Click here to View Printed Statement
مغرب اور مشرق میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ مغرب اپنے فیملی سسٹم کو تباہ کرچکا ہے اور مشرق اس نظام سے ابھی تک جڑا ہوا ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں بھی یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ خاندانی نظام کا آخر فائدہ کیا ہے؟میرے نزدیک اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ حال ہی میں کرونا وباء کے دوران سامنے آیا ہے۔کتنے ہی ایسے مریض تھے جنہیں ان کے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے سنبھالا۔حالانکہ شروع شروع میں حکومت کیطرف سے بہت سختی کی گئی تھی۔کورونا کے مریض کو اچھوت سمجھ کر سرکاری ہسپتال میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا تھا۔لیکن یہ بہن بھائی اور ماں باپ ہی تھے جو بارش اور دھوپ میں وارڈ کے باہر کھڑے رہتے تھے اور ڈاکٹروں سے التجائیں کرتے تھے کہ ایک بار ان کو اپنے مریض کو دیکھ لینے دیں۔جب ادوایات کی فراہمی عام ہوگئی تو گھر والوں نے اپنے مریض کو گھر میں ہی آئسولیٹ کیا اور انہوں نے مریض کو نفسیاتی طور پر بے سہارا نہیں ہونے دیا۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
بارشوں نے شہروں کے چھپے ہوئے گند کو ہی نہیں اچھالا ہمارے دل ودماغ میں بھری ہوئی بدبو کو بھی شاہراہوں پر انڈیل دیا ہے ۔سیاستدان،میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین سب کسی دلچسپ ویڈیو کی تلاش میں ہیں ۔کسی ڈوبتے ہوئے ٹینکر کی تصویر مل جائے ،کسی گٹر میں پھنسے ہوئے بچے کی لاش مل جائے ،کوئی چوتھی منزل سے چھلانگ لگاتا دکھائی دے جائے ،کسی کے گھر پانی گھسے اور دوشیزائیں بھاگتے ہوئے نظر آجائیں ،کسی عورت کا لخت جگر بپھری لہروں میں بہہ جائے۔کہیں سے کچھ ایسا مل جائے جس سے تقریر دلپذیر ہوسکے ،جس سے ریٹنگ بڑھ سکے اور جس سے ویڈیو کلپ وائرل ہوجائے ۔مجھے ایک ویڈیو کلپ دیکھ کر بیحد دکھ ہوا کہ درجنوں لوگ اپنے موبائل فون لیے ایک پل کے بہہ جانے کی ہنس ہنس کر ویڈیو بنا رہے ہیں۔پانی کا بہاؤ اسقدر شدید تھا کہ دو تین منٹوں میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے وہ پل اڑ گیا اور لوگوں نےِِ”وہ گیا،وہ گیا ”کے مسرت بھرے قہقے لگائے ۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
پوری دنیا میں جنگوں اور تباہیوں کے نتیجے میں ہر وقت ہجرت اور نقل مکانی کا تکلیف دہ عمل جاری رہتا ہے ۔انسانی زندگی کی دشواریاں بڑھتی رہتی ہیں ۔ہر سال لاکھوں لوگ مہاجر بنتے ہیں،بے گھر ہوتے ہیں ۔یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔بیواؤں اور یتیموں کیلئے زندگی ایک سزا بن جاتی ہے ۔بے بسی کی اس زندگی میں کوئی غم بانٹنے والا ہو ،کوئی پیاسے کو پانی پلائے ،کوئی بھوکے کوکھانا ،کوئی بے گھر کو چھت دے ۔مریض کیلئے دوا پہنچائے اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھے ۔مصیبت کا شکار انسان خوشحال انسانوں سے مدد کی امید لگائے رہتے ہیں ۔اس کار خیر کے لیے پوری دنیا میں ادارے موجود ہیں۔خیرات کرنے والوں کی کمی نہیں اور اس خیرات کو مناسب اور احسن انداز میں ضرورت مندوں تک پہنچانے والی خدمت گار تنظیمیں بھی بڑی تندہی سے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں ۔ایک ایسا ہی نامور ادارہ خبیب فاؤنڈیشن بھی ہے ۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ اعلان کسی مسلمان ملک کے امرا ء کرتے ۔دنیا میں مسلمان ملکوںکی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے ۔بعض ممالک توایسے ہیں جن کے حکمران سونے سے تعمیر کردہ محلات میں رہتے ہیں ،ہیرے جواہر جڑی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے واش رومز میں لگے کموڈ بھی چاندی کے ڈھلے ہوتے ہیں ۔دنیا کے امیر ترین لوگوں میں دس کا تعلق مسلمان ملکوںسے ہے۔ عربوں کے پاس اربوں کا شمار محال ہے،ان کی بے بہا دولت کے تذکرے میڈیا کی زینت بنتے ہیں ۔پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں میں جناب شاہد خان ،جناب میاں محمد منشا ،جناب آصف علی زرداری ،سر انور پرویز،میاں محمد نوازشریف ،جناب صدرالدین ہاشوانی ،جناب عبدالرزاق داؤد،جناب ملک ریاض اور جناب طارق سیگل جیسے لوگ موجود ہیں ۔لیکن بعض ایسے بھی امیر ترین لوگ ہیں جو ایک دو کروڑ کی کمی سے ٹاپ ٹین میں آنے سے رہ گئے ہوں گے ۔جہانگیر ترین ،علیمہ خان ،جنرل کیانی کے بھائی ،علیم خان اور اس طرح کے سیکڑوں پاکستانی ہیں جن کی دولت بے حساب ہے ۔لیکن ایسا اعلان کسی مسلمان ارب پتی کو نصیب نہیں ہوا۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
موذی وائرس کوڈ 19 انسان ساختہ ہے یا قدرتی اس راز سے تو شائد ہی کبھی پردہ اٹھ سکے لیکن اس وباء کی نتیجے میں ہر قوم اور ملک کی صلاحیتوں کا خوب اندازہ ہوگیا ہے۔پہلی دنیا اور تیسری دنیا برابر کھڑے ہیں بلکہ ترقی یافتہ اقوام اس وائرس کے سامنے مکمل طور پر بے بس دکھائی دیئے ہیں۔عالمی رہنماؤں کے رویے بھی دلچسپ رہے ہیں۔عدم یکسوئی نے بڑی بڑی شخصیات کے کھوکھلے پن کو ظاہر کردیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ جن کی متلون مزاجی سے سیاسی لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں انہوں کرونا وائرس سے نپٹنے کیلئے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔صدر ٹرمپ اپنی ریاستوں پر باربار حملہ آور ہوئے ہیں۔وہ کرونا کے علاج کیلئے الٹےسیدھے طبی مشورے بھی دیتے رہے ہیں۔جراثیم کش ادویات کے استعمال کا مشورہ بھی ٹرمپ نے ہیدیا ہے۔امریکی صدر پر مخبوط الحواس ہونے کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ ٹرمپ کی توجیہات اور راجہ بازارمیں بیٹھے کسی سنیاسی بابا کے مشوروں میں کوئی فرق نہیں۔چونکہ ہمارے وزیر اعظم کا بھی صدر ٹرمپ کےدوستوں میں شمار ہوتا ہے اس لئے پاکستان بھی کورونا سے نپٹنے میں عدم یکسوئی اور فکری افرا تفری کا شکارہے۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
ملاقاتیںتو پہلے بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ ملاقات خاص ثابت ہوئی۔ ایک دوست کے ہمراہ جنرل صاحب سے چند منٹ کی حاضری کیلئے وقت مانگا تھا،لیکن وقت گزرنے کااحساس ہی نہ ہوا۔جنرل اسلم بیگ نے ملکی صورتحال پر کا جو تجزیہ فرمایا وہ سننے کے لائق تھا ۔یوں سمجھئے کہ ہر پاکستانی کے دل کی آوازہے ۔جنرل صاحب کی گفتگو سے میں نے جو تائژ لیا وہ اسطرح کا ہے کہ پاکستان میں امریکی لابی نے معاملات کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میںکررکھا ہے اور ہمارے قومی اداروں میں اختلافی سوچ کے حامل لوگوںکو کھڈے لائن لگا دیا جاتاہے ۔ہماری خارجہ پالیسی امریکی ڈکٹیشن کے مطابق چلتی ہے ۔یہ تائژ بھی قائم ہوا کہ پاکستان کو چین سے دور ہٹانے کیلئے بھارت کا ہوّا دکھا کر بلیک میل کیا جاتا ہے ۔جنرل صاحب کا کہنا تھا پاکستان میںمذہبی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت امریکی اثرورسوخ کا ردعمل ہے اور اگر ان جماعتوں کو مین سڑیم میں نہ لایا گیاتو پاکستان کے قومی وجود کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ لیکن امریکہ ان جماعتوں کا شدید مخالف ہے ۔پاکستان ،ایران اور افغانستان کا ایک بلاک بننا چاہیے ۔اس خطے میں امن ،ترقی اور خوشحالی کا یہی واحد راستہ ہے ۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
میرا مقصد کسی کی دلآزاری ہر گز نہیں تھا ۔قرآن کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے حوالے سے میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ ہمیں یہ ملک اسلام اور قرآن کے ذریعے سے ملا ہے اور اس کو درپیش قومی اور بین الاقوامی چیلنجزسے نبٹنے کیلئے ہمیں قرآن سے ہی رہنمائی لینی چاہیے ۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی ہماری سوچ قرآنی ہدایات کے تابع ہی ہونی چاہیے ۔یہ قرآن کا حکم ہے کہ جن لوگوں پر ظلم ہورہا ہو ،جن کے حقوق دبا لیے گئے ہوں اور جو مدد کیلئے پکار رہے ہوں ان کی مدد کیلئے اور انہیں ظالم قوت سے نجات دلانے کیلئے مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کو آگے بڑھنا چاہیے اورعملی جہاد کا اعلان کرنا چاہیے ۔حکم ہوتا ہے کہ،
”اور تمہیں کیاہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس عورتوں اور مردوں اور بچوں کیلئے نہیں لڑتے جو دعائیں کرتے ہیں کہ پرور دگار ہمیں اس ظلم سے نجات دلا اور ۔۔۔۔۔اپنی طرف سے ہمارا کوئی مددگار بھیج ”۔
Continue reading »
written by drmurtazamughal
Click here to View Printed Statement
ترقی کے سارے اشاریے بیکار ہیں اگر ملک کے مفلوک الحال عوام کے حالات نہیں سدھرتے۔بین الاقوامی طورپر بھی اب سماجی رہنما اور دانشور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر معاشرے اور ملک کو ترقی کے ایسے اہداف مقرر کرنے چاہیں جو غربت کے مستقل خاتمے کا سبب بنیں ۔اس کیلئے جہاں سماج کی کچھ اجتماعی ذمہ داریاں ہیں وہیں حکومتوں ،پالیسی سازاداروں اور سب سے بڑھ کر کاروباری اداروں کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ گئی ہیں ۔دنیا میں جوں جوں دولت کی فراوانی بڑھتی جارہی ہے توں توں غربت میں بھی اضافہ ہوتا جارہاہے ۔بظاہر خیرات کرنے والے ملکوںاوراداروں کی کمی نہیں لیکن پھر بھی تعلیم،صحت اور تحفظ سے محروم طبقات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ایسا کیوںہورہا ہے؟
Continue reading »
written by drmurtazamughal