Jul 23

Click here to View Printed Statement

ملال یہ ہے کہ ملالہ بیٹی نے یو این کے اجلاس میں جو پُرتاثیر تقریر کی اس میں امریکی ڈرون حملوں’عافیہ صدیقی بہن پر عدالتی تشدد اور افغانستان پر امریکی یلغار کے حوالے سے اشارہ تک نہیں کیا۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور نئی زندگی پانے کے بعد اور بھی معصوم لگتے ہیں۔معصومیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر برائی کو برائی ہی سمجھا جائے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ طالبان تو ہر برائی کی علامت قرار دیئے جائیں اور امریکہ کو ہر اچھائی کا حوالہ ثابت کیا جائے۔ پاکستان کی بار بار کی اپیلوں کو جس طرح امریکہ نے رد کرتے ہوئے ڈرونز کے ذریعے معصوم ملالائوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا

Continue reading »

written by host

Jan 23

Click here to View Printed Statement

JANG LAHORE IQRA PAGE

NAWA-I-WAQT KARACHI MILLI EDITION

آج انسانیت مجموعی طور پر انتشار کا شکار ہے ۔تمام تر ترقی ‘خوشحالی تعلیم اور علم کے باوجود ساڑھے چھ ارب انسان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اس کرہ ارض کو نہ ختم ہونے والے فتنوں میں مبتلا کردینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔کوئی ایسا خطہ نہیں جو جنگ و جدل سے پاک ہو۔ جہاں انسان انسان کو کاٹ نہ رہا ہو۔ جہاں آدم آدم کو لوٹ نہ رہا ہو امیر غریب کو کھائے جارہا ہے۔ باوسیلہ دنیا بے وسیلہ بستیوں کو اجاڑ رہی ہے۔تقابل کا فلسفہ اپنے تمام تر منفی معنوں کے ساتھ نسل انسانی کی تباہ کاریوں میں کارفرما ہے۔ Continue reading »

written by host

Dec 11

Click here to View Printed Statement

راتوں رات تبدیلی نہیں آسکتی۔ سالوں سال بھی تبدیلی شائد نہ آسکتی ہو، لیکن یہ تو نصف صدی پر محیط المیوں اور قومی سانحوں کا دلخراش سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ فوج اور سیاستدان۔ سیاستدان اور فوج۔ دونوںایک دوسرے کیلئے میدان سجاتے رہے ہیں’ ایک دوسرے کیلئے جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب کی بار سیاستدان خاصے ہوشیار دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب ڈاکٹر علامہّ طاہر القادری صاحب ” سیاست نہیں ریاست بچائو”کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور وہ ریاست بچانے کیلئے اُسی طاقت کو بُلا رہے ہیں

Continue reading »

written by host

Jun 22

Click here to View Printed Statement

ذاتی مفادات کیلئے بااثر لوگ کس طرح قومی اداروں کو تباہ کرتے ہیں اس کی تازہ جھلک انجمن ہلال احمر پاکستان (پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی)کے نیشنل ہیڈکوارٹرز کے اندر ملازمین کے ایک گروپ کی طرف سے ہفتوںجاری  رہنے والی سیاسی ہلڑ بازی ہے ۔اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کارنر میں انسانی خدمت کے اس عظیم ادارے کا ہیڈ آفس واقع ہے۔2005ء کے زلزلہ کے دوران اس ادارے نے لوگوں کو امدادی سامان پہنچانے اور گرے ہوئے سکول و کالج بنانے میں عالمی شہرت حاصل کی تھی اور اس ادارے کی خدمات کو اخبارات میںسراہا بھی گیا تھا۔آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کے لئے بھی یہ ادارہ پیش پیش رہا تھا ‘ اس لئے نیشنل ہیڈکوارٹرز میں ہڑتال اور احتجاج کا سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔

Continue reading »

written by host

Jun 21

Click here to View Printed Statement

یوسف رضا گیلانی کو یقین تھا کہ وہ’ آرمی چیف اور چیف جسٹس 2013ء میں ایک ساتھ فارغ ہوں گے۔ اس یقین کا اظہار انہوں نے بارہا سرعام بھی کیا اور اپنے پسندیدہ بلکہ پروردہ صحافیوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں بھی کیا۔ لیکن منگل 19جون 2012ء کی سہ پہر نے ان کی وزارت عظمیٰ ان سے چھین لی۔ عدالت عظمیٰ نے بالآخر ایک خوبصورت وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ ایک ایسا شخص جن کا لباس انتہائی قیمتی تھا’جس کی اہلیہ لندن سے مہنگا ترین پرس خریدنے  میں بازی لے گئی تھی۔ جس کے تین جوڑوں کی قیمت 30لاکھ روپے تھے اور جس نے غریب  ترین ملک کا جمہوری وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھے بلکہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہونے کے بعد اپنے پرشکوہ رہن سہن میں اضافہ کیا۔

Continue reading »

written by host

Mar 06

Click here to View Printed Statements

اندازہ تھا کہ امریکی یہی کریں گے۔پاکستان کو ”باغیانہ“سوچ کی سزا ضرور دیں گے۔ جوں جوں پاکستان اقتصادی میدان میں ایران کے قریب ہورہا ہے۔امریکی غصے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکی قیادت اہل پاکستان کو سنگین نتائج سے آگاہ کر رہی ہے۔لیکن یہ آگاہی زبانی سے کہیں آگے چلی گئی ہے۔ پاکستان کو معاشی خودمختاری کے خواب دیکھنے پر اندرونی خلفشار کا شکار کرنے کے منصوبے پر بڑی تیز رفتاری کے ساتھ عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔

Continue reading »

written by host

Feb 21

Click here to View Printed Statements

جب سے امریکی کانگریس کی کمیٹی میں بلوچستان کے اندر انسانی حقوق پر ”تشویش“ بھری بحث ہوئی ہے پاکستان کے محب وطن حلقوں میں ایک سراسمیگی سی پھیل گئی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے ڈسے ہوئے پاکستانی خوفزدہ ہیںکہ پاکستان کے سقوط کی اب ایک اور عالمی سازش ترتیب پا رہی ہے اور اب کی بار شائد اس گھناﺅنی سازش کا مرکز و محور ماسکو کی بجائے واشنگٹن ہے۔امریکی کانگریس کمیٹی میں پاکستان کے کسی علاقے کے بارے میں باقاعدہ بحث ہونا اس لحاظ سے شرمناک ہے

Continue reading »

written by host

Feb 09

Click here to View Printed Statements

مضبوط خاندان ہی مضبوط معاشرے کا ضامن ہوتا ہے ۔یورپی تہذیب کو سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندانی نظام کے معدوم ہوجانے کا ہی ہے۔ امریکی اور برطانوی دانشوروں نے اسلامی تہذیب میں خاندان کے تصور اور تصویر کو ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھا اور کوشش کی کہ اپنے ہاں مقیم مسلمانوں کے ذریعے اپنے شہریوں کے اندر بھی اس نظام کی ترویج کرسکیں۔ برطانیہ میں پہلی مسلمان خاتون وزیر محترمہ سعیدہ وارثی جب اپنے عہدے پر فائز ہوئیں تو ان کی پارٹی کے رہبر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں

Continue reading »

written by host

Jan 07

Click here to View Printed Statements

علم نہیں کہ اب کی بار پیپلزپارٹی کو مظلوم بننے کا موقع ملتا ہے یا نہیں لیکن خلق خدا کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے”زرداری کب جارہا ہے“۔نااہلیوں اور بدنیتوں سے بوجھل ملکی فضاءمیں پروان چڑھنے والے عوامی غیض و غضب نے انڈے بچے دینے شروع کردیئے ہیں۔اگر ”سٹیٹس کو“ کا مخالف کوئی حقیقی عوامی لیڈر ہوتا تو وہ بیروزگاروں کی فوج کی کمان سنبھال لیتا ۔کراچی سے پشاور تک ہر چوک چوراہے پر اس کا پرہجوم استقبال ہوتا۔لیکن بظاہر وہ تمام لیڈرجو انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں

Continue reading »

written by host

Nov 30

Click here to View Printed Statements

سکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ پہلے تولوپھر بولو۔ ماسٹر جی اس محاورے کی تشریح اس طرح کرتے تھے کہ ”بچو اپنے منہ سے لفظ نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ ان لفظوں کا مخاطب پر کیا اثر پڑے گا۔ اگر آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ الزام‘ بہتان‘شرارت اور شہوت پر مبنی ہیں تو پھر ان کو زبان سے باہر مت آنے دینا کیوں کہ ان کی ادائیگی سے تہذیب شرمندہ ہوگی‘خدا اور اس کے رسول ناراض ہوں گے۔“ یہ سبق ماضی میںکوئی اہمیت رکھتا تھا۔سخت کلامی‘بدزبانی اور توتکار کو غیر مہذب اورگنوار شخص کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔

Continue reading »

written by host

Nov 07

Click here to View Printed Statements

زندگی لیتے رہنے کا نام نہیں لوٹانے کا نام بھی ہے۔ جو فرد اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے سے فائدہ اٹھا کر مسلسل اپنے دامن کو بھرتا رہتا ہے اور بدلے میں کچھ دیتا نہیں ہے وہ ایسے ہی جیسے نقب زنی کا ارتکاب کر رہا ہو۔ اسلام نے انسانی رویہ میں تبدیلی لانے کےلئے قرآن حکیم کے اندر بار بار لوٹانے پر زوردیا ہے۔مساکین‘یتیم‘بیوائیں بے سہارا لوگ‘ہمسائے حتیٰ کہ مسافر تک کے حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رویہ کی یہی وہ تبدیلی ہے جو ایک مسلمان معاشرے کو مثالی بناتی ہے۔ Continue reading »

written by host

Oct 10

Click here to View Printed Statement

اس میں کیا شک ہے کہ صحافی پیشہ خواتین وحضرات انتہائی دباﺅ کے تحت کام کرنے والے طبقات میں بلند مقام رکھتے ہیں۔حیات وممات کے اندازے لگانے والوں نے ثابت کیا ہے کہ باقی شعبوں کی نسبت صحافیوں کی عمریں کم ہوتی ہیں۔ وہ جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک میں صحافت سے وابستہ افراد کی عمریں باقی ممالک کے صحافیوں سے کہیں کم ہیں۔ کم عمری یا جواں سالی کے دوران موت کے بڑے بڑے اسباب میں ایک سبب ڈپریشن ہے۔ذہنی دباﺅ ہی اعصابی تناﺅ کو جنم دیتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Aug 04

Click here to View Printed Statements

رجوع کرلینے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟ زندگی تو گزر رہی ہے۔اس کے تمام لوازمات بھی کسی نہ کسی طور پر پورے ہورہے ہیں۔آخر انسان کو کبھی رک کر تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنی منزل کا تعین کر لینا چاہیے۔اپنے سفر اور زادہ راہ کا جائزہ لے لینا چاہیے۔اگر کسی معاشرے کے افراد سدھر جائیں تو معاشرے کو سدھرنے سے کون روک سکتا ہے۔غریب آدمی سے اعلیٰ انسانی اخلاقیات کا تقاضا عبث ہے۔اسے تو شائد مجبوری ہو جھوٹ بولنے کی‘کام چوری کی۔ غیبت‘حسد اور بدکلامی ان لوگوں کامسئلہ ہی نہیں جنہیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اسی دنیاوی جہنم سے ایندھن اکٹھا کرنا ہے۔میں اور آپ جنہیں قدرت نے خطہ غربت کے قریب جانے سے روک رکھا ہے Continue reading »

written by host

Jul 12

Dr Murtaza Mughal’s column (Moonis Elahi Ghabrana Nahin)

