Jun
08
|
Click here to View Printed Statement
ایسا کبھی ہوا نہیں کہ دنیا سے شر مکمل طورپر ختم ہوگیا ہو۔انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبردآزما رہتی ہیں ۔آپ اسے حضرت انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ۔ان شرانگیز طاقتوں کو آپ نیگیٹیو فورسز کا عنوان دے سکتے ہیں ۔قرآن انہیں شیطانی طاقتوں کا نام دیتا ہے ۔ہر منفی سوچ ،ہر تخریبی تصور ہر انسان دشمن منصوبہ ،ہرابلیسی حربہ چاہے اس کا محل وقوع انسان کی اپنی ذات ہو ،اس کا ماحول ہو،ملک ہویاسرزمین ہو
،شیطان ہی کی کارستانی قرار پائے گی۔ہوس ،لالچ،ظلم ،استبداد ،بدعنوانی ، بدامنی،بد عہدی ،دھوکہ دہی ،نوسر بازی ،بزدلی ،منافقت،ہیجان انگیزی ،خیانت، جھوٹ ، فراڈ ،بے ادبی ،فریب کاری ،بعض وعناد،انا پرستی ،چوری ،ڈاکہ زنی ،قتل وغارت اور وحشت وبربریت یہ تمام وہ بیماریاں ہیں جنہیں شیطان نے ایجاد کیا ہے اور وہ کمال ہوشیاری کیساتھ انسانی دل ودماغ میں ان کی پیوندکاری کرتا ہے اور انسان کو شرکے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔تشکک اور بے یقینی ،مایوسی اور غفلت جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر شیطان جب حملہ آور ہوتا ہے تو بڑے بڑے پختہ عزم انسان ریت کا ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔شیطان کا تصور ہر مذہب اور عقیدے کے پیروکاروں میں اپنے اپنے ناموں اور حوالوں سے موجود ہے ۔قرآن نے اس تصور کو بڑے بلیغ پیرائے میں بیان فرمایا ہے ۔
”شیطان نے کہا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر (چلنے والے )انسانوں کی گھات میں لگارہوں گا۔آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں ہر طرف سے انہیں گھیروں گا اور توان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“(سورة اعراف)
حدیث نبوی ہے :۔
”شیطانی وسوسے تمہارے وجود میں خون کی طرح گردش کرتے ہیں “
فطرت نے انسان کو شیطان کے مقابلے میں تنہاءنہیں چھوڑا ۔یہ ہرگز نہیں کہ انسان شیطان کے مقابلے میں بے بس پیدا کیا گیا ہے ۔خالق نے انسان کو پیدا کرتے وقت پانچ چھ فٹ قد کے اس جسم کے اندر ہی وہ آلہ لگادیا ہے جو انسان کو قدم قدم پر آگاہ کرتا ہے کہ تم اب شیطانی قوت کے زیر اثر آرہے ہو۔جس طرح گاڑی اوورسپیڈ ہونے پر سرخ رنگ کی بتی اور آلارم بجنا شروع ہوجاتے ہیں اسی طرح انسان کے اندر ضمیر نام کا ایک آلارم بجنا شروع ہوجاتا ہے ۔غافل سے غافل انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں ہے ۔وہ جنگل میں رہتا ہو ۔یا بازاروں کے شورشرابے میں زندگی بسر کرتا ہو،حرف شناس ہویا ان پڑھ ۔رنگ ،نسل ،زبان اور عقیدے کی تفریق کے بغیر جوروح بھی لباس فطرت میں ڈھلی ہے اسے ضمیر کا آلہ لگاکر بھیجا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے ۔
