Mar
26
|
Click here to View Printed Statement
دنیا بھر میں ایک سو نوے کے لگ بھگ ممالک ہیں اور ان میں بسنے والوںکی تعداد تقریباًسات ارب ہے۔ کوئی ایسا ملک نہیں جہاں قومی ایام پر ہم آہنگی کی بجائے فکری انتشار پیدا کیا جاتا ہو۔کوئی ملک اس فضول بحث کا متحمل نہیں ہوسکتا جس میں اس کے قیام کی وجوہات کو ناجائز قرار دیا جائے ۔کوئی قوم اتنی احسان فراموش نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے محسنوں کے کردار پر کیچڑ اچھالے۔ کسی ریاست کا قانون اپنے ذرائع ابلاغ کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ ملکی وجود کے خلاف پروپیگنڈا کرنے‘ مسلمہ حقیقتوں کو متنازعہ بنانے اور قومی تخلیق کے اسباب کو غیر حقیقی قرار دےنے پر مذاکرے کرائے۔
پاکستان وہ بدقسمت ملک ہے کہ جس میںمحض اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے‘ اپنے کالم میں زور پیدا کرنے اور اپنے اخبار کی دھار تیز کرنے کے لئے چودہ اگست ‘ 23مارچ‘6ستمبر۔قائداعظمؒ۔علامہ اقبال ؒ۔ سرسید احمد خانؒ اورلیاقت علی خان ؒ سمیت قومی شخصیات اور ایام کے بارے میں جو منہ میں آئے وہ اچھال دے‘صفحے پر بکھیر دے! ٹی وی سکرین کی آڑ میں ذہنی تشدد کی یہ اذیت گاہیں صرف اسی ملک میں وجود پاتی ہیں۔پیمرا‘وزارت اطلاعات اور ٹی وی چینلز کی مفاداتی تنظیمیں خدا جانے اس ملک کو ذہنی خلفشار کا شکار کرکے کس دشمن گروہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔یہ سیکولر کس جنس کا نام ہے کوئی نہیں جانتا۔یہ نسل لنڈا بازار کے دانشوروں کے ہاں پیدا ہوئے جارہی ہے۔صحافتی بددیانتی دیکھئے کہ 23مارچ کو ایک دو ٹی وی چینلز چھوڑ کر ہر کسی نے ”قرارداد پاکستان“ کو متنازعہ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔ ”ہمیں اس قرار داد نے کیا دیا؟“۔”کیا ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تھا“۔”قائداعظمؒ کا فلسفہ ریاست یہ تو نہیں تھا“۔” یہ تو قرارداد لاہورتھی۔ اسے سازش کے تحت قرارداد پاکستان کا نام دے دیا گیا“۔ اگر ان جعلی دانشوروں کی پیدائش ایک سازش ہے تو پھر اس ملک کے وجود میں آنے کا سبب 23مارچ کا دن بھی کوئی سازش ہو سکتی ہے۔
23مارچ کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے اور حکمران طبقہ کی نااہلیوں کو قرارداد پاکستان سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کرنے والوں کواس پاک سرزمین پر ترس کیوں نہیں آتا؟۔ جو دانشور اپنی پسند ناپسند‘اپنے چند دن کی پھوں پھاں اور اپنی باطنی خباثتوں کی تسکین کے لئے میرے وطن کے حوالوں کا مذاق اڑاتے ہیں ‘غلیظ بہتان لگاتے اور ہذیان بکتے ہیں ‘میں ان کے بارے میں کسی احترام اور ادب کا مکلف نہیں ہوسکتا۔بھارتی چینلز میرے وطن کا ‘قرارداد پاکستان کا‘قرارداد مقاصد کا‘نظریہ پاکستان کا مذاق اڑائیں تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن جس کشتی پر میں اور یہ ٹی وی چینلز سوار ہیںاسی میں یہ سوراخ کریں اور میں ہاتھ سے‘زبان سے اور دل سے ان کے خلاف جہاد نہ کروں تو میرے ایمان پر سوالیہ نشان آتا ہے۔ یہی نہیں مجھے لگتا ہے جیسے کوئی دشمن میرے پاﺅں کے نیچے سے میرے حصے کی زمین کا ٹکرا کھینچ رہا ہو۔
اے مخالفین نظریہ پاکستان! یاد رکھو تم جتنی اس نظریہ کی مخالفت کرو گے یہ اتنا ہی پھیلے گا۔ برصغیر میں دو قومیں تھیں‘ دو قومیں ہیں اور دو قومیں رہیں گی۔ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس کا ثبوت چاہتے ہو تو ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار جا کر دیکھ لو!
نظریہ پاکستان نظریہ اسلام ہے ۔اس کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی جس روز ہندوستان میں پہلا مسلمان آیا تھا۔ محترم ڈاکٹر مجید نظامی نے اس نظریہ کی آبیاری کی۔اب یہ تناور درخت بن چکا ہے۔ نسیم انور بیگ (جنت نصیب)نے اس نظریہ کا مورچہ اسلام آباد میں لگایا‘بیگ راج کی تحریک پر اورجناب میاں محمد جاوید جیسے مخلص احباب کی سرپرستی کے سبب میں بھی اس نظریاتی محاذ کا ادنیٰ سا سپاہی ہوں۔میرا ہی نہیں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا ہی نہیں‘24کروڑ بھارتی مسلمانوں اور 20کروڑ بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بھی یہ ایمان ہے۔اور یہ نظریہ میری اور پاکستانی قوم کی پہچان ہے۔قوم کی پہچان مٹاﺅ گے تو خود مٹ جاﺅ گے!