Apr
18
|
Click here to View Printed Statements
ماضی میں جھانکنا انسان کی فطرت ہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی انسانی سوچ ماضی کے جھروکے سے جھانکنے لگتی ہے۔ دس برس ہونے کو آئے ہیں امریکہ نے نائن الیون کے حادثے کا بدلہ لینے کے لئے روسیوں کے ہاتھوں پہلے سے ہی تباہ حال افغانستان پر ڈیزی کٹر بموںکی بوچھاڑ کر دی تھی۔آج امریکی سفیر پورے یقین سے اعلان کر رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔ پھر کس لئے آیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کے ہزاروں جواب ہیں۔”نائن الیون“ بپا کرنے والے کون تھے‘یہ سارا نزلہ طالبان کی ”اسلامی حکومت “پر کیوں گرا؟۔ایسے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ جب تک مورخ تاریخ قلم بند کرتے رہیں گے‘افغانستان پر امریکی قبضہ کی وجوہات پر بحث ہوتی رہے گی۔
افغانستان جیسے قبائلی معاشرے میں ”امارات اسلامی“ کے قیام کا تجربہ کیسا رہا‘اس سوال کا جواب لینے کے لئے مجھے محترم سلطان بشیر محمود جیسے نیوٹرل اور بے غرض تجزیہ کار سے بہتر گواہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ پاکستان کے وہ نیوکلیئر سائنسدان ہیں جنہوں نے ٹیکنالوجی اور تعلیم کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کا ایک خواب دیکھا۔ خوش قسمتی سے ان دنوں لاہور‘اسلام آباد اور کابل میں چند احباب”امہ تعمیر نو“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرچکے تھے لہٰذا جناب سلطان محمود اور ان کے دوستوں کے حلقہ نے اس مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔ ان کے اس مشن سے اسلام آباد اور کابل کے سفارتخانے آگاہ رہتے تھے اور تعمیراتی تعلیمی اور صنعتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے دونوں ممالک کی حکومتیں بھی انتہائی معاون تھیں۔
”ہم نے افغانستان میں اڑھائی برس تک کام کیا۔ملا محمد عمر کی حکومت بڑا تعاون کرتی تھی۔کرپشن ہرگز نہیں تھی۔ احکامات پر عملدرآمد منٹوں میں ہوتا تھا۔ ہم نے قندھار انڈسٹریل ایریا میں آٹا مل لگائی ‘ماچس فیکٹری کے لئے اسباب مہیاکئے۔ تعمیر شروع ہوگئی تھی۔انگور کا باغ لگانے کے لئے حکومت افغانستان نے ہمیں بارہ ہزار ایکڑ اراضی آلاٹ کردی تھی۔کسی وزیر یا کسی افسر نے کبھی کوئی رشوت‘تحفہ یا مراعات طلب نہیں کیں۔ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ معاشرہ اچانک اس قدر شفاف اور دیانتدار کیسے ہوگیا ہے۔ہم نے کئی بار رات کو سفر کئے‘افغانستان کی حدود کے اندر کبھی کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ بے خطر آیا جایا کرتے تھے“
”طالبان تحریک نے لوگوں کے اندر عجیب جذبہ بھر دیا تھا۔ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے‘ڈگریاں نہیں لی تھیں۔ مدرسوں سے نکلنے والے مولوی تھے۔ لیکن ان کے اندر (Honesty of Purpose) یعنی مقصد کے ساتھ اخلاص بہت تھا۔لہٰذا جو کام کسی انجینئر یا ایم ڈی کے ہاتھوں ہونا تھا وہ کام عام مولوی بہتر انداز میں سرانجام دے رہا تھا۔ ہمیں کابل کے قریب ایک ہائیڈرو پاور ہاﺅس کا معائنہ کرایاگیا۔ہم اس پاور ہاوئس کے جنرل منیجر سے ملے۔یہ کسی مدرسے سے فارغ التحصیل مولوی تھے۔ہم نے پوچھا کہ یہ تو پاورہاﺅس ہے اور خالص ٹیکنیکل کام ہے آپ اسے کس طرح سنبھال لیتے ہیں۔مولوی صاحب کا جواب تھا کہ میںکوئی انجینئر نہیں ہوں۔ میں اس پاور ہاﺅس پر مامور ہوں۔میں روزانہ صبح آجاتا ہوں۔ایک ایک آدمی کے پاس جاکر اس کی ضرورت پوچھتا ہوں اور وقت مقررہ میں جیسے بھی ہو اس کی وہ تیکنیکی ضرورت پوری کروا دیتا ہوں۔“
”ہمیں ایک بہت بڑی مسجد میں لے جایا گیا۔مسجد روسی حملوں کے سبب جگہ جگہ سے خستہ تھی۔ اس مسجد میں سینکڑوں بچیاں پڑھ رہی تھیں۔ ریاضی تھی‘عربی تھی اور سکول کی دیگر کتابیں پڑھائی جارہی تھیں۔ ہمیں مہتمم نے بتایا کہ ہم نے تین گھنٹے بچیوں کی تعلیم کے لئے مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس پڑھانے والے اساتذہ ہی نہیں اس لئے ابھی ابتدائی کلاسوں کا اجراءکیا ہے۔ مسجد میں پڑھانے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے بچوں کے لئے سکول نہیں تو بچیوںکے لئے کہاں سے لائیں۔ ہم نے چار لاکھ کتابیں مفت فراہم کرنے کا پروگرام بنایا تاکہ تعلیم کا دائرہ وسیع ہوسکے“
”میں یہ نہیں کہوں گا کہ طالبان کی حکومت مکمل اسلامی ماڈل تھی۔میرا اندازہ ہے کہ یہ ستر فیصد اسلامی اور تیس فیصد قبائلی تھی۔ذرائع ابلاغ نے ستر فیصد کا ”بلیک آﺅٹ“ کیا اور 30فیصد کو ”فلیش“ کیا۔امریکی حملے کا ایک بڑا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں یہ ستر فیصد اسلامی حکمرانی پاکستان سمیت دوسرے مسلم ممالک میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔مسلم عوام توقع کرنے لگے تھے کہ ان کے ہاں کا فرسودہ نظام بھی بدل جائے گا اور ان کے ہاں بھی ”امارات اسلامی“ جیسا تجربہ ہوگا۔ یہ بات امریکہ کے لئے سب سے بڑی پریشانی تھی۔ایران کا انقلاب بھی امریکہ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔لیکن یہ شیعہ مسلمانوں تک محدود تھا۔ افغانستان میںاگر طالبان کی حکومت چلنے دی جاتی تو پھر یہ ”سنی انقلاب“ پورے عالم اسلام میں پھیل جاتا۔ اور یہ بات امریکہ کے لئے قطعاً قابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی“
”پاکستان میں مسلمان سب ہیں لیکن اسلام پسند بہت کم تعداد میں ہیں۔مولوی اور اسلام کے علمبردار پاکستانی معاشرے میں اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔یہاں کے طالبان نظریاتی نہیںفسادی گروہ بن چکے ہیں۔ان کے نظریے کو عوام کی تائید حاصل نہیں ہوسکی۔پاکستان میں روزگار‘انصاف اور اختیار سے محروم عوام کو کسی نظریے سے کوئی غرض نہیں رہی“جناب سلطان محمود بشیر کے مشاہدات سن کر دل نے چاہا‘دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!