اور گواہ ہے وہ نفس انسانی (ضمیر) اور اسکی ذات جسے ہم نے ہموار کیا۔پھر اس کی بدی اور پرہیز گاری اس پر الہام کردی۔یقینا فلاح پاگیا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے دبادیا۔(سورة شمس)
قرآن نے احسن تقویم کا ٹائٹل ہی انسان کو اسی لئے عطا کیا ہے کہ وہ واحد جاندار ہے جو اچھائی اور برائی میں تمیز کرسکتا ہے ۔ جس طرح شیطان منفی ہتھکنڈوں سے مسلح ہے اسی طرح انسان اپنے ضمیر کی زبردست طاقت سے مز ّین ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آفرینش سے لیکر آج تک شر اور خیر باہم نبردآزما رہتے ہیں ۔ایسا کبھی ،کسی دور میں نہیں ہوا کہ شر غالب آجائے اور خیر کی قوت مفتوح ہوجائے ۔ایسا ہوتا تو انسانیت کا قافلہ بیچ راہ کے فنا ہوچکا ہوتا ۔آج ساڑھے چھ ارب انسانوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ خیر کی طاقتیں مفقودنہیں بلکہ موجود ہیں ۔
بقول اقبالؒ:۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مُصطفوی سے شرارِ بوالہبی
سوئے ہوئے ضمیر کو الہامی کتب ہی جگاسکتی ہیں
آپ اپنے گھر سے سکیورٹی آلارم کو ہٹا دیجئے یا اس کی تاریں کھینچ دیں تو پھر واردات کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔نہ آلارم بجے گا نہ آپ جاگیں گے ۔نہ اپنے مال واسباب کا تحفظ کرسکیں گے ۔نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کو اگر مسلسل ایک ماہ تک کسی واقعہ پر ضمیر نہ جھنجھوڑے تو سمجھئے کہ انسان کا ضمیر سورہا ہے ۔یعنی الارم کا کنکشن کٹ گیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ضمیر کبھی نہیں سوتا ۔دراصل انسان اپنے کان بند کرلیتا ہے ۔طیش اور عیش انسانی دل ودماغ کی دوایسی حالتیں ہیں جن میں مبتلا ہوکر انسان اپنے جاگے ہوئے ضمیر کو بار بار سلانے کی پریکٹس کرتا ہے ۔شیطان کی جیت کا یہ عجب منظر ہوتا ہے ۔یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو ماررہا ہوتا ہے ۔وہ اس قدر شقی القلب ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کے سب سے بڑے محافظ یعنی ضمیر کو اپنے ہاتھوں سے بے بس کردیتا ہے ۔ایسی حالت سے نکلنے کیلئے ہی عقیدے اور ایمان کی ضرورت پڑتی ہے ۔خالق کائنات نے مردہ ضمیر انسانوں کو جگانے اور واپس فطرت کی طرف لوٹانے کیلئے اپنے پسندیدہ انسانوں یعنی پیغمبروں کے ذریعے زندگی کی گائیڈ بکس اتاری ہیں ۔!
ارشادرباّنی ہے :۔
”اے نبی ﷺ ہم نے تم کو شہادت دینے والا ،بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاﺅ،اس کے رسول کا ساتھ دو اس کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح شام اللہ کی تسبیح کرو۔“(سورة فتح)
مذہب ،دین اور ایمان یہ کوئی ایسی غیر ضروری یا نمائشی اشیاءنہیں ہیں جنہیں انسانی زندگی کو محض زیبا بنانے کیلئے اتارا گیا ہو ۔زندگی کی گاڑی کو کامیابی کی پٹڑی سے نہ اترنے دینا اور متعین وقت میں منزل تک پہنچا دینے کیلئے ضمیر کافی ہے لیکن چونکہ انسان اس آلارم کو جان بوجھ کر سلادیتا ہے اس لئے اسے واپس پٹڑی پر لانے کیلئے الہامی ہدایات کی ضرورت ہوتی ہے ۔جس طرح کار بنانے والے کو علم ہے کہ کار کا مینوئل کیا ہوگا ۔اسی طرح انسان کے خالق کو علم ہے کہ انسان کی کامیابی کیلئے کون کون سی حدود وقیود اور کس طرح کی احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہوگی ۔خالق کائنات نے بڑی محنت ،انتہائی محبت اور بے پناہ چاہت کیساتھ وحی کے ذریعے ہر امت ہر گروہ کیلئے ہدایات نازل فرمادی ہیں ۔
ارشاد رباّنی ہے ۔
”یہ بڑی بابرکت کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں۔“(سورة ص)
انسانیت کا اہم مسئلہ
انسانیت کے سارے مسائل کی جڑ الہامی تعلیمات سے دوری ہے ۔الہامی تعلیمات سے گریز نے ہی آج کے انسان کو شیطانی قوتوں کے آگے بے بس بناکر رکھ دیا ہے ۔ سائنس اور سائنسی طرز فکر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے انسانی ذہنوں کو شک میں مبتلا کردیا ہے ۔جب تک کسی معاملے میں انسان خود تجربات کرکے کسی نتیجے تک نہ پہنے وہ معاملے کی صداقت اور حقانیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا ۔انسانی ذہنوں نے وحی اور الہام کو بھی سائنس کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے انسانی ذہن محسوسات تک محدود بنایا گیا ہے ۔اس لئے وہ اللہ ،رسولﷺ اور کتاب اللہ ،جیسے الہامی حقائق کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔جب کہ الہامی ہدایات کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی حقانیت میںرتی برابر شک نہ کیا جائے ۔خواہشات اور تعصبات میں پڑے بغیر اس کے ذریعے تعقل ،تفکر اور تذکر کیا جائے ۔اس برترکلام ہی نہیں اپنی زندگیوں میں حکم کا درجہ دیا جائے ۔اس سے ہدایت پاکر اس پر عمل کرنے کا ارادہ اور اس کے تقاضے جب سمجھ میں آجائیں تو چند لمحات ضائع کیے بغیر اس کے سامنے سرنگوں کردیا جائے۔
گو کہ اب مابعد طبیعات کے علم پر بھی بہت کام ہورہا ہے اور امید رکھنی چاہیے کہ انسانیت اپنی اجتماعی فطرتی بصیرت کے ذریعے اپنے خالق حقیقی کو جلد پہچان لے گی اور الہامی کتابوں اور ان کے ذریعے پہنچنے والی کائناتی سچائیوں پر بحیثیت مجموعی ایمان لے آئے گی لیکن قافلہ انسانی ہنوز شبہات کے اندھیروں میں غلطاں وپیچاںہے ۔بظاہر انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال لی ہیں ،سورچ کی روشنی کو گرفتار کرلیا ہے ،کائنات کے ظواہر کو ایک ”مٹھی “میں سمو دیا ہے ،کمپیوٹر سے آگے نینو ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔لیکن اس سب علم ودانش ،تحقیق اور تخلیق کے باوجود لائف مینوئل (الہامی ہدایات)کی سچائی پر ڈگمگاتا ایمان اسے تسخیر کائنات کیلئے یکسوئی مہیا نہیں کررہا ہے ۔اور احسن تقوم کا جو اعزاز فاطر ارض وسما نے عطاءفرمایا ہے انسان ابھی اس اعزاز سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپارہا ۔قافلہ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شک وشہبات نے اجتماعی ضمیر مردہ کردیا ہے اور الہامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس کے ضمیر کو جگانے والے تمام ذرائع بے اثر ہورہے ہیں ۔آج کی ہر ترقی ایک نئی الجھن کی نشاندہی کرتی ہے ۔ہر ایجاد کسی نئی تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے ۔!محبان انسانیت کو آگے بڑھ کر رہنمائی کرنی چاہیے اور الہامی قوائد وضوابط کی تشہیر کرکے تیز رفتار گاڑی کو نیکی اور راست روی کی پٹڑی سے سرکنے نہیں دینا چاہیے ۔ورنہ طیش اور عیش ،یاسیت اور جہالت کی شیطانی قوتیں اس خوبصورت زمین کو جہنم بنادیں گی۔!
