Jun 23

Click here to View Printed Statements

قارئین سے التماس ہے کہ وہ سیاسی رہنماﺅں کی ایک دوسرے کے خلاف لسانی ”بدکاریوں“ سے خوفزدہ نہ ہوں۔کسی قسم کا کوئی سیاسی بھونچال آرہا ہے نہ ہی کوئی ”انقلاب“ دروازے پر کھڑا بے چین ہورہاہے۔گرمی اور حبس کے اس موسم میں سیاسی اکھاڑے کو غنیمت سمجھ کر جگت بازیوں اور جملہ آزمایوں سے صرف لطف اندوز ہونے کا سلیقہ سیکھیں تو انشاءاللہ فشار خون مستحکم رہے گا اور شوگر بھی کنٹرول میں رہے گی۔اگر اس لفظی جنگ کو اصلی سمجھ لیا جائے تو پھر کمزور دل حضرات کو لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ قومی غم کے جھٹکے بھی لگنے شروع ہوجائیں گے اور یوں شدت الم کے دورے پڑنے کا خطرہ رہے گا۔

اس نفسیاتی پیش بندی کے بعد راقم کوآج کل بڑا مزہ آرہا ہے۔لطف اندوزی کے جو اسباب پہلے جناب رانا ثناءاللہ اور جناب بابر اعوان کے درمیان جاری ابلاغی جھڑپوں کے ذریعے میسر تھے اب خدا کے فضل سے باقاعدہ ابلاغی جنگ شروع ہوگئی ہے اور اس میں ایک طرف محترم میاں محمد نوازشریف پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں اور مقابلہ کے لئے ہمارے صدر جناب آصف علی زرداری آستینیں چڑھا کر حملہ آور ہوچکے ہیں۔
انتخابی سیاست کے اس موسم میں دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ ملکی مسائل اور ان کے حل کے قابل عمل منصوبے دینے کی بجائے اس بار ”پروآرمی“ اور ”اینٹی آرمی“ کا نعرہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ جس طرح ہماری سمجھ سے یہ بالاتر ہے کہ پیپلزپارٹی فوج کی وکیل اور ایجنسیوں کی محافظ کیسے بن گئی اسی طرح یہ امر بھی کم از کم عوام کے لئے ناقابل فہم ہے کہ میاں محمد نوازشریف اور ان کے دست و بازو افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑے ہیں۔ فوج کے بارے میں کبھی پی پی پی یہ الزام لگایا کرتی تھی کہ یہ پنجاب کی فوج ہے لیکن اب تختِ لاہور والے خود ہی فوج کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔اگر دس لاکھ فوج ہے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ دس لاکھ خاندان اس قومی ادارے سے براہ راست وابستہ ہیں اور اگر رشتہ دار اور دوست احباب ملا لئے جائیں تو پنجاب کا شاہد ہی کوئی قابل ذکر گھرانہ ہو جس کو فوج سے ہمدردی نہ ہو۔ جرنیل بھی فوج میں براہ راست بھرتی نہیں ہوتے وہ بھی لیفٹین سے ترقی کرتے کرتے جرنیل بن جاتے ہیں۔اس لئے جرنیلوں کی ٹھکائی کا اثر بھی تمام ان افسروں پر پڑتاہے جنہوں نے آج نہیں تو کل جنرل بنناہے۔ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ آخر میاںنوازشریف بغیر جرنیلوں کے کوئی فوج بنانا چاہتے ہیں۔ایسی فوج بھی دنیا کی واحد فوج ہوگی!
جناب آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی ہمیشہ”اینٹی فوج“ رہی ہے۔ قدرت کا کرشمہ کہ افواج پاکستان کے دفاع میں جناب زرداری شمشیر بکف ہوچکے ہیں۔ فوج بیچاری پریشان ہے کہ وہ کسے اپنا اور کس کو بیگانہ سمجھے۔کور کمانڈروں اورآرمی چیف کا اس بار قصور یہ ہے کہ انہوں نے موجودہ ”جمہوری سسٹم“ کو بچانے کا عہد کر رکھا ہے اور اس عہد کا اعادہ وہ بار بار کرتے ہیں بلکہ رات کی تاریکی میں ملنے کے لئے آنے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے بھی چیف آف آرمی سٹاف نے ایسے ہی کسی اعادے کا اظہار فرما دیا ہوگا۔ اب چوہدری نثار‘جاوید ہاشمی‘خواجہ سعد رفیق سب پاک فوج کےخلاف ایسی ایسی جذباتی تقریریں کر رہے ہیں گو یافوج دشمن ملک سے آئی ہے اور ان معصوم سیاستدانوں کا اس فوج سے کبھی کوئی رابطہ ہی نہیں رہا!۔
جنرل (ر) پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کا تختہ کیا الٹا کہ (ن) لیگ کا فلسفہ سیاست ہی الٹ گیا۔”امن کی آشا“ صرف ایک اخباری ادارے کا ہی کاروبار نہیں رہا جناب میاںنوازشریف کی سیاست کا محورومرکز بھی یہی سہانا خواب ہے۔کشمیر میں الیکشن جیتنا چاہتے ہیں اور نعرہ یہ کہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی پرامن حمایت تک خود کو محدود رکھیں گے۔بھارتی مظالم بھی اب پھول بتائے جارہے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں کو یہ ہدایت امریکہ نے فرمائی تھی اور اسی ہدایات کی روشنی میں ہم نے کشمیری مجاہدین کو ”دہشتگرد“ تسلیم کر لیا تھا۔اسی ہدایت کی روشنی میں میاںمحمد نوازشریف نے اس غیر ملکی خاتون صحافی کو غیر مشروط محبتوں کا پیغام دیا تھا جس نے اجمل قصاب کے قصبے کا چکرلگا کر پاکستان کو عالمی سطح پر مجرم ٹھہرانے میں پہل کی تھی۔
کیا میاں نوازشریف بھی امریکی ”ڈکٹیشن “ پر ہی چل رہے ہیں؟ ۔حالانکہ آصف علی زرداری اس کام میں ایک خاص شہرت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے میاں نوازشریف کو مولوی نوازشریف کہا ہے اور پوچھا ہے کہ ”آپ اور ’ملاّں عمر کی سوچ میں کیا فرق ہے؟ ۔ ہمارے خیال میں یہ میاں صاحب پر بے بنیاد الزام ہے عوام جانتے ہیں کہ میاں صاحب بھی امریکی عہدیداروں سے اسی تواتر کے ساتھ ملتے رہے ہیں جس ترتیب کے ساتھ حکمرانوں نے ملاقاتیں کی ہیں ۔ میاںصاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ امریکہ کیخلاف اعلان بغاوت کرنے کی بجائے فوج کے خلاف نعرہ زن ہیں۔ حالانکہ مسٹر زرداری ہوں یا مولوی نوازشریف دونوں کا قبلہ و کعبہ امریکہ ہی ہے۔صرف انداز اور الفاظ کا فرق ہے ۔دونوں طالبان اقتدار ہیں۔ایک امریکہ کو یہاں رکھنا چاہتا ہے تاکہ ”دہشتگردی“ کا قلع قمع ہوجائے دوسرا امریکہ کو یہاں سے باعزت نکالنا چاہتا ہے تاکہ ”دہشتگردوں“کیلئے ”دہشتگردی“ کا جواز ختم ہوجائے۔ دونوں امریکہ کے ہمدرد بن کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
خوشخبری یہ ہے کہ میاں محمد شہبازشریف نے بیرون ملک سرمایہ کاری ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اپنے پورے ”تین کروڑ“ روپے واپس لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خدا خیر کرے اتنی ڈھیر ساری رقم اگر برطانیہ کے بینکوں سے نکلے گی اور پاکستان میںآئے گی تو ہم خود کفالت میں کس قدر آگے جاچکے ہوں گے۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!!!

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply