Feb
15
|
Click here to View Printed Statements
مختلف یورپی دانشور اور انسانی حقوق کے علمبردارحضرات کی الجھی ہوئی ڈورکاسراڈھونڈنے کے لئے ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف سچ کو تلاش کرنا ہوگا۔اگر وہ مذہب ‘زبان‘علاقے ‘رنگ ونسل‘سٹیٹس اور دنیاوی طبقاتی تقسیم کی عینک اتار کر حق کی تلاش میں نکلیں گے تو پھر انسانیت کے عظیم محسن‘عالمین کے لئے رحمت اور صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے غم گستار آخری پیغمبر خاتم النبین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات تک ضرور پہنچ جائیں گے
قافلہ انسانیت کو درپیش جان لیوا حادثوں سے بچانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اسوءرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کریں اور غیر مسلموں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے بجائے یا ان سے مرعوب ہونے اور دور ہونے کے بجائے انہیں تعلیمات نبوی سادہ اور آسان سے لفظوں میں سمجھا سکیں۔ دنیا میں مختلف شخصیات علم و کمال‘دولت و جمال اور قوت واقتدار لے کر آتی رہی ہیں مگر ہم حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس کی ایک وجہ تو ہماری جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور ہمارا ان کے ساتھ رشتہ ایمان میں بندھا ہونا ہے تو دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کو عطا کیا ہے وہ آپ سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں دیا۔
دنیا کی دوسری شخصیات کو دیکھیں تو سکندر‘رستم و دیگر نامور کمانڈرز جاہ و جلال دکھا کر چلے گئے‘ کارل مارکس اورلینن جیسے لوگ نظریاتی نعرے دے کر جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔غرض کوئی علمی موشگافیاں دکھا کر چلا گیا کسی نے غلط نظریات میں الجھا کر اسے کمال تصور کیا۔ کسی نے انسانیت کو خاک وخون میں تڑپانے سے لطف حاصل کیا مگر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلاب سے انسانیت کو رہنمائی‘ امن ‘ہدایت و نور ملا ہے اور آپ کے ارشادات آج کے مہذب انسان کے لئے بھی اسی طرح مفید اور حیات بخش ہیں۔ جس طرح 1400 سال قبل کے انسان کے لئے تھے۔ ان کی روشنی اور تابانی میں ذرا فرق نہیں آیا۔اخلاق کی جھلک‘ کردار کی بلندی‘ امانت ‘دیانت اور انسانیت کے لئے پیار جہاں بھی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا ہے۔ آپ کی بتائی ہوئی باتیں آج بھی بڑے بڑے سائنس دان پڑھتے ان سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے اور قلب سلیم رکھنے والے آپ کے آخری نبی ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
اسلام کے دیئے ہوئے معاشی‘ معاشرتی ‘سیاسی عدل اور خاندانی نظاموں کا جو بھی حصہ جانے انجانے میںکہیں بھی نافذ ہے دنیا اس کی برکات حاصل ہورہی ہیںاور مجموعی طور پر معاشرے ‘نظام اور اسلام کی بخشی ہوئی اچھائیوں کے طفیل ہی ترقی کر رہے ہیں۔ کئی معاشرے صرف سچ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں‘ بعض ممالک صرف محنت کی بنیاد پر دنیا میں نام پیدا کرچکے ہیں۔جاپان انسانی حقوق کی بناءپر پہچان بنا چکا ہے۔اسی طرح معاشرے سے لے کر فرد تک اسلامی تعلیمات کی برکات پھیلتی ہیں۔حضور انور ﷺ سے قبل افریقہ اور یورپ میں غلام بنانے کے بھیانک مناظر دیکھنے میں آئے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دہشت جمانے کی غرض سے بے دردی سے ہلاک کردیا جاتا اور باقیوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا اور غلامی کی بھی اس حد تک گری ہوئی مثالیں ان لوگوں نے قائم کیں کہ اپنے معزز مہمانوں کے سامنے شراب و شباب سرو کرنے کے بعد ان کے ہاتھوں میں تیر دے دیئے جاتے ۔ غلاموں کو سامنے کونے میں بٹھا دیا جاتا اور تیر غلام پر برسائے جاتے۔ جوں جوں غلام تڑپتا تو مہمان محظوظ ہوتےِ جبکہ سرور کائنات نے زید بن حارثہ سے ایسا سلوک کیا کہ وہ اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکاری ہوگئے اور حضور سے چمٹ گئے۔ اس پر تاریخ گواہ ہے کہ نبوت سے پہلے دور میں حضور زید کو کعبے میں لے گئے اور اعلان کیا کہ آج سے زید کو زید بن محمد کہا جائے۔
قرآن پاک کے نزول کی اولین سورتوں میں سورہ بلد میں ”گردنیں آزاد کرو“ کی واضح ایک آیت موجود ہے جبکہ آگے چل کر غلامی کے ادارے کو تدریج کے ساتھ مکمل طور پر اسلام نے ختم کردیا۔ اصل روشنی اسلام ہی کے پاس ہے۔ مغرب کے پاس جو روشنی ہے وہ مستعارلی ہوئی روشنی ہے جسے آج وہ اپنی ملکیت سمجھ بیٹھا ہے۔حضورﷺ کی تعلیمات پر نگاہ دوڑائی جائے تو حیرانگی ہوتی ہے کہ جو بات آج ہم لمبی لمبی تقاریر میں نہیں کہہ پاتے آپ نے چند جملوں میں کہہ ڈالیں۔ مکہ سے مدینہ تشریف لانے پر آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا جو ایک منٹ سے کم وقت کا تھا اور خطبہ حجة الوداع کے موقع پر آخری تاریخی خطبہ بھی مکمل لکھ لیا گیا اور اس کا وقت بھی دس منٹ سے زائد نہیں ہے۔
آیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسان کے حوالے سے فرمائے گئے ارشادات کا جائزہ لیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پیغمبر اسلام کے حوالہ سے نفرت انگیز تحریریں لکھتے ‘ توہین آمیز خاکے بناتے اوردل آزار فلمیں دکھاتے ہیں ۔ ان تک محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی تعلیمات حقیقی طور پر پہنچ ہی نہیں سکیں۔اس موقع پر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مدینے داخل ہونے والے خطبے پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
آپ نے فرمایا”سلام کو عام کرو“ اور باہم کھانے کھلایا کرو ‘صلہ رحمی کیا کرو‘رات کے اس پہر نماز پڑھا کرو جب لوگ سو رہے ہوں۔ تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاﺅ گے۔سلام ایک دعا ہے یعنی تم پر سلامتی ہو۔ اس کی تفصیل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے دوسرے موقع پر فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مزید برآں لفظ مسلمان کو بھی اپنی ایک حدیث میں واضح کردیا کہ جو کوئی ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی پیروی کرے وہ مسلمان ہے۔ آپﷺ یہاں تک مسلمانوں کے لئے رﺅف و رحیم ہیں کہ آخری خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی واضح کردیا کہ مسلمان کی جان و مال ‘عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے اور میرے غیر مسلم بھائیوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ حدیث قدسی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
”لوگ میرا کنبہ ہیں“ اور قرآن میں آیا کہ جو کوئی ایک انسان کی جان بچائے گا اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ارشاد کے دوسرے حصے میں فرمایا گیا کہ آپس میں کھانے کھلایا کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اس سے بھی ایک درجہ آگے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگ تیار کردیئے جنہیں میدان کار زار میں بھی کچھ پینے کو ملا ہے تو اسے اگلے زخمی بھائی کی طرف بڑھانے کا اشارہ کیا۔ گویا اسلام پہلے دوسرے بھائی کو کھلا کر پھر خود کھانے کا درس دیتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ارشادات کے مطابق اگر کسی کا پڑوسی بھی بھوکا سویا ہوا ہو اور ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو تو نہ صرف ہمارا یہ لقمہ حرام بن جائے گا ۔ تہجد کی نماز سے انسان کے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے ۔ خدا کی محبت اور اس کے بندوں سے پیار بڑھتا ہے۔ سورہ مزمل کے مطابق ایسا کرنے سے نفس پر ضرب کاری لگتی ہے تکبر وغرور جاتا رہتا ہے۔ انسان کے منہ سے اچھی اور پیاری بات نکلتی ہے۔ دعوت دینے کے آداب سمجھ میں آتے ہیں۔
ہمیں بڑی واضح ہدایات ہیں کہ ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کےلئے نفع بخش ہو“ انسانوں کے درمیان برابری کا درس آخری خطبہ میں جس شان سے دیا گیا ہے وہ اس بات سے عیاں ہے کہ یو این کے آئینی چارٹر کی شقیں اس خطبہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لی گئی ہیں۔اسی طرح پوری شرح صدر کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر کسی فرد‘تنظیم یا ملک کا مقصد انسانیت کی فلاح قرار پایا ہے تو اسے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اپنا لائحہ عمل قرار دینا ہوگا۔ جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کار‘فرمودات اور طرز ِ حیات پر عمل ہوگا اسی قدر انسانی فلاح کی منزل قریب تر ہوگی۔ اقبالؒ نے اسی راز کو ایک مصرع میں یوں بیان کیا تھا‘
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے