Aug
27
|
Click here to View Printed Statements
اسلام تو آیا ہی امن قائم کرنے کے لئے ہے۔ جو شخص‘گروہ ‘ ملک اور قوم ظلم کرے وہ ظالم ہے اور قرآن اورا سلام میں ظالم کے لئے انتہائی بلیغ اصطلاح ”باطل“ استعمال کی گئی ہے۔”جاءالحق وذحق الباطل“ کی نویدسناتے وقت قرآن نے مسلمانوں کو یہی درس دیا ہے کہ تم باطل کیخلاف دل ‘زبان اور ہاتھ سے جہاد کرو اور اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں نصیب ہوجائے گی‘باطل بھاگ جائے گا‘ حق جیت جائے گا او ر امن قائم ہوجائے گا۔باطل قوتیں ہی ظالم قوتیں ہوتی ہیں۔غاصب اور قابض ۔ایسی سفاک قومیں جو دیگر کمزور قوموں پر قبضہ کر لیتی ہیں۔ ان کے مال مویشی‘ان کی عزت و آبرو کو لوٹ لیتی ہیں۔ ان کے گھر بار چھین لیتی ہیں۔ ان پر یلغار کرتی اور بستیوں کی بستیاں آگ لگا کر خاکستر کر ڈالتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں قرآن اپنے ماننے والوں کو پکارتا ہے :۔” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ خدا کی راہ میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے نکال کر کہیں اور لے جا کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا ۔ اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما“۔(سورہ النساءآیت75)۔مسلمان دراصل نام ہی انسانوں کے اس گروہ کا ہے جو ظالم کا ہاتھ پکڑیں اور مظلوم کی مدد کو پہنچیں تاکہ معاشرے اور دنیا میں امن قائم ہوسکے۔امن ہر خیرپسند انسان کی پہلی اور آخری خواہش ہے۔امن ہر مذہب‘ دین اور عقیدے کا منتہائے مقصودہے۔امن انسانیت کی حتمی منزل ہے۔امن خوشحالی کاضامن ہے۔ امن کی دعا پیغمبروں نے مانگی ہے۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جب کعبہ کی تعمیر فرما رہے تھے تو دعا مانگتے جارہے تھے کہ” اے بار الٰہی اس گھر کو امن کا گھر بنا دے“۔جہاں امن نہیں ہوتا وہاں سے خوشحالی‘سلامتی اطمینان‘سکون اور آسائش اٹھ جاتی ہے۔بدامنی میں مبتلا معاشرے عذاب الٰہی سے دوچار ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جن معاشروںمیں ظلم ہوتا ہے وہاں سے امن بھاگ جاتا ہے۔آپس میں جنگ و جدل شروع ہوجاتی ہے‘خانہ جنگیاںبستیاں اجاڑ دیتی ہیں۔ انسان انسان کو کاٹتے ہیں۔ ایسے معاشرے آپس کی جنگوں اور خون خرابے سے ایک دوسرے کو ختم کر لیتے ہیں۔ آج کل کراچی میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ظہور اسلام سے قبل عرب معاشرہ بدامنی کا شکار تھا۔قبائل آپس میں دست وگربیان رہتے تھے۔امن اس خطے سے روٹھ گیاتھا اور انسانیت مدد کو پکار رہی تھی۔اسلام نے دس برس تک ظلم مٹانے والی جماعت کی تربیت کی‘ جماعت تیارہوئی اور ایک ریاست قائم کردی گئی۔ پھر ظالموں نے ‘باطل قوتوں نے ‘اپنی فطرت کے عین مطابق خیر کی اس ریاست ‘ اس قوت کو مٹا دینے کی کوشش کی ۔جنگ بدر‘جنگ احد‘جنگ خندق بپا ہوئیں۔اسلام نے شر کو مٹانے اور فتنہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینے کے لئے جہاد بالسیف کا حکم دیا۔ قرآن کا حکم آیا” اور قتل کرو ان کو حتی کہ فتنہ ختم ہوجائے۔