Mar 01

Click here to View Printed Statement

پچیس برس سے اسلام آباد کے دیہی علاقے میں متوسط اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ڈاکٹر نعیم غنی سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ بے سکول بچوں کی دردناک کہانی سناتے ہیں۔”جوبچے کسی مدرسے یا سکول میں پڑھ رہے ہیں حکومت کی ساری توجہ ان کی طرف ہوتی ہے لیکن وہ اڑھائی کروڑ بچے جن کے لئے نہ سکول ہے نہ اُستاد وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔اُن کے بارے میں کسی کو فکر ہی نہیں”۔”حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جس ملک میں تعلیم کا بجٹ ہی دو فیصد سے آگے نہ بڑھا ہو اُس مُلک میں دانش سکول ایک مذاق ہی لگتا ہے”۔
”تعلیم عام کرنا اور ہر بچے کو سکول میں داخل کرنا آئینی تقاضا ہے لیکن شائد آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ صحت اور تعلیم پر سرکاری خزانے سے رقم نہ لگائی جائے اور اسے پرائیوٹائزڈ ہی رہنے دیا جائے”۔ Continue reading »

written by host

Jul 24

Click here to View Printed Statement

ایک بداندیش کالم نگار نے ”پانچ لاکھ خودکش” کے عنوان سے کالم لکھ کر قبائلی عوام کے جذبہ حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا ہے۔دانشوروں کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ ان جانے خوف پھیلا کر سامنے کی خوبصورت حقیقتوں کا مذاق اڑانے میں ہی کمال قلم و علم ڈھونڈتے ہیں۔ کیا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک خاص فلسفہ کے حامل مسلح گروہ اپنی امارت قائم کرکے پاکستان کو تاخت و تاراج کرنے کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔ محب وطن قبائلی لوگ شروع شروع میں مزاحمت کرتے رہے اوروہاں مقامی رہائشیوں اور غیر ملکی جنگجوئوں کے درمیان خونی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں لیکن جب ریاست اپنے لوگوں کا تحفظ نہ کرسکی اور وہاں کی سول انتظامیہ بھی خوفزدہ ہوکر ان خارجی عناصر کو راستہ دینے لگی تومقامی عوام خاموش ہوگئے۔ہمارے بعض دینی حلقے بھی جہاد کے نام پر گمراہ ہوئے ۔

Continue reading »

written by host

May 16

وزیراعظم آزادکشمیر کیساتھ ایک ملاقات

Jammu Kashmir, Kashmir Post, Mehshar, Metro Watch, Nawa-i-Waqt, Rahbar, Sarkar, Universal Recorder Comments Off on وزیراعظم آزادکشمیر کیساتھ ایک ملاقات

Click here to View Printed Statement

 مظفر آباد کی ہردلعزیز شخصیت اور مغل قوم کے عظیم فرزند عارف مغل حکومت آزادکشمیر میں مشیر برائے وزارت اطلاعات و نشریات ہیں ۔گزشتہ دنوں انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی پر مدعو کیا۔ ہمدم دیرنہ عظمت اللہ اور معروف صحافی اسد عباس بھی ہمراہ تھے۔ آجکل نظریہ پاکستان کی ترویج کے لئے کمر بستہ ہوں اوراللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے اس خدمت کے لئے بہتر سے بہتر مواقع میسر آرہے ہیں ۔ میں کیا اور میری ہستی کیا۔ ارادہ نیک ہو تو اسباب پیدا ہوہی جاتے ہیں۔عظمت اللہ نے بتایا کہ ان کے کلاس فیلو اور قائداعطم یونیورسٹی میں راقم کے ہاسٹل فیلوجناب فیاض علی عباسی آج کل پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کے عہدے پر فائز ہیں اور ان سے بھی ملنا ضروری ہے۔ باتوں باتوں میں یہ طے پایا کہ ممکن ہو تو فیاض عباسی صاحب کی وساطت سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے بھی ملاقات ہوجائے اور ان کو نظریہ پاکستان کے حوالے سے لٹریچر دیا جائے اور التماس کی جائے کہ پاکستان کے اساسی نظریہ سے آگاہی کے لئے تعلیمی اداروں میں خصوصی سرگرمیاں شروع کرائی جائیں۔ Continue reading »

