Jun
26
|
Click here to View Printed Statement
یہ بات بلا شک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ کراچی میں گذشتہ ایک برس سے جاری آپریشن کسی تخصیص اور تفریق کے بغیر جاری ہے۔ کوئی پارٹی یا گروہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ رینجرز کے اس آپریشن میں کس طرح کی جانبداری برتی جارہی ہے۔ جس پارٹی کا جتنا بڑا سائز اور حجم ہے اسی حساب سے کرپشن اور بدعنوانی کے حوا لے بھی نتھی ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک سے بھی ثبوت اور انکشافات سامنے آرہے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ متحدہ کے مبّینہ مجرموں کے خلاف گھیرا مکمل ہوچُکا ہے اور اب آخری ہلہ بولا جانا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے درجن بھر لوگ زیرحراست ہیں ‘بعض اہم لوگ پیشگی اطلاعات پر فرار ہوچکے ہیں’لیکن دو درجن سے زائد لوگ جن میں صوبائی وزراء اور مشیر شامل ہیںانہیں باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔نقدی پکڑی گئی ہے اور بہت سے راز دیرینہ راز دانوں نے افشاء کردیئے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں دو سو تیس ارب روپے کی سالانہ کرپشن کا تمام نیٹ ورک پکڑا جائے گا اور دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والے بھی دھر لئے جائیں گے۔ وفاقی حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان اس معاملے پر مکمل ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان مسلسل رابطے اور معلومات کے تبادلے سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی وعسکری تاریخ میں پہلی بار سیاسی اور فوجی قیادت میں قومی مسائل کے حل کے لئے ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔یہ ایک انتہائی خوش آئند پہلو ہے۔حکومت کی کوشش یہ ہے کہ کراچی آپریشن کے آخری رائونڈ میں بھی سندھ کے اندر منتخب جمہوری حکومت قائم رہے اور گورنر راج کا آپشن اختیار نہ کرنا پڑے۔ ضرب عضب کا ایک مرحلہ بڑی حّد تک کامیاب ہوچُکا ہے۔دہشت گردوں کا صفایا ہوچُکا ہے۔خیبر ایجنسی میں بھی امن قائم کیا جاچُکا ہے۔پاکستان مخالف قوتوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا جو جال بُنا تھا اس جال کو افواج پاکستان اور پاکستانی قوم نے عظیم شہادتیں دے کر کاٹ ڈالا ہے۔ضرب عضب دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔شہروں کے اندر دہشت گردوں کا تعاقب جاری ہے۔ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں واضع اور نمایاں کمی آچکی ہے۔ دہشت گردوں کے مالی معاونین کی کھوج لگاتے رینجرز کے ہاتھ سندھ کے بدعنوان سیاستدانوں ‘ کرپٹ افسروں اور عہدیداروں کے گریباں تک پہنچ چکے ہیں۔
ایک اُمید سی پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان سے میگاکرپشن کا خاتمہ قریب آن لگا ہے۔ایسی صورتحال میں بعض حلقے مختلف قسم کی افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں۔اسلام آباد میں ایسے لوگ ہیں جو صبح و شام جمہوری نظام کے خاتمے کی باتیں کرتے ہیں۔ اُن کے سازشی نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ میں کوئی جمہوریت کا ترجمان نہیں ہوں لیکن یہ سوچ لینا چاہیے کہ اسی جمہوری حکومت کے سبب ہی افواج پاکستان کو سو فیصد عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔پاکستان کی ترقی کے لئے دونوں طاقتوں کا آپس میں مل کر چلنا ہی نتائج کا ضامن ہے۔ کچھ بدخواہ حلقے یہ افواہیں پھیلانے میں مصروف ہیں کہ آپریشن اس لیے کیا جارہا ہے کہ کراچی اور سندھ میں فوج کے بہت سے کام روک لئے گئے ہیں اور وہ نااہل سندھ حکومت سے سخت نالاں ہیں۔بعض دانشور دُور کی کوڑی لارہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے خلاف بی بی سی کی رپورٹوں کا مقصد متحدہ اور وفاقی حکومت کے درمیان دوریاں پیدا کرکے مُلک کا امن وامان تباہ کرنا ہے تاکہ چین طے شدہ سرمایہ کاری سے باز رہے۔ بعض افواہ ساز لوگ بے پر کی اڑا رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے نوازشریف کو دھمکی دی ہے کہ اگر کراچی آپریشن نہ ہونے دیا گیا تو عمران خان اور طاہر القادری پھر میدان میں ہوں گے۔
کرپشن کا خاتمہ خوشحالی کی اولین شرط ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ رینجرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کرپٹ مافیا سے ہمیں نجات دلا رہے ہیں۔ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم گلی محلے میں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ایسے منفی پروپیگنڈہ کا توڑ کریں۔ہمیں رمضان شریف میں ویسے بھی سنی سنائی باتوں کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ پُراُمید رہنا چاہیے اور مایوسی پھیلانے والے لوگوں کو نیکی کے کاموں میں تعاون پر آمادہ کرنا چاہیے۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کے خاتمے کے لئے کی گئی ہر کوشش نیکی کے زمرے میں آتی ہے۔اللہ فرماتے ہیں’
”نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور برائی اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون مت کرو”۔