Nov
08
|
Click here to View Printed Statement
اسلام والدین کے متعلقین کی بھی عزت کرنے کا حکم دیتا ہے
دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی سلوک کی حامل ہے۔ مثلاً جب کبھی اللہ تعالیٰ نے اپنی استطاعت وفرمانبرداری کی تعلیم دی ہے۔ ترجمہ ”اے بندو تم میرا (اللہ کا) شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ (سورة لقمان14)
یاد رکھئے کہ جس طرح سے اللہ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوںکے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں۔ انسانوں میں والدین کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں۔ انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے زیادہ بڑھ کر ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔(ترجمہ)اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنم دیا اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاﺅں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرما لیتے ہیں اور جن کے بداعمال سے درگزر کر لیتے ہیں (یہ) جنتی لوگوں میں سے ہیں۔اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا تھا( سورة الحقاف 15-16) والدین سے نافرمانی کرنے والوں کے لئے گھاٹا ہی گھاٹا ہے (ترجمہ) “ اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا ہوں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ‘ بے شک اللہ کا وعدہ حق ہے‘وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں‘ یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہوچکا ہے۔ اور جنوں اور انسانوں کی ان امتوں میں شامل ہوگئے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں‘ یقینا وہ تھے ہی گھاٹا اٹھانے والے۔“ (سورة الاحقاف 17-18) اللہ تعالیٰ کے رسول پاک نے بھی فرمایا۔ ترجمہ ”تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو‘ تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرو‘ پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ پھے اس کے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو“۔ (مظہری)
ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم اللہ تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بناءپر دیا ۔1۔بچہ کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے ۔2 بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش ونشونما کے لئے اس کے بدن سے بچے کو غذا دی جاتی ہے۔3۔ ہر وقت بچہ کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا۔4۔ ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے ‘نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کی تعلیم وتربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پڑتا ہے۔ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم ماﺅں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔واضح رہے کہ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے حقوق کواتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہے بہت ساری مائیں بچوں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوںکے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھریلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا دیتی ہیں۔ جس کی بناءپر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسی مائیں اللہ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرتی ہیں(ترجمہ) ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں‘ پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعر(مردوں کی) غیرحاضری میں حفاظت کرنے والیاں“۔(سورة النساء34)
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں دی ہیں۔ اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں۔ کیونکہ گھریلو سکون کی اہمیت او ر بقاءاللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے۔ ایسی ماﺅں کا اسی طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسی ماﺅں کا اجر کم ہوجاتا ہے۔کیونکہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ و برباد کرتی ہیںکئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرلیتی ہیں جب وہ خود اپنے پیدا کئے ہوئے مسائل میں گھر کر پریشان ہوجاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔
حقیقت میں ہر بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پرہی وارد ہوجاتا ہے۔ (ترجمہ) ” کسی بھی بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کومل کر رہتا ہے۔ (سورة الفاطر 43:) والدین کے ادب و احترام کے لئے مزید تفصیل دی گئی ہے۔“ (ترجمہ) اور تیر ا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا اگر تیری موجودگی میں ان سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ‘نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ تواضح کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کرو جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں بالا۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے“(سورة الاسرار 23-25)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و احترام کی بات کی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارومددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا‘ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے۔ مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔ اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب احترام کرنا چاہئے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہوجائیں کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارومددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے‘ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میںمندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں۔1۔والدین کو ان کی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہیے۔2۔ان کے سامنے چلا کر نہیں بولنا چاہیے۔3۔ انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہمدردی کے انداز میں ان سے بات کرنی چاہیے۔4۔ والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرمانبرداری اور نرمی سے کرنا چاہئے۔ ان کے ساتھ رحمدل کا معاملہ ہونا چاہیے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہئے محض دکھانے کے لئے روایتی انداز میںنہیں ہونا چاہیے۔5۔ ہمیں والدین کے لئے دعا کرنا چاہیے کہ میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم وکرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے۔ اور اس کی تلقین فرمائی ہے۔6 سورة الاسرارءکی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کردی ہے کہ اگر کسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں۔جو لاپرواہی کی وجہ سے نہیںبلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہوجاتے تو اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں سزا نہ دے گا۔ بشرطیکہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں اورمعافی مانگ لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی واقف ہے ۔ والدین کے احترام کے بارے میں بہت ساری احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت محمد سے پوچھا وہ کونسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے ‘جواباً آپ نے فرمایا وقت مقررہ پر عبادت کرنا‘پوچھنے والے نے پوچھا اس کے بعد کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک (بخاری) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں‘ آپ نے فرمایا کہ تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لئے جہاد ہے۔(بخاری) یاد رکھئے یہ حکم اس وقت ہے جب والدین کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو تو ان کو اکیلا بے سہارا چھوڑ کر نہیں جانا چاہئے ‘ اگر گھر میں دوسرے بھائی وغیرہ ہوں تب یہ حکم نہ ہوگا اور اگر جہاد فرض عین ہو تب بھی ہر مسلمان کو جہاد پر نکلنا فرض ہوگا۔ اسلام اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے ہم اپنے والدین کے متعلقین کی بھی عزت کریں‘چاہے وہ والدین کے رشتہ دار ہوں یا والدین کے دوست۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد نے کہا کہ اگر تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کروگے تو یہ بلاواسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہوگا۔(بخاری)۔