written by host

Sep 25

Click here to View Printed Statement

حکومت اپنے دکھوں کا مداوا نہیںکرپا رہی شہریوں کے دکھوں کا درماں کیسے کرے گی۔ڈبل شاہ سکینڈل کے بعد مفتیان کا مضاربہ سکینڈل سامنے آچکا ہے۔یہاں تو ہر طرف نسیان کے مریض دکھائی دیتے ہیں۔ماضی قریب کو بھول جاتے ہیں۔جن احباب نے مفتیان کو زیادہ منافع کے لئے بھاری رقوم فراہم کیں انہوں نے ڈبل شاہ کے انجام کو سامنے نہیں رکھا ورنہ وہ ایسی غلطی نہ کرتے۔چونکہ ہم بھول جانے کے عادی ہیں۔ اس لئے ایسے سکینڈل آئندہ بھی منظر عام پر آتے رہیں گے۔دوسری بڑی وجہ حد سے بڑھا ہوا لالچ بھی ہے۔ہمارے بینکوں نے منافع کی ایک شرح طے کر رکھی ہے۔انوسٹمنٹ پر اس سے ڈبل یا ٹرپل منافع کا تصور ممکن نہیں ہے لیکن جب کوئی شخص یا گروہ آپ کو بینک کی نسبت تین چار گنا زیادہ منافع دینے کی حامی بھرے تو طبعاً آپ اس کی طرف مائل ضرور ہوجائیں گے۔

Continue reading »

written by host

Sep 19

Click here to View Printed Statement

بھارت میں عورت ذات پر حملوں کی خبریں سُن سُن کر کان پک گئے تھے۔ہرصاحب دل اور ضمیر جب عصمت دری کی خبریں سنتا ہے تو خون کے آنسو روتا ہے۔ آدمیت جہاں ہے وہ شیطانیت کیخلاف آواز بلند کرتی ہے۔ حیوانوں کے غول کسی حوا زادی کی عصمت کی چادر بمبئی میں تار تار کریں یا کسی معصوم دوشیزہ پر انگلینڈ میں حملہ ہوجائے خون کھولتا اور دل مجرموں کو سرعام پھانسی لگتے دیکھنا چاہتا ہے۔اسلام نے تو درندوں کے معاشرے میں عورت کو تقدس کی چادر اوڑھانے کا انقلابی کارنامہ سرانجام دیا اور آج جب کہ ایمان کا درجہ قرون اولیٰ والا نہیں پھر بھی عورت کیخلاف ہر جرم اور زیادتی کو بحیثیت مجموعی مسلمان نفرت اور حقارت سے دیکھتے ہےں۔

Continue reading »

written by host

Sep 09

Click here to View Printed Statement

اللہ پاک نے قرآن حکیم میں تمام انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں کو اپنے روزمرہ کے معاملات باہمی مشاورت سے چلانے کا حکم دیا ہے ۔باہمی مشاورت دراصل جمہوریت کی روح ہے اور ووٹ اور الیکشن مشاورت کے عمل کو ممکن بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ جمہوری حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد بھی ریاست کے معاملات وسیع تر مشاورت کے ذریعے طے کرتی رہیں‘جہاں مشاورت کا عمل ختم ہوا وہیں سے جمہوری آمریت نے سراٹھاناشروع کردیا۔مشاورت کا دائرہ کار صرف سرکاری امور تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔بلکہ گلی محلے کے مسائل کے حل تک وسیع ہونا چاہیے۔ کسی بھی شہری کو دو طرح کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔

Continue reading »

written by host

Aug 26

Click here to View Printed Statement

سیاستدانوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میںدل کھول کر ایک دوسرے کی دُرگت بنائی ہے۔تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق وزیر داخلہ نے اپوزیشن کو جواب آں غزل جو سنائی تو ذرائع ابلاغ بھی عش عش کر اٹھے۔ سکندر بمقالہ زمرد کے نت نئے پہلو سامنے آچکے ہیں جن میں سے بعض دلچسپ’کچھ حسرتناک اور چند عبرتناک بھی ہیں۔ اس واقعہ سے کون کیا سیکھتا ہے۔ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔بہرحال عوام جو کہ تماشبین ثابت ہوئے۔ پولیس جو کہ نااہل ثابت ہوئی ‘میڈیا جو کہ غیر ذمہ دارثابت ہوا اور حکمران جو کہ متذبذب ثابت ہوئے۔ اگر چاہیں تو اپنی اپنی حدود میں رہ کر خود احتسابی کا عمل مکمل کرسکتے ہیں اور یوں ہم آنے والے اس نوعیت کے حادثوں میں مناسب ردعمل کے اظہار کا سلیقہ سیکھ سکتے ہیں ۔

Continue reading »

written by host

Jul 04

Click here to View Printed Statement

خون ہی خون ہے۔ دو چار دن کے وقفے کے بعد پاکستانی سوچنے لگتے ہیں کہ شائد قاتلوں اور دہشتگردوں کو رحم سا آگیا ہے۔ ایک موہوم سی اُمید پیدا ہونے لگتی ہے لیکن اُمید کی ڈوری کا سرا پوری طرح تھام نہیں پاتے کہ پھر کسی چوک’ کسی چوراہے پر انسانی جسم کے خون میں لتھڑے ہوئے ٹکڑے ملتے ہیں۔ کوئی جلی لاش کسی ایمبولینس میں رکھی جارہی ہوتی ہے۔ بم دھماکہ’ریموٹ کنٹرول دھماکہ’ خودکش دھماکہ’ ٹارگٹ کلنگ’ بوری بند لاش’ اغوائ’ ہماری سماعتوں میں خوف ہی خوف بھر جاتا ہے۔ ایک پوری فضاء سوگوار ہوجاتی ہے۔صف ماتم لپیٹنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ہر انسان کش کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے والے ببانگ دہل اخبارات اور ٹی وی والوں کو فون پر بتاتے ہیں کہ جیتے جاگتے انسانوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کرنے کا کارنامہ فلاں گروپ نے سرانجام دیا ہے۔ عورتیں’بچے’بوڑھے’ شیعہ’سنی’ مسلم’ غیر مسلم ۔کوئی بھی تو محفوظ نہیں ہے۔وردی اور شیروانی ‘امیر  اور غریب سب ہی قتل گاہوں میں سربریدہ پڑے ہیں۔ بڑے بڑے دل گردے والے ٹی وی پر مقتولوں کی چلنے والی فوٹیج دیکھ نہیں پاتے۔ آگ اور خون کا یہ گھنائونا کھیل کب ختم ہوگا؟

Continue reading »

written by host

May 22

Click here to View Printed Statement

بے پناہ اور اکثر اوقات غیر ضروری معلومات تک بہ آسانی رسائی نے ہر بالغ پاکستانی کو مستقل ناقد بنا دیا ہے ۔ جس کو دیکھو جہاں دیکھو تنقید ہی تنقید ہورہی ہے۔ اس تنقیدی فضا کا نقصان بہت ہورہا ہے۔ اور وہ نقصان یہ کہ آج کا کوئی بھی بالغ پاکستانی کسی پر کسی طرح کا اعتماد کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوگئی ہے کہ خود فرد کو اپنے کئے ہوئے عمل پر بھی اعتماد نہیں رہا۔
بداعتمادی نئے نئے طرزکے رَدِعمل سامنے لارہی ہے۔ہم نے جن کو ووٹ دیئے ہمیں ان کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ۔ ہم نے جن کیخلاف ووٹ ڈالا ان کی مخالفت پر شک ہے۔ بے یقینی ایسے پھیلی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سب سے عظیم مخلوق کی’’ By Default‘‘ قسم کی خوبیوں پر بھی یقین نہیں رہا۔آگ جلاتی ہے اس کا یقین ہے‘پانی بہاتا ہے اس پر بھی یقین ہے‘مٹی اگاتی ہے اس کا بھی یقین ہے لیکن انسان بہتری لاسکتا ہے‘بگڑے معاملات سنوار سکتا ہے‘اصلاح احوال کرسکتا ہے

Continue reading »

written by host

May 01

Click here to View Printed Statement

ایسا بزدل نکلا۔کمانڈو ایسے ہوتے ہیں؟میرے بہت سے قومی بھائی کمانڈو ہیں۔ایس جی کمانڈوز۔کیا چیتے کی پھرتی ہوتی ہے ان میں۔آنکھوں سے شعلے اگلتے ہیں۔دشمن پر جھپٹتے اور بے بس کردیتے ہیں۔وہ موت کا تعاقب کرتے ہیں۔پاکستانی فوج کے کمانڈو کا نام سن کر موت خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ہماری بہادر مسلح فوج اپنے کمانڈو کو ایسے تربیتی ماحول سے گزارتی ہے کہ جسم ہی نہیں ذہن بھی لوہا بن جاتے ہیں۔انہیں مستقبل کے خوف ڈرا نہیں سکتے۔وہ واقعتاً کسی سے نہیں ڈرتے۔پاکستانی کمانڈوز کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جاتی ہے۔وہ کسی بے گناہ کا قتل نہیں کرتے۔کسی بچے کسی عورت کی جان نہیںلیتے۔وہ کسی مظلوم مہمان کو گرفتار کرکے دشمنوں کے آگے بیچتے نہیں۔وہ اپنے قومی وقار پر حرف نہیں آنے دیتے۔

Continue reading »

written by host

Apr 22

Click here to View Printed Statement

وہ کس قدرمتکبر تھا’ خود اسے بھی اپنے تکبر کی حدود کا علم نہیں تھا۔اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون بن جاتا تھا۔ اس کے اشارہ ابرو سے مملکت میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ وہ دن کے وقت طاقتور اور رات کے عالم میں انتہائی طاقتور ہوجاتا تھا۔سگار’کافی اور گلاس اس کا شوق تھے’ساغرومینا اس کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ اس نے ریفرنڈم کرایا تو رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی کہیں زیادہ ووٹ اس کے حق میں پڑتے تھے۔اس نے روشن خیالی کے نام پر ہر اچھے اور صالح خیال کا گلا گھونٹا۔

Continue reading »

written by host

Mar 12

Click here to View Printed Statement

”شوگر سے شوگر نہیں ہوتی۔انسانی جسم میں ایک خاص حد تک ہی شوگر جذب ہوسکتی ہے۔ اس قدرتی حد سے بڑھیں گے تو انسانی نظام ہضم خود بخودا کتاہٹ محسوس کرنے لگے گا۔ یہ محض ڈاکٹروں کا پراپیگنڈہ ہے کہ چینی کھانے سے شوگر کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کے اسباب کچھ اور ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ سستاسا نسخہ گھڑلیا گیا ہے”۔
ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ سکندر خان اپنے دبنگ لہجے میں شوگر انڈسٹری کو نقصان پہنچانے والے سرکاری اور غیر سرکاری اقدامات کا احاطہ کرنے لگے۔آل پاکستان شوگر ایسوسی ایشن کے سابق صدر اورخیبرپختونخواہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین سکندر خان معروف صنعت کار گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے صنعت کاروں کے اندر حکمرانوں کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور وہ قومی سطح کے متعدد فورموں پر صنعت کاروں کے مسائل اور پریشانیوں سے پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

