انٹرویو:ڈاکٹرمرتضیٰ مغل

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل سندھی زبان پر عبور رکھتے ہیں’ وہ سندھی پنجابی اردو اور انگریزی میں بڑے ماہرانہ  طریقے سے اپنا مافی الضمیر واضح کرتے ہیں۔ایک طرف پنجابی چینل پر بول رہے ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی پر انگریزی میں ان کے تجزیے چل رہے ہوتے ہیں۔کہیں انہیں آپ تقریرکرتے دیکھیں گے اور کہیں وہ قلم پکڑے کسی گہرے قومی ایشو کو قید قرطاس کر رہے ہوں گے۔ ان کی ہمہ جہتی کا عالم یہ ہے کہ ایک لمحے دوست احباب کے ساتھ فکری نشستوں میں بیٹھے ہیں اور دوسرے لمحے وہ سکول میں بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ان کی شخصیت کے سارے زاویے انسان’ اسلام اور پاکستان کی تکون بناتے ہیں۔ وہ اکیلے ہیں لیکن اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ اور اس انجمن آرائی کا مقصد پاکستان کا قرض اتارنا ہے۔ جو اس وطن نے دیا اسے واپس لوٹانا ہے۔قائداعظم یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا’سری لنکا سے الٹرنیٹومیڈیسن میں پی ایچ ڈی کی’پاکستان اکانومی واچ کے صدر اور ایک معروف کاروباری گروپ یو آئی جی کے کنٹری ہیڈ ہیں۔  ڈاکٹرمرتضیٰ مغل اپنے جاندار سماجی’ معاشی اور سیاسی تجزیوں کی بنیاد پر بہت کم عرصہ میں عوام اور خواص میں متعارف ہوچکے ہیں۔ قومی اور عالمی معیشت کو لاحق بیماریوں کے بارے میں ان کے بیانات قومی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سادہ لفظوں میں گہری باتیں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے تصورات اور نظریات کا ماخذ قرآن کا مطالعہ ہوتا ہے ۔ دانشور’کالم نگار اور ماہر معیشت ڈاکٹر مرتضیٰ مغل سے ہم نے ایک مختصر نشست رکھی اور معاشی پہلوئوں کے حوالے سے سوالات پوچھے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے ڈاکٹر صاحب کے خیالات کو من وعن پیش کر رہے ہیں۔

سوال:موجودہ بجٹ کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

جواب: یہ ایک سیاسی بجٹ ہے جسے اشرافیہ نے اشرافیہ کے لئے بنایا ہے ۔اس میںمیں حقائق سے زیادہ توقعات اور مفروضات پر تکیہ کیا گیا ہے اور عوام کو سبز باغ دکھائے گئے ہیں اسلئے اسے نہ تو ریفارمسٹ کہا جا سکتا ہے نہ پاپولسٹ۔ ناکام بجٹ نے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی دائو پر لگا دی ہے۔ بجٹ میں ایک لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر جس حکومت کے پاس آئی ایم ایف کا قرضہ لوٹانے کے لئے رقم نہ ہو وہ قرض واپس کیسے کرے گی۔ تمام نقلابی اقدامات صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہیں مثلاًبینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پچاس ارب کے بجائے ستر ارب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سیاسی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیںاس سے با صلاحیت افراد کو بھکاری بنایا جا رہا ہے جو معیشت پر بوجھ ہونگے۔آئندہ مالی سال میں ریونیو کی وصولیوں کا ہدف 32/34ارب روپے ہے جو موجودہ حالات میں مشکل نظر آتا ہے اور اس میں بار بار نظر الثانی ہو گی کیونکہ صنعتیں تو بند ہیں یا بنگلہ دیش منتقل ہو رہی ہیں۔ برآمدات کم اور درآمدات بڑھ رہی ہیں جبکہ کسٹم ڈیوٹیوں میں اضافہ کو محاصل میں اضافہ دکھا کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے کیونکہ حکومت کا زراعت سمیت کسی بھی من پسند شعبہ پر ٹیکس لگانے یا ٹیکس چوروں کے خلاف موثر کاروائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور الیکشن کے سال میں یہ مزید ناممکن ہو گیا ہے۔بجلی کے بحران کے حل کے لئے بجٹ میں بجلی کے بحران کے حل کے لئے 183ارب روپے رکھے گئے ہیں جو گردشی قرضہ کا چوتھائی بھی نہیں ۔ڈبل ڈیجیٹ افراط زر اور روپے کی ناقدری کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 20فیصداضافہ ایک اچھا مزاق ہے جس سے پتہ چلتا ہے ہے حکومت کو کمزور طبقات کا کتنا خیال ہے موجودہ حالات میں صحت و تعلیم کو چھوڑ کر بھی ایک غریب گھر کا خرچہ بھی کم از کم بیس ہزار ہے۔BISP کارڈ ہولڈرز کو یوٹیلیٹی اسٹورز میں کھانے پینے کی اشیا10فیصد رعایت سے  عام آدمی کو کچھ ریلیف ملنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے کیونکہ پاکستان میں کتنے عام آدمیوں کے پاس یہ کارڈ ہیں۔ عوام روٹی کو ترس رہے ہیں مگر حکومت کہتی ہے کہ بینکوں سے نقد رقوم نکالنے کی چھوٹ بھی25 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کردی گئی ہے جو ریلیف ہے۔بڑے درجے کی صنعتوں کی گروتھ صرف 1.1فیصد ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں ساٹھ فیصد کمی آئی ہے۔ ہر شعبہ زوال پذیر ہے جس سے ملک ایک طفیلی ریاست بن رہا ہے۔زرعی شعبہ کی ترقی کا بھی یہ حال ہے کہ اسی فیصد دالیں درآمد کرنا ہونگی۔ برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ عالمی قیمتوں میں بڑھوتری کے سبب اضافہ دکھ رہا ہے جو خوش ہونے کا مقام نہیں۔تیل کی مد میں حکومت تقریباً ستر ارب روپے ماہانہ کما رہی ہے اور ساتھ ہی سبسڈی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ بجلی کے نرخ آئے روز نئے منی بجٹ کی توید دیتے ہیں مگر چار سال میں بجلی پر ایک سو ارب کی سبسڈی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔خسارے میں چلنے والے ادارے جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں کے بارے میں بجٹ خاموش ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ادارے آئندہ سال بھی عوام کے خون پر پلتے رہیں گے۔بجٹ میں زراعت، سروس، کنسٹرکشن، کیپٹل مارکیٹ وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا جو بینکوں سے قرضے لینے کی پالیسی کے تسلسل کا پتہ ریتے ہیں۔ ہم ہر سال کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کی وجہ سے قرضوں پر انحصار کرتے رہیں گے جس سے بجٹ خسارہ بڑھتا جائے اور ملک غلام ہوتا جائے گا۔ ایک عام مداری بھی سمجھتا ہے کہ وہ اسی وقت کھا سکتا ہے جب تک اس کا بندر زندہ رہے گا مگر ہمارے حکمران یہ نہیں سمجھتے اور عوام کو اصلاحات کے بجائے وعدوں پر رکھا ہوا ہے جبکہ انکے لئے زندہ رہنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ خسارہ کم اور آمدنی زیادہ دکھانے کی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں جن سے آئی ایم ایف یا عوام کو بے وقوف بنانا ناممکن ہے۔ اگلے مالی سال میں بینکوں سے قرضہ لینے کی شرح کم از کم دگنی ہو جائے گی۔ایسے ہتھکنڈوں سے عوام اور حکومت کے مابین اعتماد کا رشتہ مزید کمزور ہو گا۔