(بقول علامہ اقبال)
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کرنہ سکا
پاکستان میں خیر کی قوتیں مغلوب کیوں؟
کسی بھی معاشرے اور تہذیب میں جب تک خیر کی قوتیں غالب رہتی ہیں معاشرے تباہ نہیں ہوتے ۔بداطمینانی نہیں پھیلتی اور انتشار گلی کوچوں میں ننگا نہیں ناچتا ۔ملک ،سلطنت اقتدار اور اختیار یہ وہ انعامات ہیں جو فطرت خوش ہوکر کسی قوم ،گروہ یا فرد کیلئے ممکن بنادیتی ہے ۔لیکن جہاں یہ انعامات ہیں وہیں آزمائش بھی ہوتی ہے ۔پاکستان ،ایک نیا ملک ،ایک انعام تھا لیکن ہم نے اپنے زندہ ضمیروں کو ہوس اور لالچ کے ہتھوڑے مارمارکر ادھموا کردیا اور آج یہی انعام ہمارے لئے بہت بڑی آزمائش بن چکا ہے ۔جب گھر کے باسیوں کو اپنے گھر کے درودیوار سے خوف آنے لگے تو اس سے بڑی آزمائش کیا ہوگی ۔دانشور اور غم خوار حلقے ہمیں کسی بڑے قومی حادثے سے بچانے کیلئے نت نئے فارمولے اور حل پیش کرتے ہیں ۔کوئی گڈ گورنس کی بات کرتا ہے ۔کسی کو صدارتی طرز حکومت میں مسائل حل ہوتے دکھائی دیتے ہیں ،کئی مغربی جمہوریت ہی کو کامل حل ثابت کرتے ہیں ۔کسی کا خیال ہے کہ سخت ترین قانون ہمیں شیطانی بیماریوں سے نجات دلاسکتا ہے ۔کسی کو تمام مسائل کی جڑ فوجی اقتدار دکھائی دے رہا ہے ۔کوئی اسلامی انقلاب کا جھنڈا لہرانے میں نجات کی امید لگائے بیٹھا ہے ۔غرض جتنے ذہن ہیں اتنے ہی فارمولے گردش کررہے ہیں ۔پاکستان اس وقت عملی طورپر تیسری دنیا کا چوتھے نمبر کا ملک ہے جس میں ہر تخریبی قوت ،ہر منفی جذبہ اور ہر شیطانی حربہ پوری طاقت اور قوت کیساتھ پھل پھول رہا ہے ۔شرکے مقابلے میں خیر دبکا بیٹھا ،منتظر فردا ہے ۔!