Continue reading »

written by host

Jan 23

Click here to View Printed Statement

جتنے منہ اُتنی باتیں۔سازشی نظریے بے شمار’ہوائی تجزیے ہزار ہا۔فلسفیانہ پہلوئوں پر بحث و تحمیص تھمنے کا نام نہیں لیتی۔دانشوروں کا ایک گروہ مصرکہ اس سارے ”ڈرامے ”کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔دوسرا گروہ بعض ہمسایہ اور دوست ممالک کو چھپا ہوا ہاتھ قرار دے رہا ہے۔ہر کوئی لانگ مارچ کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہے لیکن  بدنیتی  کے سبب نہ ڈور سلجھی ہے
نہ سرا ہاتھ آیا ہے۔تحریک منہاج القرآن والے کیوں دبک کر بیٹھ گئے۔

Continue reading »

written by host

Jan 02

Click here to View Printed Statement

عام آدمی خاص کیسے بن جاتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو تگ ودو کی زندگی گذارنے  والے ہر صاحب شعور کو بے چین رکھتا ہے۔” مطالعہ’مشاہدہ اور ملاقات” یہ وہ تین ہتھیار ہیں جن سے لیس ہو کر راقم اپنی معلومات کے دائرے کو وسعت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ جناب منور مغل کا نام اکثر قارئین کے حافظہ میں محفوظ ہوگا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے جناب مغل سے مفصل گفتگو کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔لیکن میری خوش بختی کہیے کہ گزشتہ دنوں یہ موقع میسر آگیا۔فون کرنے پر جواب آیا کہ ابھی جائیں۔ Continue reading »

written by host

Dec 11

Click here to View Printed Statement

راتوں رات تبدیلی نہیں آسکتی۔ سالوں سال بھی تبدیلی شائد نہ آسکتی ہو، لیکن یہ تو نصف صدی پر محیط المیوں اور قومی سانحوں کا دلخراش سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ فوج اور سیاستدان۔ سیاستدان اور فوج۔ دونوںایک دوسرے کیلئے میدان سجاتے رہے ہیں’ ایک دوسرے کیلئے جواز پیدا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب کی بار سیاستدان خاصے ہوشیار دکھائی دے رہے ہیں۔ جناب ڈاکٹر علامہّ طاہر القادری صاحب ” سیاست نہیں ریاست بچائو”کا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور وہ ریاست بچانے کیلئے اُسی طاقت کو بُلا رہے ہیں

Continue reading »

written by host

Jul 25

Click here to View Printed Statement

کہا جاتا ہے کہ اگر مواقع اور اہلیت باہم مل جائیں تو پھر کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد اس فارمولے کو بنیاد بنا کر جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہر سماج اور معاشرے میں ایسے افراد کی بے شمار تعداد ہے جن میں صلاحیت ہے لیکن موقع نہیں ملتا اور کئی ایسے افراد ہیں جن کے پاس مواقع تو موجود ہیں لیکن ان میں صلاحیت نہیں ہے جس کے باعث وہ معاشرے کے ناکام یا ناکارہ افراد کہلاتے ہیں۔ مواقع پیدا کرنا تاکہ اہل افراد ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر کامیابیاں حاصل کریں اور معاشرہ مجموعی طور پر متحرک ہوسکے ایک اہم ترین سماجی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بے صلاحیت افراد کی ایسے خطوط پر تربیت کرنا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔یہ بھی برابر کی اہم سماجی ذمہ داری ہے۔

Continue reading »

written by host

Jul 25

Click here to View Printed Statement

مجھے”میڈیا ایتھکس” کے عنوان سے ہی اختلاف ہے’ کیونکہ کسی پراڈکٹ کی کوئی اخلاقی یا غیر اخلاقی قدریں نہیں ہوتیں ‘اقدار کا تعلق اس پراڈکٹ کے خالق کے قلب وذہن سے ہوتا ہے۔ اس لئے آج کے سیمینار کا موضوع اگر ”اہل صحافت کی اخلاقی قدریں” یعنی ”جرنلسٹک ایتھکس” ہوتا تو یہ زیادہ موزوں اور عام فہم ہوتا۔میڈیا نے کس طرح فروغ پایا اور اس کی تدریجی تاریخ کیا ہے میں اس لاحاصل بحث میں الجھ کر اپنا اور آپ کاوقت ضائع نہیں کروں گا۔میرے آپ اور اس سماج کے لئے اہم یہ ہے کہ آج ”میڈیا” کس بلا کا نام ہے اور اس کے متاثرین کی حالت زار کیا ہے۔کبھی ہمارے سماجی رویوں سے ظاہر ہوتا  تھا کہ ہر شریف آدمی پولیس سے خوفزدہ  ہے۔