Which also mentions

Moonis Elahi, PML(Q), Mian Nawaz Sharif, Chaudhry Shujaaat Hussain, Majid Nizami

Click here to View Printed Statements

بالآخر میاں محمد نوازشریف نے اپنے اصولوں کو قربان کر ہی دیا۔مخالفین کہتے ہیں کہ ایم۔کیو۔ایم کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس جماعت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کی مضبوطی اور طوالت کیلئے برسوں اپنے کندھے پیش کئے رکھے۔یہ وہی جماعت ہے جسے سابق صدر اپنی”عوامی طاقت“ قرار دیتے تھے۔مجھے یہاں ایم۔کیو۔ایم کی کمزوریاں شمار کرنا مقصود نہیں۔حیرت میں ڈوبا ہوں کہ کس طرح میاں نوازشریف اور جناب الطاف حسین باہم شیروشکر ہوتے جارہے ہیں۔کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے اس بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ایک دوسرے کے ماضی کو بھول جانے کے عہدوپیماں باندھے جارہے ہیں۔رائے ونڈ اورنائن زیرو کے درمیان فاصلے مٹتے جارہے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Jun 30

Click here to View Printed Statements

لوڈشیڈنگ کی طوالت بڑھتی جارہی ہے۔ بل ہےں بجلی نہیں اور جب بجلی کی بجائے بلبلا دینے والے بل موصول ہوتے ہیں تو بغاوت کرنے کو دل مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر ”لیسکو“ ہو یا ”آئیسکو“ مضبوط گیٹ بھی ٹوٹ گرتے ہیں‘ پولیس بے بس ہوجاتی ہے اور غضبناک نفرتوں کے سامنے کوئی دلیل ٹھہر نہیں پاتی۔

آبادی کی رفتار تیز تر ہے۔ بجلی کی پیداوار کے جو منصوبے چھ کروڑ صارفین کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے وہ اٹھارہ کروڑ لوگوںکی ضروریات کیسے پوری کرسکتے ہیں؟ حکمرانوںنے سنجیدگی سے اس مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ جن مقتدر طبقات نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کی پلاننگ کرنا تھی ان کے ہاں بجلی جاتی ہی نہیں۔ ان کے ایئرکنڈیشنڈ چلتے رہتے ہیں۔دیوہیکل جنریٹر چوبیس گھنٹے سٹینڈ بائی پوزیشن میں موجود ہیں۔ ادھر واپڈا والوں نے سوئچ آف کیا ادھر ڈیزل اور پٹرول پھونکنے والے جنریٹر بجلی اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ بڑے لوگ صرف اتنا پوچھتے ہیں”جنریٹر سے ہے یا واپڈا سے؟ اور بس! یہ ہے ان کی کل پریشانی۔ باقی پریشانیاں صرف عوام اورفیکٹری مزدوروں کے حصے میں آتی ہیں۔ملک پہلے ہی قرضوں پر چل رہا ہے۔ صنعت وحرفت کا پہیہ چلے نہ چلے‘حکمرانوں کا پہیہ رکتا ہی نہیں!

تمام رکاوٹوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود بعض ادارے اور افراد اپنے طور پر قومی خدمت کے منصوبوں کو کامیاب کر گزرتے ہیں۔پاکستان میں حکومتیں ناکام اور انفرادی طور پر کام کرنے والے پاکستانی اور ان کے ماتحت چلنے والے ادارے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ذرائع ابلاغ کو ایسے تعمیری کاموں کی تشہیر کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ یہ اصحاب یقین خود بھی پبلسٹی کی بیماری سے کوسوں دور ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ کام میں مگن رہتے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Jun 23

Click here to View Printed Statements

قارئین سے التماس ہے کہ وہ سیاسی رہنماﺅں کی ایک دوسرے کے خلاف لسانی ”بدکاریوں“ سے خوفزدہ نہ ہوں۔کسی قسم کا کوئی سیاسی بھونچال آرہا ہے نہ ہی کوئی ”انقلاب“ دروازے پر کھڑا بے چین ہورہاہے۔گرمی اور حبس کے اس موسم میں سیاسی اکھاڑے کو غنیمت سمجھ کر جگت بازیوں اور جملہ آزمایوں سے صرف لطف اندوز ہونے کا سلیقہ سیکھیں تو انشاءاللہ فشار خون مستحکم رہے گا اور شوگر بھی کنٹرول میں رہے گی۔اگر اس لفظی جنگ کو اصلی سمجھ لیا جائے تو پھر کمزور دل حضرات کو لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ قومی غم کے جھٹکے بھی لگنے شروع ہوجائیں گے اور یوں شدت الم کے دورے پڑنے کا خطرہ رہے گا۔

Continue reading »

written by host

Apr 12

Click here to View Printed Statements

پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ موسم سرما کی ٹھٹھرتی شاموں میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر ہم جس ”کاجو“ سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ بھارت نہیں بلکہ نائجیریا کی پیداوار ہے۔بادامی رنگت والا یہ خشک میوہ افریقہ کے سرسبزوشاداب ملک کے جنگلات میں خود روپودوں پر لگتا ہے ۔بھارت کے کاروباری لوگ کوڑیوں کے مُول یہ جنگلی جنس حاصل کرتے ہیں پھر اس کچے ”کاجو“ کو خاص درجہ حرارت پر بھونتے ہیں‘چھیلتے ہیں اور پیکٹوں میں ڈال کر پوری دنیا میں برآمد کرتے ہیں۔غریب آدمی نے تو شائد ساری زندگی اس پرلطف میوے کو کبھی چکھا بھی نہ ہو لیکن صاحب حیثیت لوگ جانتے ہیں کہ لاہور اور اسلام آباد کی مارکیٹوں میں کس بھاﺅ فروخت ہوتا ہے۔انڈیا کے کاروباری لوگ عرصہ دراز سے اس بزنس کے ذریعے کثیر دولت کمارہے ہیں۔ Continue reading »

written by host

Dec 08

Click here to View Printed Statements

قیامت خیز بارشوں نے ریلے کی شکل اختیار کی‘توقع نہ تھی کہ سیلابی ریلے آپس میں مل کر ”طوفان نوح“ بپا کریں گے۔ جانیں تو بچ گئیں لیکن چھت بہہ گئے۔چولہے برتن‘ کپڑے‘ بپھری لہروں نے اچٹ لئے۔گندم ‘اناج‘مرچ‘ مصالحہ سب کچھ ہی تو بہہ گیا۔بہت شور اٹھا۔بین الاقوامی امدادی ٹیمیں پہنچیں۔پاکستان کی ہر سیاسی اور سماجی تنظیم نے امداد کے لئے کیمپس لگائے۔ خوراک تقسیم کی گئی۔ٹینٹس فراہم کئے گئے۔ نقد رقوم بانٹی گئیں لیکن سارے امدادی کام ابھی ادھورے ہی تھے کہ موسم سرما آگیا۔ Continue reading »

written by host

Oct 02

Click here to View Printed Statement

ماضی میں غریب غرباءاپنی غربت اور تنگدستی کو اپنا مقدر سمجھ کر دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے رہتے تھے۔بغاوت کا آپشن عام نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ساٹھ اور ستر کی دیہائیوںمیں اشتراکی نظریات اپنے تمام تر پرکشش نعروں کے باوجود پاکستانی معاشرے میں جڑ نہ پکڑ سکے اور روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ نے پاکستانی عوام کو روس سے بڑی حد تک لاتعلق ہی رکھا۔

Continue reading »

written by host

Aug 25

Click here to View Printed Statement
Click here to View Printed Statement

روزہ کھلنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں لیکن مسجد نبوی کے ہر حصے میں نمازی افطار کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہر شخص اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ افطاری لا رہا ہے جسے دروازوں پر کھڑے ہوئے دربان چیک کرتے ہیں۔کھجوریں‘قہوہ‘جوس کے ڈبے اندر لانے کی اجازت ہے۔سموسوں اور پکوڑوں کی ممانعت ہے۔ یہ پابندی اس لئے عائد ہے کہ مسجد میں گندگی نہ پھیلے۔ تھرموس میں اگر قہوہ ہے تو آپ اسے لے جاسکتے ہیں لیکن دودھ والی چائے پر دربان اعتراض کرتے ہیں۔

Continue reading »

written by host