سراپا کرپشن میں لتھڑا حکومت کا آخری بجٹ جس میں کوئی شق بھی ایسی نہیں جسے عوام کی پزیرائی ملے گی۔وزیر اعظم نے نہ صرف طویل عرصہ تک وزیر اعظم رہنے کا ریکارڈ توڑا ہے بلکہ کرپشن، نہ اہلی، دھوکہ دہی اور اداروں کو ناکام بنانے کے ریکارڈ بھی توڑے ہیں۔حکمران مسلسل قرآن کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس میںامن و معیشت میں بہتری لانااور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ نہ تو ملک میں توانائی کابحران ہے نہ زرمبادلہ کا اصل بحران ارادوں اور نیتوں کا ہے اسی لئے حکمران ہمیں لیڈ نہیں چیٹ کر رہے ہیں۔ بجٹ میں سب سے بڑے سٹیک ہولڈر (عوام) کو بھی کم از کم سامنے ضرور رکھ لینا چاہئے اور 43فیصد خطہ غربت سے نیچے رہنے والوں کے لئے خصوصاً سوچا جانا چاہیے تھا۔ آمدن بڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات کرنا چاہیے تھے اور شہ خرچیاں کم کرنے پر بھی غور ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ اور آرمی کو ساتھ ملانے کے بعد اب ان حکمرانوں کو اللہ کو راضی کرنے کی سوچ بھی آجانی چاہیے کہ جو فرماتا ہے ”مخلوق میرا کنبہ ہے۔جس نے اس کی بہتری کے لئے کام کیا وہ مجھے پیارا ہے”۔سوال:پاکستان اکانومی واچ کا خیال کیسے آیا؟جواب:جب تک معاشرے اور ملک کے اندر اقتصادی نا ہمواریاں رہتی ہیں تعلیم ہونے کے باوجود ترقی نہیں ہوتی اوربھوک صحت کو کھا جاتی ہے۔ملک کے نامور ماہرین اقتصادیات کے اندر تحریک پیدا کی کہ بہتر اقتصادی نظام کے مختلف ماڈلز سامنے لائے جائیں تاکہ جب بھی قومی سطح پر بہتر قیادت سامنے آئے تو کم از کم اس کے لئے ”ہوم ورک” پہلے سے موجود ہو۔”پاکستان اکانومی واچ” کا قیام اسی سوچ کے تابع ممکن ہوا۔مجھے2007ء میں اس تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا۔آج اکانومی واچ کے اقتصادی تجزیئے صرف قومی ہی نہیں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوتے ہیں۔قومی روزناموں نے اکانومی واچ کے بروقت تجزیوں کی بنیاد پر اداریے لکھے ہیں۔ پاکستان اکانومی واچ ایک ایسا ادارہ ہے جو بغیر کسی خوف و خطر’ ڈر’ لالچ اور دھمکی کے حکومت کے غلط اقتصادی فیصلوں پر گرفت کرتا ہے ۔پاکستان اکانومی واچ کا یہ دعویٰ تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے سونے کے ذخائرسندھ کے تھرکول ذخائر ‘پاک ایران گیس معاہدے اور آئی ایم ایف امداد کے حوالے سے اس ادارے نے قوم کو بروقت آگاہ کرکے حکومت کو رجوع کرنے پر آمادہ کیا ہے۔تمام تر امریکی دبائو کے باوجود پاک ایران گیس معاہدے پر عمل درآمد ہورہا ہے’بلوچستان کے ذخائر بلوچستان کی حکومت کے حوالے کئے جارہے ہیں اور آئی ایم ایف کے دبائو کو بڑی حد تک بے اثر کردیا گیا ہے۔میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے اقتصادی ماڈل کی تیاری ہوجائے جس پر عملدرآمد سے ملک کو سودی نظام سے نجات ملے’دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور ہر پاکستانی کو اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے مطابق کمانے کا موقع مل سکے۔سوال:پاکستان کی معاشی بدحالی کے اسباب کیا ہیں؟جواب:پاکستان کی معاشی بدحالی میں حکمرانوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد بھی ذمہ دار ہے۔ معاشی تنزلی اللہ کی ناراضگی کا ثبوت ہے جس سے عہدہ برآہ ہونے کی کوشش اس وقت تک بار آور نہیں ہوگی جب تک ہم اللہ کو نہ منالیں۔ جھوٹ اور منافقت کو کامیابی کا زینہ تصور کر لیاگیاہے جس کی وجہ سے پاکستان اقوام عالم میں رسوا ہو کر رہ گیا ہے۔ عوام کی کثیر تعدادنے مالی کرپشن کو معمول سمجھنا شروع کردیا جس سے حکمران طبقہ کو حوصلہ ملا ہے۔سوال:گیس بحران کا حل کیا ہے؟جواب:ترکمانستان سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی درآمد مہنگی اور غیر یقینی ہے جبکہ پاکستا ن کے پاس توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے ایرانی گیس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔امریکی خوشنودی کے لئے تاپی پراجیکٹ پر ملک و قوم کا سرمایہ اور وقت برباد نہ کیا جائے اور امریکی ناراضگی کے خوف سے ایرانی گیس کی درآمد موخر کرکے ملک وقوم کا مستقبل تاریک نہ کیا جائے۔کرزئی کی کمزور’غیر موثر اور کرپٹ حکومت افغانستان سے گزرنے والی پائپ لائن کی حفاظت نہیں کر سکے گی جس کی قیمت پاکستان کوچکانا ہوگی۔ امریکی اشرافیہ کی کثیر القوی تیل و گیس کمپنیوں میں شراکت ڈھکی چھپی نہیں اور دولت آباد کے گیس کے ذخائر پر بھی ان کی اجارہ داری ہے جس کے ذریعے وہ ہمارا مستقبل برباد کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔ مقامی آئل و گیس کمپنیاں کرپشن اور اقرباپروری کی وجہ سے بیٹھ رہی ہیں جبکہ بدانتظامی ایل این جی کی درآمد میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔سوال: سی این جی کے معاملے میں حکومت کوئی قابل عمل فارمولہ بنانے میںناکام کیوں رہتی ہے؟جواب:اس وقت سی این جی کی کھپت پیداوار کے 8فیصد سے زائد نہیں’ سی این جی بند کرنے سے سارا فائدہ ایک ٹولے کو ہوگا جبکہ کسی اور ایندھن کی درآمد سے ملک کا بھاری زرمبادلہ ضائع ہوگا۔ اصل معاملہ اربوں روپے کے مزید گھپلوں کا ہے جس کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے۔پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی وزارت اپنی نااہلی کا اعتراف کرے اور بین الاقوامی تیل مافیا کے مذموم مفادت کی نگہبانی بند کرے۔ عوام کو بتایا جائے کہ روزانہ 600 ملین کیوبک فٹ گیس جو پیداوار کا 15 فیصد ہے کس سیاستدان کے دو بجلی گھروں کا بلاتعطل فراہم کی جارہی ہے جو سی این جی کی کل کھپت سے دگنی ہے۔ دیگر بجلی گھروںکو گیس فراہمی میں میرٹ کی دھجیاں کس کے حکم پر اڑائی جارہی ہیں۔پاکستان کے سب سے جدید فرٹیلائزر پلانٹ میں کس کی شراکت ہے اس شعبہ کے باقی ماندہ یونٹوں کو کون منظم انداز میں تباہ کر رہا ہے۔ گیس کم تھی تو کھاد کے کارخانے بنانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی۔ توانائی کے شعبہ کے ارباب اختیار بااثر تیل کمپنیوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور انہیں کمزور گیس سیکٹر سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ گیس کی آمدنی اور ٹیکس بھی مرکزی حکومت کو ہی ملتے ہیں۔پنجاب سارے پاکستان کو گندم’چاول ‘سبزیاں اور پھل کھلاتا ہے اور اس کی کپاس ملک کی سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی صنعت ٹیکسٹائل کو خام مال فراہم کرتی ہے جس سے سارے ملک کو فائدہ ہوتا ہے مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔مرکزی حکومت ہر معاملہ میں صوبائیت کو ہوا دینے کی خطرناک پالیسی ترک کرے اور عوام کو جمہوریت کی مزید سزا نہ دی جائے۔ الزامات کی سیاست’اقرباپروری ‘ذاتی مفادات کے حصول’باتوں اور دعوئوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کئے جائیں۔سوال:کاٹن سے ہم زرمبادلہ کماتے ہیں لیکن کاٹن پیدا کرنے  والے کا شتکاروں کا معاشی استحصال ہورہاہے!جواب:کاٹن مارکیٹ میں حکومت کی مداخلت سے کاشتکاروں کو نقصان سے بچانے کے لئے کپاس خریدنے کی بجائے انہیں براہ راست نقد امداد یابجلی کے بلوں اور آبیانہ وغیر ہ کی معافی پر غور کیا جائے۔ پلاننگ کمیشن پہلے ہی حکومت کی متوقع مداخلت کو فری مارکیٹ کے قوائد کی خلاف ورزی کہہ چکا ہے جبکہ وزارت خزانہ کے پاس ٹریڈنگ کارپوریشن کی کپاس کی خریداری کے لئے فنڈز نہیں ہیں۔ٹیکسٹائل کی وزارت کاٹن جنرز کے جاری کردہ اعدادوشمار پر فیصلے کرنے کی بجائے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے بھی کپاس کی پیداوار سمیت تمام معاملات پر رائے طلب کرنے اور میٹنگوں میں صوبوں اور کاشتکاروں کی نمائندگی یقینی بنائے۔ ملک میں 12598000 گھانٹھ کپاس کی پیداوار ہوئی جبکہ جننگ فیکٹریاں 11036018گھانٹھ کپاس خرید کر 9013925گھانٹھ فروخت بھی کرچکی ہیں۔ 71.55 فیصد کپاس کی فروخت ہوگئی ہے جبکہ صرف 1561982گھانٹھ باقی ہے جس کے لئے مداخلت کی منصوبہ بندی بلاجواز ہے اورا س کا فائدہ صرف واویلا کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کو ہوگا۔حکومت ذخیرہ اندوزوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر وسائل کا زیاں نہ کرے۔سوال: آئندہ برس بہتری کے آثار ہیں یا 2011ء والا حال ہی رہے گا؟جواب: سال 2011ء پاکستانی معیشت کیلئے انتہائی مایوس کن رہا۔ ملکی معیشت کو جہاں توانائی کے بحران اور افراط زر کے دبائو کا سامنا رہا۔ وہاں پر عالمی مالیاتی فنڈ کے دروازے بند ہونے سے غیر ملکی امداد قرضے بھی پاکستان کے لئے بند ہوگئے جس کے باعث سٹیٹ بینک روزانہ دو ارب کے کرنسی نوٹ چھاپ کر حکومتی اخراجات پورے کرتا رہا جس سے روپے کی قدر گرتی گئی۔ بجٹ میں لگائے گئے تخمینے میں غیر ملکی قرضے اور اور امداد شامل تھی اور یہ امداد قرضے نہ ملنے سے پاکستانی معیشت شدید بحران سے دوچار ہوگئی۔ سال بھر توانائی کا شدید بحران رہا جس سے کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے۔ عوام سے لاتعلق حکمراناس سال بھی معیشت کی بہتری کا کوئی انتظام اور ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ساری توجہ اقتدار برقرار رکھنے پر مرکوزکئے ہوئے ہیں۔سیاست ان کی سوچ کا محور اور معیشت ایک لایعنی موضوع ہے۔ اس سال شرح نمو میں تین سے چار فیصد کمی’ زرعی پیداوار میں سات سے آٹھ فیصد کمی’ افراط زر اور ڈالر کی قدر میں اضافہ جبکہ روپے جو امسال پانچ فیصد گرا ہے کی قدر میں کمی ہوگی۔حکومت نوٹ چھاپتی رہے گی’روپیہ گرتا رہے گا اور تجارتی خسارہ بڑھتا جائے گا جس کامداوا کشکول کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت اشرافیہ کو خوش رکھنے کے لئے ٹیکس نیٹ نہیں پھیلائے گی اور نہ ہی سالانہ چار سو ارب کا نقصان کرنے والی کارپوریشنوں کی اصلاح کی جائے گی جہاں تھوک کے حساب سے سیاسی کارکنوں کی بھرتیاں جاری ہیں۔