Jun
30
|
Click here to View Printed Statements
لوڈشیڈنگ کی طوالت بڑھتی جارہی ہے۔ بل ہےں بجلی نہیں اور جب بجلی کی بجائے بلبلا دینے والے بل موصول ہوتے ہیں تو بغاوت کرنے کو دل مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر ”لیسکو“ ہو یا ”آئیسکو“ مضبوط گیٹ بھی ٹوٹ گرتے ہیں‘ پولیس بے بس ہوجاتی ہے اور غضبناک نفرتوں کے سامنے کوئی دلیل ٹھہر نہیں پاتی۔
آبادی کی رفتار تیز تر ہے۔ بجلی کی پیداوار کے جو منصوبے چھ کروڑ صارفین کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے وہ اٹھارہ کروڑ لوگوںکی ضروریات کیسے پوری کرسکتے ہیں؟ حکمرانوںنے سنجیدگی سے اس مسئلہ کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ جن مقتدر طبقات نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کی پلاننگ کرنا تھی ان کے ہاں بجلی جاتی ہی نہیں۔ ان کے ایئرکنڈیشنڈ چلتے رہتے ہیں۔دیوہیکل جنریٹر چوبیس گھنٹے سٹینڈ بائی پوزیشن میں موجود ہیں۔ ادھر واپڈا والوں نے سوئچ آف کیا ادھر ڈیزل اور پٹرول پھونکنے والے جنریٹر بجلی اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ بڑے لوگ صرف اتنا پوچھتے ہیں”جنریٹر سے ہے یا واپڈا سے؟ اور بس! یہ ہے ان کی کل پریشانی۔ باقی پریشانیاں صرف عوام اورفیکٹری مزدوروں کے حصے میں آتی ہیں۔ملک پہلے ہی قرضوں پر چل رہا ہے۔ صنعت وحرفت کا پہیہ چلے نہ چلے‘حکمرانوں کا پہیہ رکتا ہی نہیں!
تمام رکاوٹوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود بعض ادارے اور افراد اپنے طور پر قومی خدمت کے منصوبوں کو کامیاب کر گزرتے ہیں۔پاکستان میں حکومتیں ناکام اور انفرادی طور پر کام کرنے والے پاکستانی اور ان کے ماتحت چلنے والے ادارے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ذرائع ابلاغ کو ایسے تعمیری کاموں کی تشہیر کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ یہ اصحاب یقین خود بھی پبلسٹی کی بیماری سے کوسوں دور ہیں اور بڑی خاموشی کے ساتھ کام میں مگن رہتے ہیں۔
فوجی فرٹیلائزر کمپنی یعنی ایف ایف سی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کیلئے کام کرنے والا بورڈ یعنی اے ای ڈی بی دو ایسے ادارے ہیں جن میں سے اوّل الذکر پرائیویٹ سیکٹر کا انتہائی معتبر نام ہے۔ موخرّالذکرسرکاری ادارہ ہے لیکن سرکاری کلچر سے ہٹ کر عمل اور نتیجہ پر یقین رکھنے والے کارکنوں کا مرکز ہے۔ ایف ایف سی کے بارے میں قارئین کو شائد علم نہ ہو کہ یہ ادارہ ہر سال قومی خزانے میں اربوں روپے کا ٹیکس جمع کراتا ہے ۔سمگلنگ کو روکنا تو حکومت کا کام ہے لیکن یہ ایف ایف سی ہی ہے جو ہمارے کھیت کھلیانوں کی ہریالی کو برقرار رکھتی ہے اور تمام دباﺅ برداشت کرتے ہوئے کھاد کی ضروریات پورا کرتی ہے۔ میرے دوست کالم نگار بیگ راج کہتے ہیں جب پاکستان کے ناکام صنعتی اداروں کے حالات پڑھ کر مایوس ہونے لگیں تو ایک بار ایف ایف سی کی سالانہ رپورٹ ضرور پڑھ لیا کریں یا ان کے کسی یونٹ کا دورہ کر لیا کریںانشاءاللہ پاکستان کے بارے میں پائی جانے والی مایوسی بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔
ایف ایف سی اور اے ای ڈی بی نے باہمی اشتراک سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔پاکستان میںہوا سے بجلی پیدا کرنا انتہائی آسان کام ہے۔چاروں صوبوں میں ایسے ”ونڈ کوریڈوز“ہیں جہاںونڈٹربائین لگائے جائیں تو کامیابی کا تناسب سو فیصد ہوگا۔پاکستان میں سرمایہ کاری کے حالات سازگار ہیں لیکن اپنوں اور بیگانوں کا پروپیگنڈا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہاں کا رخ کرنے نہیں دیتا جبکہ ہمارے سرکاری ادارے ہر وقت اس کوشش اور کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح توانائی کے منصوبے غیر ملکی سرمایہ کاری یا قرضوں کے ذریعے ہی چلائے جائیں کہ ایسی سرمایہ کاری میں ”کک بیکس“ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ونڈ پاور پراجیکٹس متبادل توانائی کاآسان ذریعہ ہے لیکن خود حکومت بھی ایسے کسی منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کرپائی۔ متبادل انرجی بورڈ کے حکام خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے ۔انہوں نے آج سے چار سال قبل ایف ایف سی کو آمادہ کر لیا کہ وہ قومی نوعیت کے اس پروگرام میں پہل کریں۔بورڈ اس تمام عرصہ میں تنقید کے نشتر سہتا رہا۔ لیکن عارف علاﺅ الدین اور ان کی ٹیم نے اعصاب شکن ماحول میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ آخر کار سرمایہ کاری کے تمام مراحل طے ہوئے اور ایف ایف سی نے ونڈ پراجیکٹ کے تمام تقاضے پورے کردیئے‘اے ای ڈی بی نے اس پراجیکٹ کے لئے گارنٹی فراہم کردی اور یوں 22جون کو ایک سو چھتیس ملین ڈالر کے اس منصوبے پر عملدرآمد کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً ایک سال بعد صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میںجھمپیر کے مقام پر ہوا کے ذریعے بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔
جناب سید نوید قمر کی وزارت نے دیر نہیں لگائی۔جوں ہی انہیں اطلاع ملی کہ ایف ایف سی نے تمام شرائط پوری کردی ہیں ‘سید نوید قمر تمام مصروفیات چھوڑ کر متبادل توانائی کے ہیڈ آفس گئے اور دستخطوں کی تقریب میں شریک ہوئے۔ نوید قمر کیلئے یہ منصوبہ کسی نوید سے کم نہیں۔انہیں امید ہے کہ ایف ایف سی کے آنے کے بعد اب پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر آگے بڑھے گا اور کم از کم ایک ہزار میگا واٹ کے ونڈ پاور کے دیگر پراجیکٹ کے لئے بھی پرائیویٹ سیکٹر ہی سرمایہ فراہم کرد ے گا۔
نیپرا‘ نارڈیکس اور ڈیسکان سب مبارک باد کے مستحق ہیں اور سب سے بڑی مبارک ایف ایف سی کے ایم ڈی جناب جنرل (ر) عارف حیات صاحب کیلئے کہ انہوں نے قومی مفاد میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرکے اعتماد سازی کی فضاءکو بحال کردیا ہے۔ اب ہوا سے بجلی پیدا ہوگی اور بجلی سے ہوا۔ پنکھے چلیں گے اور ٹھٹھہ اور اردگرد کے لوگ موسم گرما کی حدّت کومات دے سکیں گے۔