Continue reading »

written by host

Jun 22

Click here to View Printed Statement

ذاتی مفادات کیلئے بااثر لوگ کس طرح قومی اداروں کو تباہ کرتے ہیں اس کی تازہ جھلک انجمن ہلال احمر پاکستان (پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی)کے نیشنل ہیڈکوارٹرز کے اندر ملازمین کے ایک گروپ کی طرف سے ہفتوںجاری  رہنے والی سیاسی ہلڑ بازی ہے ۔اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کارنر میں انسانی خدمت کے اس عظیم ادارے کا ہیڈ آفس واقع ہے۔2005ء کے زلزلہ کے دوران اس ادارے نے لوگوں کو امدادی سامان پہنچانے اور گرے ہوئے سکول و کالج بنانے میں عالمی شہرت حاصل کی تھی اور اس ادارے کی خدمات کو اخبارات میںسراہا بھی گیا تھا۔آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کے لئے بھی یہ ادارہ پیش پیش رہا تھا ‘ اس لئے نیشنل ہیڈکوارٹرز میں ہڑتال اور احتجاج کا سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔

Continue reading »

written by host

Jun 21

Click here to View Printed Statement

یوسف رضا گیلانی کو یقین تھا کہ وہ’ آرمی چیف اور چیف جسٹس 2013ء میں ایک ساتھ فارغ ہوں گے۔ اس یقین کا اظہار انہوں نے بارہا سرعام بھی کیا اور اپنے پسندیدہ بلکہ پروردہ صحافیوں کے ساتھ خصوصی ملاقاتوں میں بھی کیا۔ لیکن منگل 19جون 2012ء کی سہ پہر نے ان کی وزارت عظمیٰ ان سے چھین لی۔ عدالت عظمیٰ نے بالآخر ایک خوبصورت وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا۔ ایک ایسا شخص جن کا لباس انتہائی قیمتی تھا’جس کی اہلیہ لندن سے مہنگا ترین پرس خریدنے  میں بازی لے گئی تھی۔ جس کے تین جوڑوں کی قیمت 30لاکھ روپے تھے اور جس نے غریب  ترین ملک کا جمہوری وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ برقرار رکھے بلکہ مسند اقتدار پر جلوہ گر ہونے کے بعد اپنے پرشکوہ رہن سہن میں اضافہ کیا۔

Continue reading »

written by host

Jun 16

Click here to View Printed Statement

توانائی بحران کے حوالے سے اب کوئی دوسری رائے نہیں رہی۔ مشرف دور  کے آخری برسوں تک یہ سوچ جاری رہی کہ ملک میں بجلی اورگیس کی وافر مقدار موجود ہے اگر لائن لاسز اور چوری پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم توانائی کی ضرورتوں کو پہلے سے موجود ذرائع کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن آج چار برس مزید گذرنے کے بعد یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی ہے۔بجلی چوروں کو لگام دینے کی بجائے آج کل ان کے ناز اٹھائے جارہے ہیں۔کراچی میں کنڈا سسٹم کوئی ختم نہیں کراسکتا۔ جنوبی پنجاب  کے بعض حصوں میں بھی بجلی چوری کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سندھ کے اکثر دیہی علاقوں میں سال میں ایک بار بجلی کا بل آتا ہے جو ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے سرکاری ادارے’وزیراعظم ہائوس ‘ ایوان صدر سب بجلی کے بلوں کے نادہندہ ہیں۔بجلی کے صارفین کا چالیس فیصد حصہ باقی ماندہ ساٹھ فیصد کا بھی بل ادا کرتا ہے۔

Continue reading »

written by host