1952 ارب روپے کے محاصل کا ٹارگٹ بھی پور انہیں ہوسکے گا۔ سالانہ حکومتی قرضے ڈیڑھ کھرب روپے ہوجائیں گے۔ تیل وگیس سمیت تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔سوال:خطے میں امن سے پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟جواب:ایران اور افغانستان سے مذاکرات پاکستان کی بڑی کامیابی ہے جس پر حکومت کی جنتی تعریف کی جائے کم ہے۔ تینوں ممالک بیرونی مداخلت مسترد کردیں تو دنیا کے اس غیر مستحکم ترین خطہ میں استحکام آئے گا اور عوام سکھ کا سانس لیں گے جبکہ معاشی ترقی قدم چومے گی۔پاکستان کی جانب سے گیس پائپ لائن منصوبہ جاری رکھنے اور ایران کی جانب سے گیس کی سپلائی دگنی کرنے کے فیصلے دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں جس سے امریکی پالیسی سازوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔تینوں ممالک اپنے فیصلے خود کریں اور ہزاروں میل دور بیٹھے کسی ملک کو مداخلت نہ کرنے دیں جس نے تینوں ممالک کو جہنم بنانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تینوں ممالک جلد از جلد باہمی اشتراک بڑھانے کے لئے معاہدے کریں اور سہ فریقی مذاکرات میں طے پانے والے معاملات کو عملی جامہ پہنائیں۔سوال:پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن عالمی ادارے شدید غذائی قلت کی وارننگ دے رہے ہیں۔آپ کیا کہتے ہیں؟جواب:یہ سچ ہے کہ پاکستان کی عوام تیز رفتاری سے غذائی عدم استحکام کا شکار ہورہی ہے جبکہ ارباب اختیار اس معاملہ کو غیر اہم سمجھتے ہوئے نظرانداز کر رہے ہیں۔غذائی عدم تحفظ کی وبا نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے مگر شہری علاقوں میں اس کے اثرات زیادہ ہیں جہاں کم از کم 37فیصد لوگ اس مہنگائی کے دور میں زندہ رہنے کے لئے خوراک پر سمجھوتہ کر رہے ہی۔ساڑھے چار کروڑ عوام روزانہ 1100 سے کم کیلوریز کھا رہے ہیں جس سے وہ زندہ لاشیں بن رہے ہیں جن کی کمزوری ان کے گھروں اور ملکی پیداوار کے لئے خطرناک ہے۔خوراک تعلیم سے زیادہ اہم ہے ۔والدین نے دو وقت کی روٹی کھانے کے لئے لاکھوں بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا جس سے ملک کا مستقبل خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔برآمدات کی خاطر عوام کو بھوکا مارنے کی پالیسی جاری ہے۔جانوروں کی برآمد سے جہاں چمڑے کے کارخانے بند ہورہے ہیں وہیں گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس سے ملک کی بچانوے فیصد سے زیادہ عوام میں پروٹین کی کمی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔غذائی عدم تحفظ کی وجوہات میں آبپاشی کے پانی کی کمی’سٹوریج کا ناقص انتظام’ فصل کی کٹائی سے قبل اور بعد کے نقصانات دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ ‘بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ’ افراط زر’پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت اور معاشی سست روی شامل ہیں۔تیل کی قیمتیں’آبادی میں اضافہ’ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ ہونا اور ناقص پالیسیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے جب حکومت بینکوں سے سارا سرمایہ اپنے اخراجات کے لئے نکال لے تو یہ ادارے زرعی شعبہ کو قرضے کہاں سے دیں گے۔

