Jun
19
|
قیام امن انتہائی اہم اور ان بنیادی امور میں سے ہے جن سے کوئی بھی معاشرہ کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ اسی کی بدولت انسانی زندگی خوشحال اور پرسکون بن سکتی ہے۔ دین اسلام نے سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا ہے وہ قیام امن ہی ہے۔ اسلام نے قیام امن کو معیشت پر ترجیح دی ہے۔ جیساکہ حضرت ابراہیم کی دعا کو قرآن مجید نے اس طرح ذکر کیا ہے کہ:ربِ اجعل ہذا بلدا آمِنا وارزق اہلہ البقرہ، 2: 126)اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز۔اس دعا میں سب سے پہلے امن کا ذکر ہے، اس کے بعد معیشت اور رزق کی بات ہے لہذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ معاشرہ کو خوشحال بنانے کے لیے پہلے اس کو پر امن بنانا ناگزیر ہے۔
البتہ خوشحالی اور امن دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔شہر امن ہر شہری کا خواب ہے جہاں اس کے جان و مال کا تحفظ یقینی ہو۔جرائم پمپ ہی نہ سکیں اور مجرم سزا سے بچ نہ سکیں۔پاکستان کے کسی شہر کو بھی شہر امن قرار نہیں دیا جاسکتا۔جرائم کی شرح بڑھتی ہی جاتی ہے۔نوعیت پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اور خوشحال کاروباری لوگ اپنی دولت اور زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے کبھی ہاسنگ سوسائٹیاں بدلتے ہی اور کبھی ملک ہی بدل لیتے ہیں۔پاکستان میں جرائم کی شرح میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ آبادی میں خوفناک اضافہ ہے۔آبادی میں پھیلا کے لحاظ سے امن و امان کے زمہ دار اداروں کے وسائل میں اضافہ نہیں۔چونکہ راولپنڈی اور اسلام آباد اقتدار اور اختیار کے مراکز ہیں لہذا ان دو شہروں میں تیزی سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔جڑواں شہروں کے تیزی سے پھیلا کی ایک اور بڑی وجہ وہ تنازعات بھی ہیں جو اس کے ارد گرد کے علاقوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں۔گلگت ،پارہ چنار اور کوئٹہ سے کراچی تک فرقہ واریت ،سوات ،فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں شدت پسندی ہو یا بلوچستان میں علیحدگی پسندی یا پھر ملک بھر میں پھیلے گروہی اور اقلیتی فسادات ،ہر علاقے کے متاثرین کا من پسند پڑا یہی جڑواں شہر بنتے ہیں۔اس طرح گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران روایتی اور غیر روایتی دونوں اندازسے جڑواں شہروں کی آبادی پر حد درجہ دبا پڑا۔مگر شہری انتظامیہ آبادی کی اس برق رفتاری کا بر وقت احساس کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ امن و امان سے وابستہ ایسے مسائل نے بھی سر اٹھا لیا جو اس سے قبل ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا خاصا تھے۔کچھ ایسی ہی صورتحال کی جانب راولپنڈی اسلام آباد بھی جارہے ہیں۔جس تیزی کے ساتھ ان شہروں کی آبادی بڑھی اس کی مناسبت سے سیکورٹی اداروں کا ڈھانچہ نہیں بڑھ سکا اور پھر پہلے سے روز بروز ابتر ہوتی ان اداروں کی کارکردگی نے حالات کو اور بھی دگرگوں بنا دیا ہے۔آج یہاں بھتہ اور پرچی مافیا عام ہے ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بھی ہے ،چوری ،ڈکیتی ،اغوا برائے تاوان ،منشیات فروشی،سٹریٹ کرائمز ،سرعام کاریں چھیننایہ سب اس شہر کا بھی خاصا بن چکی ہیں۔حد تو یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد نے کچھ علاقے ایسے بھی مخصوص کر لئے ہیں جہاں اب قانون نافذ کرنے والے ادارے جانے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔کیا جاتا ہے اگر حکومت پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرے تو وسائل کی تمامتر کمی کے باوجود بھی امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اور شہر کو جرائم پیشہ افراد کی بروقت بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پنجاب حکومت نے جرائم پیشہ گروہوں کے حوالے سے زیروٹالرینس کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔پولیس میں سیاسی مداخلت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ہر ضلعی پولیس آفیسر کو ایک ہی ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ پنجاب کے ہر شہر کو شہر امن بنانا ہے۔آبادی کے پھیلا سے پہلے جب ہم میٹرک کے سٹوڈنٹس تھے خال خالی ہی کوئی بڑا جرم سامنے آتا تھا۔راولپنڈی پورے ملک کا پر امن ترین شہر تھا۔آج راولپنڈی سب سے بڑا چیلنج ہے۔گزشتہ دو براڈ سے سی پی او سید خالد ہمدانی کی سربراہی میں پولیس نے بڑی حد تک لوکوں کے اندر تحفظ کا احساس بحال کردیا ہے۔راولپنڈی پولیس کی دو سالہ کارکردگی کے حوالے سے سی پی او سید خالد ہمدانی سے ملاقات ہو ئی۔پولیس کے پی آر او نے بہت سی تفصیلات بھی مہیا کردیں۔رواں سال کے دوران راولپنڈی پولیس کی بہترین حکمت عملی اور شب و روز محنت کی بدولت جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ریکارڈ،رواں سال کل رپورٹ کیے گئے مختلف جرائم کی تعداد گزشتہ سال کی نسبت 36فیصد کم رہی، 15 کالز ڈیٹا کے مطابق جرائم برخلاف املاک میں رواں سال 23 فیصد کی نمایاں کمی،رواں سال قتل جیسے سنگین مقدمات میں 2 فیصد کمی جبکہ اندھے قتل کے مقدمات میں 67فیصدکی ریکارڈ کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال اغوا برائے تاوان کے مقدمات میں گزشتہ سال کی نسبت50فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ان مقدمات میں ملوث انتہائی مطلوب ملزمان کیفرکردار تک پہنچے،ڈکیتی معہ قتل کے مقدمات میں گزشتہ سال کی نسبت65فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ تمام مقدمات میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا گیا، ڈکیتی اور رابری کے مقدمات میں گزشتہ سال کی نسبت بالترتیب 24فیصد اور 67فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، گاڑیاں چھیننے کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت50فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ رواں سال کے آخری 04ماہ میں کار سنیچنگ پر مکمل کنٹرول کیا گیا، موٹرسائیکل سنیچنگ کے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت34فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، گاڑیوں ا ور موٹرسائیکل چوری کے مقدمات میں بالترتیب 86فیصد اور 48فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، رواں سال 366گینگز کے 891ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ملزمان سے 25کروڑ روپے مالیتی اشیا،110گاڑیاں،1500سے زائد مسروقہ موٹرسائیکل برآمد کیے گئے،جبکہ 2400سے زائد منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے 60کروڑ روپے مالیتی اشیا برآمد کی گئی، منشیات کے ناسور کے خلاف کریک ڈان کے دوران 2497مقدمات میں ملزمان سے 35من کے قریب چرس، 50کلو سے زائد ہیروئن،20کلو سے زائد افیون،ساڑھے05کلو آئس اور15ہزار لیٹر سے زائد شراب برآمد کی گئی، ناجائز اسلحہ کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 1667ء مقدمات درج کرکے 1673ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ملزمان سے64کلاشنکوف، 2100سے زائد پسٹل،108رائفلیں اور ہزاروں کی تعداد میں گولیاں برآمد کی گئیں،رواں سال جرائم میں ریکارڈ کمی کے پیچھے راولپنڈی پولیس کے ہر افسر ہر جوان کی شب و روز محنت شامل ہے، جرائم کی روک تھام،امن و امان کاقیام اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی اولین ترجیح ہے جسے ہر صورت یقینی بنایا جائے گا،اس سب کے علاوہ جرائم سے ہٹ کر راولپنڈی پولیس کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ دو سال کے عرصہ میں قریب 10 انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ راولپنڈی میں منعقد ہوئے جسکو فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی جسے عالمی اداروں کی جانب سے سراہا گیا۔ یاد رہے کہ راولپنڈی میں سٹیٹ آف دی آرٹ خدمت مرکز لیاقت باغ کے ساتھ ساتھ 12 دیگر خدمت مراکز بھی کام کر رہے ہیں، سال 2024ء میں مجموعی طور پر راولپنڈی میں ایک لاکھ 76 ہزار 337 افراد نے خدمت مراکز سہولیات حاصل کیں۔خالد ہمدانی بتا رہے تھے کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف اور آئی جی پنجاب کے ویڑن کے مطابق شہریوں کی سہولت کے لئے خدمت مراکز سے بہترین سہولیات کو یقینی بنایا جا رہا ہے، بہترین سروس ڈیلیوری اولین ترجیح ہے جس کے لئے تھانوں کے ساتھ خدمت مراکز سے بھی سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔خدا کرے کہ ہماری پولیس کی کارکردگی بہتر سے بہتر ہوتی رہے،سیاسی مداخلت سے پاک رہے،جناب خالد ہمدانی جیسے ایماندار اور پروفیشنل پولیس آفیسر دستیاب رہیں تاکہ ہمارا پیارا شہر راولپنڈی پھر سے امن والا شہر کہلانے لگے !