Feb
01
|
اسلام وہ کامل دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لامحدود قدرت سے تمام بنی نوع انسان کی دائمی رہنمائی اور ابدی فلاح کے لئے پسند فرمایا ہے۔ اسلام ہی وہ دین فطرت اور ضابطہ حیات ہے جو آج بھی ایک زندہ قوت ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے تھا قرآن کریم نبی آخرالزمان پر بھیجی جانے والی اللہ کی وہ آخری کتاب ہے
جس میں انسانی زندگی کے گونا گوں اور ہر قسم کے مسائل کا حل موجود ہے قرآن حکیم ومضاحت ‘بلاغت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا اس کا اسلوب بیان بے حددلکش ہے اس میںامرونہی کی نشاندہی کرکے ہر حکم بیان فرمادیاگیاہے۔جہاں نماز‘روزہ‘حج‘زکوٰة‘جہاد اور دوسرے فرائض پورا کرنے کی تلقین موجود ہے وہاں سچ اور جھوٹ کی تمیز نیکی اور بدی کا فرق سچی گواہی دینے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ سچ بولنے اور سچی گواہی دینے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ سچ بولنے اور سچی گواہی دینے والوں کو ابدی جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے سچی گواہی چھپانے اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو انجام بد سے خبردار کیا گیا ہے سورة المائدہ کی آیت نمبر 119 میں سچ بولنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے۔ترجمہ”یہ وہ قیادت کا دن ہے کہ سچے بندوں کو ان کا سچ کام آئے گا “جامع ترندی کی حدیث میں ارشاد نبوی ہے۔ ترجمہ” بے شک سچائی اطمینان والی چیز ہے اور جھوٹ شک میں مبتلا کرنے والی چیز ہے “ کسی فرد کو مجرم یا معصوم ثابت کرنے کے لئے اسلام نے واضح طورپر قانون شہادت کا نفاذ کیا ہے اور اس میں مختلف قسم کی شرائط رکھنے کا اسلامی فلسفہ دور رس نتائج کا حامل ہے جس کی موجودگی میں کوئی مجرم سزا سے بچ نہیں سکتا اور کوئی معصوم مستوجب سزا نہیں ہوسکتا اور اسلامی عدل و انصاف کے تقاضے کماحقہ پورے ہوجاتے ہیں اور گواہ کے کردار کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے ایک معیار اور کسوٹی بھی رکھی گئی ہے مسلمانوں کو ایک مستقل امت بنانے کی غرض وغائیت جو قرآن کریم فرقان حمید میں بیان فرمائی گئی وہ یہی ہے کہ وہ لوگوں پر شہادت حق کی محبت پوری کردیں سورة البقرہ کی آیت نمبر 143 میں ارشاد ربانی ہے ترجمہ:۔ اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور اللہ کے رسول تم پر گواہ ہوں“۔شہادت حق کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی گئی ہے یعنی جو حق آیا ہے اور جو صداقت منکشف ہوئی ہے مسلمان دنیا کے سامنے اس کے سچا ہونے پر گواہی دیں اسی شہادت کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے تھے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستے کی گواہی دینے والے بنو اور یہ صرف حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کو سزا بھی ساتھ میں بتا دی گئی ہے۔ترجمہ:۔اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔“
یہودیوں نے حق کے خلاف گواہی دے کر اللہ کے غضب کو للکارا تھا قرآن پاک کی سورة البقرہ کی آیت نمبر 61 میں ارشاد ہے ترجمہ :۔ ذلت و خواری اور پستی بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھیر لئے جب شہادت حق نہیں ہوگی تو دنیا میں لازماً گمراہی پھیلے گی ظلم وستم…. بداخلاقی اور بدکرداری کا دور دورہ ہوگا اور ان تما برائیوں کی ذمہ داری حق کو چھپانے والوں پر ہوگی ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ سچی گواہی دے اور اپنے اجتماعی کردار میں ایک سچے مسلمان ہونے شہادت کے زرین اصولوں کے بارے میں ٹھیک ٹھیک مظاہرہ کرے قرآن کریم کی سورة انساءکی آیت نمبر 135میں ارشاد تعالیٰ ہے ترجمہ :۔ اے ایمان والو! انصاف خوب پر خوب قائم رہنے والے اللہ کےلئے گواہی دینے والے بنے رہو۔ اگرچہ اپنی ہی ذات کےخلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کی مخالفت میں ہو وہ شخص امیر ہو یا غریب ہو (تم اس بات کا خیال نہ کرو)پس اللہ کا ان دونوں کے ساتھ تم سے زیادہ تعلق ہے پس تم خواہش نفس کی پیروی نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ حق سے ہٹ جاﺅ اور اگر تم لگی پٹی بات کرو گے یا سچائی سے پہلو تہی کروگے (تو جان لو) کہ بلاشبہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے “مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حق و انصاف کے علمبردار بنیں او راللہ کی خاطر سچی گواہی دینے والے بن جائیں کائنات کے امن کا دارومدار عدل و انصاف پر ہے۔ اس لیے اسلام اس پر بہت زوردیتا ہے اور چونکہ انصاف کی بنیاد شہادت پر ہے اس لئے اگر کوئی گواہی دینے والا حقیقت کو ظاہر نہ کرے تو حاکم کے لئے انصاف کرنا ناممکن ہے چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ گواہی دیتے وقت یہ خیال نہ رکھو کہ کس کو فائدہ پہنچے گا اور کس کو نقصان ہو یا والدین اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچے اس بات کی ہرگز پروا نہ کرو بلکہ حقیقت کو بیان کرو اس طرح کسی کی غریبی یا امیری کا خیال نہیں کرنا چاہیے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ سچی گواہی سے امیر ناراض ہوجائے گایا غریب کونقصان پہنچے گا امیر اور غریب سب اللہ کے بندے ہیں سچی گواہی دیتے وقت اگر اپنے پرائے کا خیال آجائے تو انصاف کا حصول ناممکن ہوجائے گا جس سے دینا میں ظلم و فساد کا دور دورہ ہوگاشہادت دیتے وقت اپنی خواہشات کی پیروی بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خواہشات کی پیروی کرنے سے انصاف سے ہٹ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔گول مول گواہی دیکر حق بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور جب شہادت کے لئے بلایا جائے تو ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے شہادت انصاف پر مبنی ہونی چاہیے جس میں صرف اللہ کی خوشنودی مقصود ہو ۔ یہ نہ سوچا جائے کہ کسی سچی گواہی سے فلاک کو نقصان پہنچے گا اور اپنی مرضی اور خواش کو شہادت میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