xosotin chelseathông tin chuyển nhượngcâu lạc bộ bóng đá arsenalbóng đá atalantabundesligacầu thủ haalandUEFAevertonfutebol ao vivofutemaxmulticanaisonbetbóng đá world cupbóng đá inter milantin juventusbenzemala ligaclb leicester cityMUman citymessi lionelsalahnapolineymarpsgronaldoserie atottenhamvalenciaAS ROMALeverkusenac milanmbappenapolinewcastleaston villaliverpoolfa cupreal madridpremier leagueAjaxbao bong da247EPLbarcelonabournemouthaff cupasean footballbên lề sân cỏbáo bóng đá mớibóng đá cúp thế giớitin bóng đá ViệtUEFAbáo bóng đá việt namHuyền thoại bóng đágiải ngoại hạng anhSeagametap chi bong da the gioitin bong da lutrận đấu hôm nayviệt nam bóng đátin nong bong daBóng đá nữthể thao 7m24h bóng đábóng đá hôm naythe thao ngoai hang anhtin nhanh bóng đáphòng thay đồ bóng đábóng đá phủikèo nhà cái onbetbóng đá lu 2thông tin phòng thay đồthe thao vuaapp đánh lô đềdudoanxosoxổ số giải đặc biệthôm nay xổ sốkèo đẹp hôm nayketquaxosokq xskqxsmnsoi cầu ba miềnsoi cau thong kesxkt hôm naythế giới xổ sốxổ số 24hxo.soxoso3mienxo so ba mienxoso dac bietxosodientoanxổ số dự đoánvé số chiều xổxoso ket quaxosokienthietxoso kq hôm nayxoso ktxổ số megaxổ số mới nhất hôm nayxoso truc tiepxoso ViệtSX3MIENxs dự đoánxs mien bac hom nayxs miên namxsmientrungxsmn thu 7con số may mắn hôm nayKQXS 3 miền Bắc Trung Nam Nhanhdự đoán xổ số 3 miềndò vé sốdu doan xo so hom nayket qua xo xoket qua xo so.vntrúng thưởng xo sokq xoso trực tiếpket qua xskqxs 247số miền nams0x0 mienbacxosobamien hôm naysố đẹp hôm naysố đẹp trực tuyếnnuôi số đẹpxo so hom quaxoso ketquaxstruc tiep hom nayxổ số kiến thiết trực tiếpxổ số kq hôm nayso xo kq trực tuyenkết quả xổ số miền bắc trực tiếpxo so miền namxổ số miền nam trực tiếptrực tiếp xổ số hôm nayket wa xsKQ XOSOxoso onlinexo so truc tiep hom nayxsttso mien bac trong ngàyKQXS3Msố so mien bacdu doan xo so onlinedu doan cau loxổ số kenokqxs vnKQXOSOKQXS hôm naytrực tiếp kết quả xổ số ba miềncap lo dep nhat hom naysoi cầu chuẩn hôm nayso ket qua xo soXem kết quả xổ số nhanh nhấtSX3MIENXSMB chủ nhậtKQXSMNkết quả mở giải trực tuyếnGiờ vàng chốt số OnlineĐánh Đề Con Gìdò số miền namdò vé số hôm nayso mo so debach thủ lô đẹp nhất hôm naycầu đề hôm naykết quả xổ số kiến thiết toàn quốccau dep 88xsmb rong bach kimket qua xs 2023dự đoán xổ số hàng ngàyBạch thủ đề miền BắcSoi Cầu MB thần tàisoi cau vip 247soi cầu tốtsoi cầu miễn phísoi cau mb vipxsmb hom nayxs vietlottxsmn hôm naycầu lô đẹpthống kê lô kép xổ số miền Bắcquay thử xsmnxổ số thần tàiQuay thử XSMTxổ số chiều nayxo so mien nam hom nayweb đánh lô đề trực tuyến uy tínKQXS hôm nayxsmb ngày hôm nayXSMT chủ nhậtxổ số Power 6/55KQXS A trúng roycao thủ chốt sốbảng xổ số đặc biệtsoi cầu 247 vipsoi cầu wap 666Soi cầu miễn phí 888 VIPSoi Cau Chuan MBđộc thủ desố miền bắcthần tài cho sốKết quả xổ số thần tàiXem trực tiếp xổ sốXIN SỐ THẦN TÀI THỔ ĐỊACầu lô số đẹplô đẹp vip 24hsoi cầu miễn phí 888xổ số kiến thiết chiều nayXSMN thứ 7 hàng tuầnKết quả Xổ số Hồ Chí Minhnhà cái xổ số Việt NamXổ Số Đại PhátXổ số mới nhất Hôm Nayso xo mb hom nayxxmb88quay thu mbXo so Minh ChinhXS Minh Ngọc trực tiếp hôm nayXSMN 88XSTDxs than taixổ số UY TIN NHẤTxs vietlott 88SOI CẦU SIÊU CHUẨNSoiCauVietlô đẹp hôm nay vipket qua so xo hom naykqxsmb 30 ngàydự đoán xổ số 3 miềnSoi cầu 3 càng chuẩn xácbạch thủ lônuoi lo chuanbắt lô chuẩn theo ngàykq xo-solô 3 càngnuôi lô đề siêu vipcầu Lô Xiên XSMBđề về bao nhiêuSoi cầu x3xổ số kiến thiết ngày hôm nayquay thử xsmttruc tiep kết quả sxmntrực tiếp miền bắckết quả xổ số chấm vnbảng xs đặc biệt năm 2023soi cau xsmbxổ số hà nội hôm naysxmtxsmt hôm nayxs truc tiep mbketqua xo so onlinekqxs onlinexo số hôm nayXS3MTin xs hôm nayxsmn thu2XSMN hom nayxổ số miền bắc trực tiếp hôm naySO XOxsmbsxmn hôm nay188betlink188 xo sosoi cầu vip 88lô tô việtsoi lô việtXS247xs ba miềnchốt lô đẹp nhất hôm naychốt số xsmbCHƠI LÔ TÔsoi cau mn hom naychốt lô chuẩndu doan sxmtdự đoán xổ số onlinerồng bạch kim chốt 3 càng miễn phí hôm naythống kê lô gan miền bắcdàn đề lôCầu Kèo Đặc Biệtchốt cầu may mắnkết quả xổ số miền bắc hômSoi cầu vàng 777thẻ bài onlinedu doan mn 888soi cầu miền nam vipsoi cầu mt vipdàn de hôm nay7 cao thủ chốt sốsoi cau mien phi 7777 cao thủ chốt số nức tiếng3 càng miền bắcrồng bạch kim 777dàn de bất bạion newsddxsmn188betw88w88789bettf88sin88suvipsunwintf88five8812betsv88vn88Top 10 nhà cái uy tínsky88iwinlucky88nhacaisin88oxbetm88vn88w88789betiwinf8betrio66rio66lucky88oxbetvn88188bet789betMay-88five88one88sin88bk88xbetoxbetMU88188BETSV88RIO66ONBET88188betM88M88SV88Jun-68Jun-88one88iwinv9betw388OXBETw388w388onbetonbetonbetonbet88onbet88onbet88onbet88onbetonbetonbetonbetqh88mu88Nhà cái uy tínpog79vp777vp777vipbetvipbetuk88uk88typhu88typhu88tk88tk88sm66sm66me88me888live8live8livesm66me88win798livesm66me88win79pog79pog79vp777vp777uk88uk88tk88tk88luck8luck8kingbet86kingbet86k188k188hr99hr99123b8xbetvnvipbetsv66zbettaisunwin-vntyphu88vn138vwinvwinvi68ee881xbetrio66zbetvn138i9betvipfi88clubcf68onbet88ee88typhu88onbetonbetkhuyenmai12bet-moblie12betmoblietaimienphi247vi68clupcf68clupvipbeti9betqh88onb123onbefsoi cầunổ hũbắn cáđá gàđá gàgame bàicasinosoi cầuxóc đĩagame bàigiải mã giấc mơbầu cuaslot gamecasinonổ hủdàn đềBắn cácasinodàn đềnổ hũtài xỉuslot gamecasinobắn cáđá gàgame bàithể thaogame bàisoi cầukqsssoi cầucờ tướngbắn cágame bàixóc đĩaAG百家乐AG百家乐AG真人AG真人爱游戏华体会华体会im体育kok体育开云体育开云体育开云体育乐鱼体育乐鱼体育欧宝体育ob体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育亚博体育开云体育开云体育棋牌棋牌沙巴体育买球平台新葡京娱乐开云体育mu88qh88

Leave a Reply