Sep
09
|
Click here to View Printed Statement
اللہ پاک نے قرآن حکیم میں تمام انسانوں اور خصوصاً مسلمانوں کو اپنے روزمرہ کے معاملات باہمی مشاورت سے چلانے کا حکم دیا ہے ۔باہمی مشاورت دراصل جمہوریت کی روح ہے اور ووٹ اور الیکشن مشاورت کے عمل کو ممکن بنانے کا ایک طریقہ ہے۔ جمہوری حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد بھی ریاست کے معاملات وسیع تر مشاورت کے ذریعے طے کرتی رہیں‘جہاں مشاورت کا عمل ختم ہوا وہیں سے جمہوری آمریت نے سراٹھاناشروع کردیا۔مشاورت کا دائرہ کار صرف سرکاری امور تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔بلکہ گلی محلے کے مسائل کے حل تک وسیع ہونا چاہیے۔ کسی بھی شہری کو دو طرح کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔
ایک کا تعلق تو ریاست اور اس کی پالیسیوں اور قوانین سے ہے اور دوسرا اس کی شہری زندگی اور اس سے متعلقہ امور سے ہے۔ صوبائی اور قومی پارلیمان کا کام قانون سازی کرنا ہے۔ اگر وہ ایسے قوانین بنائیں جن پر عمل درآمد سے عام شہری کی زندگی میں خوشحالی آئے اور احساس تحفظ ابھرے تو ہم ایسے قوانین کو فلاحی قوانین کہتے ہیں۔ہر وہ قانون جو انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے وہ دراصل ”ہیومنٹرین لا“ کہلائے گا۔ اور جو جمہوری حکومت ایسے قوانین کا اجراءکرے اسے انسانی حقوق کی محافظ حکومت کہنا چاہیے۔اسلام کی تعلیمات اور آئین پاکستان میں قرارداد مقاصد کی روشنی میں انسانی حقوق کے خدوخال واضح کردیئے گئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہے کہ مسلمانوںکے انسانی حقوق بعض حدود کے اندر ہیں۔ ہم جنس پرستی اور دیگر حیوانی اور شہوانی خواہشات کو انسانی حقوق کے نام پر قبول نہیں کرسکتے۔ بہرحال قوانین کا دائرہ پارلیمان کے اختیار میں آتا ہے۔شہری حقوق بھی دراصل انسانی حقوق ہی ہیں۔ صاف پانی کی فراہمی ‘سڑکوں کی کشادگی‘ذرائع آمدورفت کی فراوانی‘ تعلیم اور صحت کے لئے سہولتیں اور سیوریج اور صفائی کے تمام معاملات بنیادی انسانی حقوق سے ہی منسلک ہیں۔لیکن یہ ایسے معاملات ہیں جن کے لئے شہریوں کو پارلیمنٹ اور ممبران پارلیمنٹ کے دروازے پر دستک دینے کی حاجت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک گلی کے لوگ آپس میں مشاورت کرکے الیکشن کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرکے اپنے ”سوک اشوز“کو حل کرسکتے ہیں۔پھر محلے کی سطح پر اور پھر قصبہ اور شہری کی بنیاد پر ایک نیٹ ورک بنایا جاسکتا ہے۔ اسی سوچ کو ”مقامی حکومتوں“ کے عنوان کے تحت عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔پاکستان میں بدقسمتی سے مقامی حکومتوں کا کبھی بھی کوئی موثر نظام نافذ نہیں ہوسکا۔سیاسی پارٹیوں کی ضد ہوتی ہے کہ گلی محلے کی حکومتوں میں بھی انہی کے نمائندے آگے آئیں۔ آمریت کے دور میں غیر سیاسی بنیادوں پر مقامی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ یوں عوام کے مسائل کے حل کے وقت پارٹی پالیٹکس اور آمریت کا اثرورسوخ حاوی رہتا ہے۔ترقی یافتہ قوموں نے مقامی حکومتوں کے نظام کو بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور شہر کے میئر کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے مسائل کو مشاورت سے حل کرے‘اس کے لئے اسے مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھنا پڑتا ہے نہ ہی اسے مالی معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔پولیس بھی میئر کے تابع ہوتی ہے اور یوں امن وامان کا مسئلہ بھی نہیں بگڑتا۔سپریم کورٹ کی طرف سے مقامی حکومتوں کے انتخابات کا حکم آچکا ہے۔ بعض صوبوں نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ بہت جلد یہ مرحلہ طے ہوجائے گا۔لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب میئر‘یا کونسل چیئرمین پارٹی پالٹیکس سے بالاتر رہیں۔جہاں پارٹی آتی ہے وہیں نفاق شروع ہوتا ہے‘جمہوری سوچ کا گلہ دبا دیا جاتا ہے اور شہریوں کے شہری اور انسانی حقوق غصب ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔متنازعہ مقامی حکومتیں صرف تنازعات پیدا کریں گی اور عوام ان حکومتوں کے معرض وجود میں آجانے کے بعد بھی بے مقام ہی رہیں گے۔