May
27
|
Click here to View Printed Statements
صدر جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت کے بعد خدا جانے ہماری سیاسی اور فوجی قیادتوں کی دور بین نگاہوں نے دور تک دیکھنا ہی بند کردیا ہے یا ان کی بصارت کو بصیرت کی روشنی ہی نصیب نہیں ہوئی ۔ یہ سوال بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہر بار حکمرانوں کی غفلت کا رونا رونا پڑتا ہے کہ آخر کیا وہ غیر معمولی حالات اور رکاوٹیں حائل رہیں کہ ہم گزشتہ چالیس برس میں کوئی ایک بڑا ڈیم بھی نہ بنا سکے۔ گیس کے ذخائر تک نہ پہنچ سکے اور کوئلے سے توانائی حاصل نہ کرپائے؟۔ ہم یا تو بڑی کشادہ دل اور معاف کردینے والی قوم ہیں یا پھر بالکل ہی بھولی بھالی سی عوام ہیں کہ ووٹ ڈالتے وقت اپنے بنیادی انسانی حقوق کا قطعاً خیال نہ رکھنے والے سیاسی گروہوں ‘پارٹیوں اور آمروں کو بڑی خوش دلی کیساتھ قبول کئے رکھتے ہیں۔ حزب اختلاف والے لوگ بھی مسائل کی محض د±م پکڑ کر احتجاج جاری رکھتے ہیں ہاتھی کو سونڈ سے پکڑنے کا رواج ہی نہیں پیدا ہوا۔کوئی ملک گیر مظاہرہ اس مسئلے پر نہیں ہو رہا کہ آخر ملک کو اندھیروں میں ڈوبنے کا کارنامہ کس کس حکمران نے سرانجام دیا ہے۔ عوام اپنے طور پر سڑکوں پر آتے ہیں‘سینہ کوبی کرتے ہیں اور تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سیاسی پارٹی‘مذہبی یالسانی جماعت یا کسی انقلابی تحریک نے آگے بڑھ کر توانائی کے بحران پر کوئی الٹی میٹم تک نہیں دیا۔
کالاباغ ڈیم کا ایشو بھی سیاست چمکانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ کوئی تو حساب مانگے کہ کن لوگوں نے ڈیم کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کی فزیبلٹی روپوٹس کون بناتا رہا اور ملک کو فتح کرنے والوں نے آخر اس ڈیم کے مخالفین کو ڈنڈا کیوں نہیں دکھایا۔ تھر میں کوئلے کی دریافت کو بھی تیس برس بیت گئے ۔ کیا ہم اس قدر کوتاہ بین تھے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے اعدادوشمار جاننے کے باوجود ہم نے توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ آج پاکستان کے شہروں میں پندرہ پندرہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور دیہاتوں میں بائیس بائیس گھنٹوں کے اندھیرے‘پٹرول پمپوں پر لگی لمبی لمبی قطاریں اور گیس سٹیشنز پر تمام تر عوامی دباﺅ کے باوجود پریشر نایاب …. تندور ٹھنڈے اور چولہے صرف ”بھک بھک“ تک محدود۔ آخر ”گڈگورنس“ کا حاصل کیا نکلا ہے۔
”ڈنگ ٹپاﺅ“ پالیسیوں نے آج ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ہم ادھار تیل کی بھیک ملنے کے وعدوں پر پھولے نہیں سما رہے۔”آج بھی میرا رزق نہ مجھ پر اترا۔آج بھی میرے دوست ہی میرے رازق ٹھہرے“۔ والی کیفیت ہے۔گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی ایران سے درآمد ہوگی تب تک کھپت پانچ ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر دس ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہوگی۔ امریکہ سے آنے والے موبائل پاور پلانٹس کہاں گئے۔کیا سمندر میں غرق ہوگئے ۔ کوئی وزیر‘مشیر حقائق بتانے پر تیار نہیں۔واسکٹیں کس کر میڈیا کے سامنے اعدادوشمار کے ہیرپھیر بیان کرنے والے بہت سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر کوئی ادارہ مسائل کو حل کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ کسی کو معزول چیف جسٹس کی بحالی ہر مسئلے کی کنجی دکھائی دیتی ہے۔ کسی کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل چاہیں۔کوئی مرحوم بگٹی کے قتل کی ایف آئی آر کٹوانے نکلاہوا ہے اور کسی کو مڈٹرم الیکشنز کے خواب ستاتے ہیں۔
حکمرانوں نے امریکہ کو خوش کرنا ہے۔ نیٹو کے کنٹینرز گزارنے کا ٹاسک پورا کرنا ہے ۔ بجلی ‘ گیس اور پانی …. یہ شائد مقتدر طبقوں کا مسئلہ ہی نہیں۔تاجر‘ صنعت کار اور کارکن …. ہاتھ پر ہاتھ دھرے صنعت کے جام پہیوں کو سہمے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔ بے روزگاری ملک کو چھوڑ دینے‘خودکشی کرنے یا پھر خودکش بن جانے کی طرف ہر لمحہ آمادہ کررہی ہے۔
سرکار کے کاغذوں میں ملک کے اندر لوڈشیڈنگ ختم کی جاچکی ہے۔یہ بات ہر ماہ آنے والے بلوں کی حد تک درست ہے۔ صرف بجلی نہیں ہے باقی سب ٹھیک ہے۔ ہم سے چھوٹے چھوٹے ملک تاجکستان‘ازبکستان‘ایران…. یہ سب توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہیں ۔ ہمارا قومی ویژن صرف چار یا پانچ برس وقت گزارنے تک محدود رہتا ہے۔آج کے شدید ترین قسم کے توانائی بحران کو حل کرنے کے لئے فوری‘ مڈٹرم اور لانگ ٹرم سطح کا کوئی بھی منصوبہ سامنے نہیں آرہا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری قیادتیں پاکستان کو آئندہ سو برس تک پیش آنے والی ضرورتوں کا ادراک نہیں کرسکتیں۔اگر سری لنکا اپنے آئندہ سو برس کے بارے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بنا سکتا ہے۔ تو پھر ہم صرف پانچ برس تک محدود کیوں رہتے ہیں؟
خطرات یہی ہیں کہ اگر ہم نے آج سر جوڑ کر توانائی کے نئے اور متبادل ذخائر کے حوالے سے آئندہ ایک صدی کی پلاننگ نہ کی تو شائد دشمن ممالک تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں لیکن توانائی کا بحران ہمیں لے ڈوبے گا!