وہ کونسا جذبہ ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکے گا ۔جو ہمیں ذخیرہ اندوزی سے بازرکھ سکتا ہے ۔ہم کیوں ہوس پرستی چھوڑیں ۔کس کی خاطر بدعنوانی دھوکہ دہی ،بُغض وعناد سے باز رہیں ؟منافقت ترک کریں ؟ایک دوسرے کو روند ڈالنے کی روش ترک کرنے سے کیا حاصل ہوگا ؟۔ضمیر کو جگاڈالنے کا فائدہ کیا ہے ؟نت نئی فریب کاریاں کس کی خاطر چھوڑ دی جائیں ؟۔یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیں بحیثیت قوم تذبذب میں مبتلا رکھتے ہیں اور ہم اپنی اس جنت نظیر سرزمین کو شیطانی جذبوں کے سبب جہنم زار بنارہے ہیں ۔کوئی قانون ۔کوئی ضابطہ ،کوئی اتھارٹی ،کوئی خوف اور کوئی شوق ہمیں اس وقت تک راہ راست پر نہیں لاسکتا جب تک ہم بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زندگی کے آغاز اور انجام کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے احکامات پر کامل یقین پیدا نہیں کرتے ۔
ارشاد ہوتا ہے ۔
”اہل کتاب اورمشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا وہ یقینا جہنم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ وہاں رہیں گے ۔یہ لوگ بدترین خلائق ہیں ۔اور یقینا جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ بہترین خلائق ہیں ۔ان کی جزاءان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے ۔اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے راضی ہوئے ۔یہ سب اس کیلئے ہے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔(البینہ )
جب مجھے یقین ہوگا کہ مجھے دنیا میں کئے گئے ہر عمل کا روز محشر حساب دینا ہے تو میں کسی سماجی قانون ،کسی داروغے کے نہ ہوتے ہوئے بھی خیر پر کار بند رہوں گا ۔جب مجھے یقین ہوگا کہ شیطانی قوتوں کے تابع کئے گئے افعال مجھے دہکتی آگ میں جلائیں گے تو مجھے میرے اندر کا انسان برائیوں سے روکے گا ۔جب مجھے یقین ہوگا کہ رزق حلال کمانے سے مجھے جنت ملے گی جس میں میرے وہم وگمان سے بھی کہیں زیادہ نعمتیں مختص ہوں گی تو پھر میں چند اضافی ٹکوں کے عوض کسی کا حق نہیں ماروں گا ۔زندگی بعد از موت ،جنت کا شوق اور دوزخ کا خوف ،اللہ کی دوستی میں پختہ یقین اور اعمال نامے کی خوبصورتی ،یہی وہ ایمان ہے یہی قرآنی تعلیمات ہیں جو ہر مذہب ،ہر عقیدے میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ ایک جیسے ہیں ۔اگر آج کا پاکستانی اپنے اپنے عقیدے کے مطابق الہامی تعلیمات پر کاربند ہوجائے تو شر کے ہاتھوں مغلوب یہی سولہ کروڑ انسان خیر کی بہت بڑی قوت بن جائیں گے ۔جب تک اکائی سیدھی نہیں ہوتی ،اجتماعیت ٹیڑھی ہی رہے گی ۔اصلاح احوال کا واحد حل صالحیت میں ہے اور انسانی دل ودماغ زیادہ دیر تک صالح اعمال سے دور نہیں رہ سکتے ۔اس لئے میرا ایمان ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اب بھی ممکن ہے ۔شرط یہ ہے کہ ہرپاکستانی قرآن کی فطرتی تعلیمات سے جڑ جائے ۔اگر کوئی عیسائی ہے تو وہ حضرت عیسیؑ کی آفاتی ہدایات پر عمل کرکے کسی مذہب اور عقیدے نے جھوٹ کو نیکی قرار نہیں دیا ،ظلم کو جواز نہیں بخشا ،خیانت کو صلاحیت نہیں کہا ۔انسان دشمنی کو بہادری قرار نہیں دیا ۔کرپشن کو عزت کا موجب نہیں ٹھہرایا ۔
ہمیں اپنے حیوانی ،عقلی، روحانی اوراخلاقی وجود کا تذکیہ قرآن مجید کی تعلیمات کے ذریعے کرنا ہوگا ۔یہی کردار سازی کا بہترین ذریعہ ہے ۔کیونکہ کردار سازی اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک انسان کے اندر ایمان کا بیج نہ ہو۔ ضمیر اور الہامی تعلیمات کی خوراک دے کر ایمان کا پودا ہرا بھرا کیا جاسکتا ہے ۔یہی انسانی عروج کی اساس ہے۔
مکالے کے آخر میں پاکستانی بہن بھائیوں کو قرآن یعنی انسانی ہدایت کے مرکز سے جڑے رہنے کی ترغیب دلارہا ہوں ۔بقول شاعر:۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاﺅ گے
خواب ہو جاﺅ گے افسانوں میں ڈھل جاﺅ گے
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاﺅ گے
دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاﺅ گے