“ظلم کے قلعے مسمار ہوتے گئے۔حضرت علی مرتضیٰ فاتح خیبر ہوئے۔ظلم کا‘ فتنہ کا سب سے مضبوط قلعہ آپ کے ہاتھوں سے تاراج ہوا۔کیونکہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہ ۔علیہ السلام نے فرمایا معاشرے کفر کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن ظلم اور ناانصافی کے ساتھ نہیں رہ سکتے“۔جب تک فتنہ وفساد پیدا کرنے والی طاقتیں فساد پھیلاتی رہیں گی‘فتنے پنپتے رہیں گے۔تو پھر عالمی سطح پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے تو پھر اس ”ویلج“ پر حاوی طاقتوں کو شر پھیلانے سے باز رہنا ہوگا۔ فساد برپا کرنے سے رکنا ہوگا۔اگر ایسا نہیں تو پھر امن کی بات کرنا دھوکہ ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسرائیل نے امریکی اور مغربی طاقتوں کی آشیرباد سے مظلوم فلسطینیوں کے وطن پر نہ صرف قبضہ کر رکھا ہے بلکہ ان کو محاصرے میں لے کر نان و نفقہ تک پہنچنے نہیں دے رہے۔وہاں بچے دودھ کو ترستے ہیں۔ اگر اہل ترکی ان مظلوموں کی مدد کی بات کرتے ہیں ‘ان تک خالص انسانی ہمدردی کے جذبے سے سامان زیست پہنچانے کے لئے فلوٹیلاکارواں چلتا ہے تو اسرائیلی فوجیں انسانی ہمدردی کیلئے جانے والے اس امدادی قافلے پر گولیاں چلاتی اور مدد کو جانے والوں کو شہید کردیتی ہیں۔ کیا تمام انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں پرفرض نہیں کہ وہ ان مظلوموں کی مدد کے لئے متحرک ہوں جن کے گھر بار پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ آج زبان بندی کی جارہی ہے کہ کشمیر کی آزادی کا ذکر نہ کریں۔ بھارتی فوجوں نے مظلوم کشمیریوں کے ایک لاکھ نوجوانوں کو شہید کردیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے تمام ادارے چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی قتل گاہ بن گئی ہے۔ لیکن امریکہ جو کہ سب سے بڑی طاقت ہے وہی سب سے بڑا ظالم بھی ہے۔ اس نے ظلم میں بھارت کا ساتھ دیا ہے اسے اس خطے کا تھانیدار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔بتایئے کہ ایک کروڑ کشمیریوں پر ظلم ڈھا کر اس ساﺅتھ ایشیاءمیںامن کیسے قائم ہوسکتا ہےکہا جاتا ہے کہ عراق میں صدام حسین ظلم کرتا تھا‘امریکہ اسی ظالم صدام حسین کی آٹھ برس تک ایران کےخلاف پشت پناہی کر تا رہا۔ لیکن جب چھوٹے ظالم نے بڑے ظالم کے خلاف بغاوت کردی تو پھر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔آج وہاں ہر روز قتل ہوتے ہیں۔ہر روز دھماکے ہوتے ہیں۔ اور بہت ممکن ہے کہ پاکستان کی طرح یہ دھماکے بھی امریکی بلیک واٹرز والے خود ہی کروا رہے ہوں تاکہ ان کی ظالم فوجیں موجود رہ سکیں۔قرآن کا حکم ہے کہ مظلوموں کو ان ظالموں سے نجات دلانے کے لئے آگے بڑھیں تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور امن قائم ہوسکے۔ جب تک فلسطین پر اسرائیل قابض ہے‘ جب تک عراق میں امریکی فوجیں موجود ہیں بتایئے کہ خطہ عرب میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے۔آخر ایسا امن کہاں سے لایا جائے جو ابوغریب جیل میں ڈھائے جانے والے مظالم کو بھلا دے۔!افغانستان میں پر قبضہ نہیں تو اور کیا ہے۔ آپ اور ہم سب امن کے خواہاں ہیں۔بتایئے آپ کے گھر پر بم مارا جائے۔ دیواریں تک جل جائیں اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر ظالم آپ سے کہے بولو”امن ہوگیا“ یہ کیسے ممکن ہے صاحبان علم و دانش بتایئے یہ کیسے ممکن ہے۔ ہماری ذہنی غلامی کی حالت تو یہ ہے کہ ہم قابض فوجوں کو نیٹو فورسز کہتے ہیں قابض نہیں لکھتے۔ہم آزادی کی جدوجہد کرنے والے افغان مجاہدین کو دہشتگرد اور شرپسند لکھتے ہیں آزادی کے متوالے نہیں مانتے۔ دنیا کے سب سے غریب ملک افغانستان پر ڈیزی کٹربموں کی موسلادھار بارش کردی گئی ۔لیکن ہم امریکی فوجوں کا ہر اول دستہ بن گئے۔ ظالم کا ساتھ دینے والا مظلوم تو نہیں ہوسکتا۔ ظالم کا ساتھی بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔ اور دو ظالم مل کر ظلم میں اضافہ کرسکتے ہیں‘رحم نہیں کھاسکتے۔ اس ظلم کیخلاف جو بولے وہ انتہا پسند ہے‘وہ دقیانویس ہے‘سانس لینے کا حق نہیں‘ زبان کھولنے کی اجازت نہیں۔!میں وضاحت کرتا چلوں کہ قابض فوجوں کیخلاف لڑنا اور ان سے آزادی حاصل کرنا انسانی حق ہے۔ اسلام ایسی تمام قوموں اور گروہوں کی کھلی حمایت کا اعلان کرتا ہے جن کے حقوق غصب کر لئے گئے ہوں۔لیکن وہ گروہ جو پاکستان کی دشمن طاقتوں کی شہ پر عام پاکستانیوں اور عام مسلمانوں پر حملے کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں وہ بھی فسادیوں میںشمار ہوتے ہیں۔دارالحرب یہاں نہیں افغانستان میں ہے۔سچے مجاہدین اسلام کبھی ظالم ہو نہیں سکتے۔آج کی صورتحال میں امریکہ کے ظلم کی شکلیں بدل چکی ہیں۔حال ہی میں فاٹا کے سیکرٹری نے یہ انکشاف کرکے حیران کردیا کہ جب سے صوبہ خیبرپختونخواہ میں غیر ملکیوں کے داخلے بند کردیئے گئے ہیں خودکش حملوں میں کمی ہوگئی ہے۔ظالمان اورمجاہدین کے نام کو آپس میں مدغم کردیا گیا ہے۔ دھماکوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے ”ترجمان“ بھی مشکوک ہیں۔شیعہ سنی اوربریلوی ‘دیوبندی کے درمیان اختلاف کو نفرت میں بدلنے والے اوراس نفرت کی بنیاد پر قتل گاہیں سجانے والوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ اب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ عالمی سطح کی طاغوتی طاقتیں چاہتی ہیں کہ امت مسلمہ متحدنہ ہوسکے‘مسلمانوں کے انتشار کا فائدہ نہ تو شیعہ کو ہے نہ سنی کو۔ آخر ہم ان طاقتوں کو ظالم کیوں نہیں کہتے جو اس افتراق اور انتشار کو ہوا دے رہی ہیں۔ظالم اور مظلوم فطرتی تقسیم ہے۔ جو بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ظلم کا ساتھ دے گاوہ امن کا دشمن اور قرآن کا مخالف ہے۔آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی امن‘ اور علاقائی امن اور ہمارے ملک میںاور خطے میں امن ہو تو دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو ایک بار پھر سے قرآن کے پیغام امن کو اپنا نصب العین بنانا ہوگا اور قرآن عالمی امن قائم کرنا چاہتا ہے‘ عالمی ظلم مٹا کر کیوں کہ ظلم اور امن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے!