوں۔لوگوں سے مفصل گفتگو ہوتی ہے۔ اب یہ نہیں ہوتا کہ ادھر چائے کا کپ ہاتھ میں ہو اور اُدھر سے خبر آئے کہ شٹر بند کردو’ جلوس آرہا ہے۔ یہ بھی اب خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی حادثہ یا قتل یا سیاسی اشو پر توڑ پھوڑ ہو یا سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگائی جارہی ہو۔ تاجر برادری کے اندر بھی اعتماد بحال ہورہا ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کے برعکس ایک انجانا سا خوف موجود ہے۔ کب تک یہاں رینجرزرہیں گے۔ Continue reading »

written by host

Aug 21

Click here to View Printed Statement

شخصیات بہت اہم ہوتی ہیں۔افراد ہی قوموں کے مقدر سنوارتے اور بگاڑتے ہیں۔ فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ کہا گیا ہے۔رجال عظیم کسی ملت کے دامن میں سجے ہوئے وہ ہیرے اور جواہرات ہوتے ہیں جن کی تعداد سے قوموں کی توانائی کا اندازہ ہوتا ہے۔قحط الرجال کا مطلب ہی یہی ہے کہ قوم میں رہبری کے منصب پر فائز ہستیاں دُنیا میں نہ رہیں۔ مصلحین سے تہی دامن اقوام بے راہ روی اور گمراہی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل عظیم شخصیات کی ایک تسبیح موجود تھی۔دانے بکھرتے گئے اور قائداعظم کی جیب میں کھوٹے سکّے بچ گئے تھے۔ جو اصلی لوگ تھے وہ اُفتاد زمانہ کا شکار ہوگئے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں ہمیں افراد کار دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ان کی تعداد محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جنرل حمید گل مرحوم و مغفور ان محدوے چند لوگوں میں شامل ہیں جن کے وجود سے قوم کے اندر اُمید اور یقین کی شمعیں ٹمٹاتی رہی ہیں۔ جنرل صاحب اُن پاکستانیوں کے لئے ایک نفسیاتی سہارا تھے جو خودی اور خوداری کے اوصاف سے لیس ہو کر ملّی تعمیروترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کا مطالعہ زیادہ مفید ہے کیونکہ وہ اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے مکمل طور پر آزاد تھے۔ عہدے کے بندھن یا کسی سرکاری حیثیت کی نزاکتوں سے مبّرا جنرل حمید گل کا کردار روشن بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔

Continue reading »

written by host

Jul 28

Click here to View Printed Statement

دہشت گردی اب کسی ایک مُلک یا قوم کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی اشو بن چُکا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ افواج پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ بڑی حد تک پورا ہوچکا ہے۔ فوجی نوعیت کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ضرب عضب کے تین اہداف مقرر کئے گئے تھے۔پہلا ہدف ان دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کے ٹھکانے ختم کرنے تھے جو اعلانیہ طور پر ریاست اور ملک کے خلاف برسرپیکار تھے۔ الحمد اللہ ہماری عسکری قوت نے ”ناقابل شکست ” سمجھے جانے والے ان گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ بلوچستان کے علیحدگی پسند لشکر تھے یا اسلام کا نام استعمال کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے دونوں قسم کے گروہ اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ جو چند بچے ہیں وہ بھی فرار کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ہمارے بہادر فوجی ان کی آخری پناہ گاہوں تک جاپہنچے ہیں۔دوسرا ہدف فرقہ وارانہ تنظیموں کی وارداتوں پر قابو پانا تھا۔مقام شکر ہے کہ ان کے وجود کو بھی نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ اب ان کے اندر ہتھیار اٹھانے کی ہمت نہیں رہی اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو مضبوط گرفت میں لیا جاچُکا ہے۔ مُلک میں ٹارگٹ کلنک کے اکا دُکا واقعات تو ہوتے ہیں لیکن ایسی انتہا پسند تنظیموں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیاہے۔ تیسرا اور اہم ترین ہدف دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور معاون لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا اس حوالے سے کراچی میں جو آپریشن ہورہا ہے اس کے ذریعے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کو پکڑا جا چُکا ہے۔ چونکہ کرپشن انڈسٹری کے ذریعے ہی ان شدت پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کی جاتی تھی اس لئے مالی بدعنوانی کے ذرائع پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔ قوم کو یقین ہے کہ کراچی میں آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ہی ختم ہوگا۔ Continue reading »

written by host

Jul 15

مودی کا پلہ کیوں بھاری رہا

Business Times, Kashmir Link, Metro Watch, Multi News, Tulou Comments Off on مودی کا پلہ کیوں بھاری رہا

Click here to View Printed Statement

ایک اخبار نے لکھا ہے کہ روس میں پاک بھارت وزرء اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھارت کے موقف کو نمایاں کوریج ملی کیونکہ بھارتی میڈیا وہاں پر موجود تھا جب کہ پاکستانی وفد کے ہمراہ پاکستانی میڈیا کو نہیں لے جایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی سے پاکستان کے حق میں فضاء تبدیل ہوجاتی اور جو تصویریں اور فوٹیج بنی ہے اس کے مقابلے میں بھی چند تصاویر چل جاتیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے انکل نسیم انور بیگ (جنت نصیب) فرماتے تھے کہ معاشی آزادی کے بغیر ہر آزادی ادھوری رہتی ہے۔ پاکستان معاشی طور پر آزاد نہیں تو وہ خارجی سطح پر باعزت کیسے ہوسکتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کا انگ انگ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہر سال کا بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاملات ریاست چلانے ‘تنخواہیں دینے اور وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی قرض لینا پرتا ہے۔ Continue reading »

written by host

Jun 22

تقوے کا فوری ذریعہ۔ روزہ

Azadi, Business Times, Jammu Kashmir, Kashmir Link, News Mart Comments Off on تقوے کا فوری ذریعہ۔ روزہ

Click here to View Printed Statement

قارئین اکرام اور پیارے روزہ دار بہن بھائیو! چودہ صدیوں سے مسلم امہ ماہ صیام میں روزہ کی نعمت سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ ہر سال رمضان المبارک میں ہم سحری سے افطاری تک روزہ رکھتے ہیں اور ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم قرآنی حکم اور اسوہ رسول ۖ کی روشنی میں اپنی اس عبادت کو جاری رکھیں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ روزہ اور اس کی اہمیت اور اس کی برکات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چونکہ تذکیہ سے ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے اس لئے اللہ کی طرف سے عطا کی گئی اس خوبصورت عبادت کے مختلف پہلوئوں کا اس حوالے سے جائزہ لیں گے۔
یہاں میں یہ بھی واضح کردوں کہ تقویٰ کے حوالے سے مختلف تشریحات ہمارے سامنے ہیں۔ تقویٰ کسی مومن کی وہ دماغی حالت ہے جہاں انسان کے اندر ارادے کی ایسی قوت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ برائی سے دور بھاگتا ہے اور اچھائی کی طرف لپکتا ہے۔ ہم آج اس نشست میں یہ دیکھیں گے کہ تقویٰ کی منزل کے حصول میں روزہ کس طرح مدد کرتا ہے ۔صیاّم کا لفظی ترجمہ ٹھہرجانے کا ہے۔”رک جانے” کو صوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ چل رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ کھا رہے ہیں تو رک جائیں۔آپ پی رہے ہیں تو رک جائیں’آپ سوچ رہے ہیں تو رُک جائیں’آپ سن رہے ہیں تو رُک جائیں ‘آپ دیکھ رہے ہیں تو رُک جائیں۔
روزہ آپ کو روک دیتا ہے۔اگر کوئی شخص بُرے کام کے ارادے سے چل رہا ہے تو روزے دار کو حکم ہے کہ وہ برائی کی طرف قدم نہ بڑھائے۔اگر کوئی کھا پی رہا ہے تو روزہ رکھنے کے بعد دن کے خاص وقت تک کھانا پینا نہیں ہے۔ اگر کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے سوچ رہا ہے تو روزہ اسے ایسی سوچ ترک کرنے کی شرط لگاتا ہے۔اگر جھوٹ بول رہا ہے’واہیات بول رہا ہے ‘گالی دے رہا ہے تو روزہ کی حالت میں اسے ایسے بول بولنے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی غیر شرعی باتیں سن رہا ہے تو روزہ دار کانوں کو بند کر لیتا ہے۔ Continue reading »

written by host

Jun 08

Click here to View Printed Statement

”اے مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں کمزور مردوں’عورتوں اور بچوںکی خاطر نہیں لڑتے۔ جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال کہ اس کے باشندے ظالم ہیں۔ اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حمایتی بھیج۔اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی مددگار بھیج۔” (سورة النساء آیت نمبر75)
اجتماعی قبریں ان کے اجتماعی احساس کو بیدار نہ کر پائیں۔ ہانپتی’ بھاگتی’کٹتی اور بکھرتی عصمتیں ان کے اجتماعی دل کو موم نہ کرسکیں۔چھتوں’بالکونیوں اور درختوں کیساتھ لٹکتی لاشیں ان کے اجتماعی جسم میں جھر جھریاں پیدا نہ کرسکیں۔ نومولودوں کو وحشی قدموں نے دبوچ ڈالا۔ ننھے ہاتھوں کو سفاک درندوں نے کلہاڑوں کے ساتھ کاٹا’ مسکان بھرے چہروں کو بے رحمی کیساتھ اجاڑا گیا۔ کسی قوم نے آہ نہیں بھری’کسی بھی ملک نے چیخ نہ ماری۔ سات ارب انسان’ انسانی حقوق کی لاکھوں تنظیمیں’ ڈیڑھ ارب مسلمان’ سینکڑوں ممالک۔ دنیا کے منصف لاتعلق۔آخر نسل کشی کے اس بہیمانہ وارداتوں پر دنیا بولتی کیوں نہیں۔ صرف اس لئے کہ روہنگیہ لوگ مسلمان ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہ کلمہ گو ہیں۔ صرف اس لئے کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔ ان کی زبانوں پر اللہ اکبر’ محمد رسول اللہ’ سبحان اللہ جیسے الفاظ ادا ہوتے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Apr 23

چین کا اعتماد۔ہمارا امتحان

Akhbar-e-Haq, Azadi, Business Times, Kashmir Link, Kashmir Post, Nawa-i-Waqt, Samaa Comments Off on چین کا اعتماد۔ہمارا امتحان

Click here to View Printed Statement

پہلے تو ہم سب پاکستانیوں کو بانیان پاکستان کا مشکور ہونا چاہیے کہ جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں ہمیں ایک ایسا خطہ ارضی لے دیا جس کی جغرافیائی اہمیت ہر بدلتے منظر نامے میں بڑھتی جارہی ہے ۔ اگر فرصت ہو تو باوضو ہوکر علامہ اقبال ‘ قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستیوں کے لئے فاتحہ خوانی ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری ضرور کرنی چاہیے۔پاکستان کو عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لئے بہترین ملک قرار دیا جاتا رہا ہے ۔تھوڑے سے حالات سنبھلے ہیں اور چین و پاکستان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ٹریڈ کو ریڈور کی تعمیر کا معاہدہ کر لیا ہے جو دراصل شاہراہ خوشحالی ہے۔پینتالیس ارب ڈالر کے معاہدے جوں جوں زمین پر اترنا شروع ہوں گے۔ معاشی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوجائیں گے۔انجینئر اور مزدورتو ایک مکان بناتے وقت بھی ضروری ہوتے ہیں یہ تو تین ہزار کلو میٹر طویل کوریڈور ہے۔سینکڑوں پل بننے ہیں۔ کئی بلڈنگز تعمیر ہونی ہیں۔ کئی برس لگنے ہیں۔ بے روزگاری کا خاتمہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے لگنے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے مطابق 2018ء تک بجلی کے منصوبے مکمل ہوجائیں گے اور اگر پہلے سے شروع منصوبوں پربھی تیز رفتاری کے ساتھ کام شروع رہا تو بجلی کی پیداوار کا تخمینہ بارہ سے پندرہ ہزار میگاواٹ کا ہے۔ اگر آئندہ تین برس میں بجلی کی کمی پوری ہوگی تو پاکستان کے اندر پہلے سے موجودہ انڈسٹری کا پہیہ بھی پوری رفتار کے ساتھ گھومے گا اور لوگوں کے دن پھریں گے۔ عام آدمی کو بھی عزت کے ساتھ تو روٹی کمانے کا اپنے ملک کے اندر ہی موقع پیدا ہوجائے گا۔ Continue reading »

written by host

Mar 11

Click here to View Printed Statement

نااُمید ہونے کے لئے ہزاروں دلائل موجود ہیں۔ لیکن پُرامید رہنے کے لئے وجوہات تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان بیم ورجا کے اس دوراھے پر آگیا ہے کہ اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم پھر سے یاسیت میں ڈوب جائیں یا اپنے دماغ کو جھٹکا دیں اور امید کا ننھا سا دیا روشن کرکے آگے بڑھیں۔ یہ کہا نہیں جاسکتا کہ کب کوئی دہشتگرد کسی ہدف پر پہنچ کر خود کو اڑا دے اور میرا مﺅقف بھی ہوا میں اڑ جائے۔ لیکن ذرا ٹھہریئے۔ کیا یہ بہت بڑی اُمید افزاءبات نہیں ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے اندر دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے عسکری اور سیاسی قوتوں نے کمال اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے۔سینکڑوں دہشت گرد پکڑے گئے ہزاروں انتہا پسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور سپہ سالار اعظم اور ان کی ٹیم نے جس طرح افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان ممالک کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کے خلاف قابل فخر پہلو ہے ۔مشیر داخلہ نے بڑے اعتماد سے کہا ہے کہ سول اور ملٹری قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ استحکام پاکستان کیخلاف خطرے کی گھنٹی ہمیشہ سول ملٹری تعلقات میں دراڑ ہی رہی ہے۔اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان واضح سمت میں بڑی یکسوئی کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے انتظامی اور امن وامان کے ذمہ دار اداروں ‘عسکری صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ میں بڑی تیزی کے ساتھ بہتری آئی ہے۔ اب عام آدمی پھر سے خوف کی چادر اتار کر احساس تحفظ سے سرشار ہورہا ہے۔ Continue reading »

written by host

Jan 22

Click here to View Printed Statement

ہوسکتا ہے کہ نیت ٹھیک ہو۔لیکن اہلیت بہرحال نہیں ہے۔ حکمران قوم کو کوئی واضح جواب دینے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔ پٹرول بحران کے پیٹ سے بجلی بحران بھی باہر نکل آیا ہے۔ماہرین معیشت مشکل اصطلاحات کے ذریعے عوامی ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں۔پٹرول پمپوں پر عورتوں کے ہجوم‘ہاتھ میں بوتلیں ‘پہلو میں بچے۔ظلم کی ایک یہ شکل باقی رہ گئی تھی وہ تجربہ کاروں کے ہاتھوںدیکھنے کو مل گئی ہے۔پٹرول روٹی نہ سہی لیکن روٹی کمانے کا ذریعہ تو ہے۔پاکستان کے منظرنامے میں یہ نظارے بھی شامل ہوگئے کہ دولہا اپنی بارات گدھا گاڑیوں پر لےجاتے دیکھے گئے۔ شدید سردی کے عالم میں پٹرول کے انتظار میں کھلے آسمان تلے رات گزارنے کا تکلیف دہ تصور ہی رونگٹے کھڑا کردیتا ہے۔لیکن وزیر پٹرولیم‘ پی ایس او‘وزارت خزانہ سب کے سب وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی میں ”میری ذمہ داری نہیں“ کی رٹ لگاتے سنائی دیئے۔ عوام فقیروں کی طرح خوار ہوتے رہے۔ اعصاب شل ہوگئے۔پاکستانیوں نے ایک بار پھر سوچنا شروع کردیا ہے کہ آیا یہ مُلک رہنے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ میڈیا پورے زور وشور سے چیخ رہا ہے۔حکمران جماعت کے وزراءشرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ٹی وی پر آکر معذرت کرتے ہیں لیکن عوام کی تکالیف بڑھتی جارہی ہیں۔ Continue reading »

