Apr
18
|
Click here to View Printed Statements
بعض اوقات پانی جنگلی گھاس کے اندر سے گزر رہا ہوتا ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ پانی ٹھہرا ہوا ہے‘چل نہیں رہا۔یہی آب رواں جب سامنے کھڑی چٹانوں اور رکاوٹوں سے ٹکراتا ہے تو پھر شور اٹھتا ہے۔بڑے بڑے پتھر تیز بہاﺅ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رکاوٹیں سرنگوں ہوتی جاتی ہیں اور پانی تباہی مچاتا بڑھتا چلا جاتا ہے۔پاکستانی معاشرے کی یہی صورتحال ہے۔آزاد عدلیہ‘آزاد میڈیا‘آزاد پارلیمنٹ اور منظم افواج کے ہوتے ہوئے کوئی تصور ہی نہیںکرسکتا کہ اس دھرتی پر کوئی انقلاب آسکتا ہے‘کوئی عوامی سیلاب سب کچھ تباہ کرسکتا ہے ۔لیکن عوام کے غم اور غصے ‘مایوسی اور بے بسی‘بے اختیاری اور لاچاری۔سب اندر ہی اندر ایک طوفان کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔آزاد عدلیہ ایک آخری امید‘لیکن عوام کو کوئی ریلیف ملتا دکھائی نہیںدیتا۔میڈیا آزاد تر‘لیکن سوائے غصے سے بھرے غبارے میں سے ہوا نکالنے‘پنکچر لگا کر پھر ہوا بھرنے اور پھر سوئی مار دینے کے کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا۔ ہر ”انفارمیشن“ پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت سامنے آتی ہے۔ پروگرام ”ہٹ“ اور بریکنگ نیوز“ کی دوڑ اشوز کو نان اشوز اور رائی کو پہاڑ بنانے کے لئے لگائی جارہی ہے۔منتخب پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی کی دعویدار ہے لیکن عوام کو اس جمہوریت کے نتیجے میں بھی مسائل ہی مسائل ملے ہیں۔حکومت اور یہ نظام محض اپنی مدت پوری کرنے کو ہی اپنی اور عوام کی کامیابی تصور کر رہے ہیں لیکن عام آدمی ان ایوانوں کو اب نفرت اور بیزاری کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دل سے پوچھتا ہے اس نظام کا حاصل کیا ہے۔ افواج پاکستان دفاع وطن کی ذمہ داریوں میں مصروف ہیں اور فوجی اقتدار کے نتیجے میں مسلط ہونے والی امریکی جنگ سے نجات کی کوشش کررہی ہیں۔ کوئی بھی تو نہیں جو بجلی لا دے‘چولہے جلا دے ‘ روزگار دلا دے‘عزتوں کو محفوط بنائے‘عصمتوں کی پاسداری کرے۔!
سلطان بشیر الدین محمود سے تفصیلی نشست ہوئی۔ وہ اٹامک انرجی کمیشن کے ڈی جی رہے۔انہوںنے ”امہ تعمیر نو“ کے پلیٹ فارم پر حکومت پاکستان کی رضامندی اور حوصلہ افزائی سے ملاں محمد عمر کی حکومت کے دوران افغانستان کی تعمیر نو کی بنیادیں رکھی تھیں۔ وہ اور ان کی ٹیم کے معزز اور معتبر ارکان تواتر کے ساتھ افغانستان جاتے رہے اور روسی قبضے کے دوران تباہ ہوجانے والے انفراسٹرکچر کو بحال کرنے کے منصوبے بناتے رہے۔ مسلسل مطالعے اور طویل مشاہدے کے سبب وہ بڑے جچے تلے انداز میںپاکستانی معاشرے کے اندر متوقع تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔سلطان بشیر الدین محمود کہہ رہے تھے‘
”پاکستان میں صرف غریب ہی نہیں امیر آدمی بھی تنگ بیٹھا ہے۔ غریب اس لئے بے زار ہے کہ اسے روٹی میسر نہیں اور امیر اس لئے کہ اس کے گھر کا ایئرکنڈیشنز نہیں چل رہا۔ بے بسی کی اس حالت کو ہم سب ابھی تک برداشت کرتے آئے ہیں لیکن اب ہمارا نوجوان طبقہ ہماری ”برداشت“ کی اس عادت سے تنگ آچکا ہے۔ وہ اب برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ نوجوانوں کے عدم برداشت کو محسوس کرنا ہوتو انٹرنیٹ پر مختلف بلاگز کو پڑھنا ضروری ہے۔نوجوان نسل اب اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے رابطے بڑھاتے اور کسی انجانی منزل کی طرف نکل کھڑے ہونے کا اظہارکرتے ہیں۔
امیر اور غریب‘پنجابی‘پٹھان ‘سندھی‘بلوچ‘سرائیکی‘ہزاروی‘ مہاجر اور بہاولپوری یہ سب گروہ اور طبقے اپنے اپنے دکھ لے کے نکلیںگے اور ایک لاوے کی شکل اختیار کر جائیں گے ۔اس لاوے کو مولوی سنبھال نہیں پائے گا کیونکہ نئی نسل مولوی سے واقف نہیں اور اس کے پیچھے چلنا بھی نہیں چاہتی۔شائد سوشلسٹ گروہ اس بے چینی سے فائدہ اٹھائیں یا شائد مسلم سکالرز مولوی کی جگہ لے سکیں۔ کچھ کہا نہیںجاسکتا“۔
جناب سلطان بشیرالدین ایک سائنسدان بھی ہیں اور قرآن کے طالب علم بھی۔ان کے تجزئے کو پرکھنا ہو تو اسلام آباد سے نکل کر ہمیں اصلی پاکستان میں کچھ وقت گزارتا چاہیے۔خدا نہ کرے کہ نوجوان نسل اور مایوسی میں گھرے عوام کا غم اور غصہ کسی لاوے کی شکل اختیار کرے اور جاگیردار طبقہ‘یا کوئی اور بالاتر گروہ اس لاوے کو اپنے حق میں استعمال کرلے۔ہمارے دانشوروں کو ابھی سے گہرا مطالعہ کرکے کوئی مثبت اور بہتر راہ تجویز کرنی چاہیے۔ہمارے موجودہ رہبر اور ناخدا اپنی بقاءکے لئے اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں متوقع طوفانوں کا احساس ہی نہیںرہا‘انہیں کون سمجھائے کہ‘
عکس ٹھہرے ہوئے پانی میں ہے طوفانوں کا
ناخدا سے یہ کہو کہ وہ لب ساحل نہ رہے