written by host

Dec 11

سوئے ہوئے ضمیروں کو الہامی کتب جگاسکتی ہیں

Jammu Kashmir, Kashmir Link, Metro Watch, Pardes Comments Off on سوئے ہوئے ضمیروں کو الہامی کتب جگاسکتی ہیں

Click here to View Printed Statement

آپ اپنے گھر سے سکیورٹی آلارم کو ہٹا دیجئے یا اس کی تاریں کھینچ دیں تو پھر واردات کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔نہ آلارم بجے گا نہ آپ جاگیں گے ۔نہ اپنے مال واسباب کا تحفظ کرسکیں گے ۔نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو اگر مسلسل ایک ماہ تک کسی واقعہ پر ضمیر نہ جھنجھوڑے تو سمجھئے کہ انسان کا ضمیر سورہا ہے ۔یعنی الارم کا کنکشن کٹ گیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ضمیر کبھی نہیں سوتا ۔دراصل انسان اپنے کان بند کرلیتا ہے ۔طیش اور عیش انسانی دل ودماغ کی دوایسی حالتیں ہیں جن میں مبتلا ہوکر انسان اپنے جاگے ہوئے ضمیر کو بار بار سلانے کی پریکٹس کرتا ہے ۔شیطان کی جیت کا یہ عجب منظر ہوتا ہے ۔یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو ماررہا ہوتا ہے ۔وہ اس قدر شقی القلب ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے محافظ یعنی ضمیر کو اپنے ہاتھوں سے بے بس کردیتا ہے ۔ایسی حالت سے نکلنے کیلئے ہی عقیدے اور ایمان کی ضرورت پڑتی ہے ۔خالق کائنات نے مردہ ضمیر انسانوں کو جگانے اور واپس فطرت کی طرف لوٹانے کیلئے اپنے پسندیدہ انسانوں یعنی پیغمبروں کے ذریعے زندگی کی گائیڈ بکس اتاری ہیں ۔ارشادرباّنی ہے ‘۔ Continue reading »

written by host

Sep 10

مقصد تخلیق انسان۔ اللہ اور بندوں سے پیار

Akhbar-e-Haq, Azkar, Business Times, Jammu Kashmir, Kashmir Link, Kashmir Post, Pardes Comments Off on مقصد تخلیق انسان۔ اللہ اور بندوں سے پیار

Click here to View Printed Statement

کائنات کا دولہا انسان اللہ پروردگار عالم کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ رب کائنات نے اسے نعمتوں کے اتنے
انبار عطا فرما دیے کہ جنہیں دیکھ کر ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ اللہ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے”تمہارے نفوس میں میری نشانیاں موجود ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے”۔
ہم اپنی ذات سے ذرا باہر نظر دوڑائیں تو سورج’ چاند’ ہوا’ پانی ‘ستارے آسمان’زمین اور جانور سب کے سب قدرت کی نشانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انسان کی ایسے خدمت میں جتے ہوئے ہیں جیسے ان کا ہم سے بہت بڑا کام پھنسا ہوا ہے۔ ان پر نگاہ دوڑا کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سورج چمکتا’چاند دمکتا’ستار روشن’ سمندر موجزن’ ہوائیں چلتی’ پھول کھلتے’پھل پکتے اور جانور سواری و غذا کے لئے پیدا ہی ہمارے لئے کئے گئے ہیں۔ احساس کچھ یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہم آقا ہیں اور یہ ہمارے خدمت گزار حالانکہ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ان سب سے پوچھیے کہ اگر انسان نہ ہو تو تمہاری صحت پر کیا اثر پڑے گا تو یہ سب کہیں گے ہماری بلا سے۔ مگر انسان ان کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ Continue reading »

written by host