Jul
12
|
Dr Murtaza Mughal’s column (Moonis Elahi Ghabrana Nahin)
Which also mentions
Moonis Elahi, PML(Q), Mian Nawaz Sharif, Chaudhry Shujaaat Hussain, Majid Nizami
Click here to View Printed Statements
بالآخر میاں محمد نوازشریف نے اپنے اصولوں کو قربان کر ہی دیا۔مخالفین کہتے ہیں کہ ایم۔کیو۔ایم کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس جماعت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار کی مضبوطی اور طوالت کیلئے برسوں اپنے کندھے پیش کئے رکھے۔یہ وہی جماعت ہے جسے سابق صدر اپنی”عوامی طاقت“ قرار دیتے تھے۔مجھے یہاں ایم۔کیو۔ایم کی کمزوریاں شمار کرنا مقصود نہیں۔حیرت میں ڈوبا ہوں کہ کس طرح میاں نوازشریف اور جناب الطاف حسین باہم شیروشکر ہوتے جارہے ہیں۔کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے اس بارے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ۔ایک دوسرے کے ماضی کو بھول جانے کے عہدوپیماں باندھے جارہے ہیں۔رائے ونڈ اورنائن زیرو کے درمیان فاصلے مٹتے جارہے ہیں۔میرے نظریاتی قائد محترم مجید نظامی نے انتہائی خلوص کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی کہ چوہدری خاندان مسلم لیگ کی پہچان ہے‘اسے دور مت کریں اور تمام اختلافات بھلا کر مسلم لیگ کو ایک کرلیں۔لیکن سیاسی تکبر سے اکڑی ہوئی سوچ مسلم لیگ کے اتحاد میں حائل ہوجاتی ہے۔”جنہوں نے مشرف کی آمریت کا ساتھ دیا ان کو ساتھ لےکر نہیں چل سکتا“۔ایک ہی جواب دیا جاتا ہے۔
اصول شائد صرف کتابوں میں لکھنے اور تقریروں میں بولنے کیلئے ہوتے ہیں۔ پی پی پی نے آزادکشمیر الیکشن کا معرکہ سر کیا اور اس فتح مندی میں چوہدری برادران کا اہم کردار ہے۔شکست کو قبول کرنے کے بجائے میاں برادران نے اس پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملایا جس کے بارے میں الزامات بھی خود(ن) لیگ کی فیکٹری میں ہی تیار ہورہے تھے۔ہمیں علم نہیں کہ (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کے اتحاد کی بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں لیکن ابتدائی میل ملاقات سے یہ واضح ہوگیا کہ (ن) لیگ کی ساری سیاسی اصول پسندیاں فقط اور فقط چوہدری برادران سے مخاصمت پر مبنی ہیں۔ابھی تک میاں صاحب کے ذہن میں ”گجرات کے چوہدریوں سے انتقام“کی آگ کے آلاﺅ اٹھ رہے ہیں۔ انتقام کی آگ میں چوہدری خاندان پر تو کڑا وقت آیا ہی ہوا ہے خود (ن) لیگ بھی اپنے قیمتی کارکنوں سے ہاتھ دھونے کے قریب ہے۔ جاوید ہاشمی ابھی تک اپنے دل و دماغ میں پڑ جانے والی گرہ کو کھول نہیں پائے اور ان کے ہمنواﺅں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔شیر علی بھی احترام کے پنجرے سے باہر آگئے ہیں۔بغاوت نہ بھی سہی لیکن قائد (ن) لیگ کے رویے اور سیاسی فیصلوں کیخلاف بے زاری بڑھتی جارہی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین اور ان کے خاندان نے اپنے عظیم فرزند مونس الٰہی کو انگلینڈ سے بلوایا اور مونس نے خود گرفتاری دے دی۔ اگر دال میں کچھ بھی کالا ہوتا یا دل میں کوئی چوری ہوتی تو جناب شہباز شریف کی حکومت میں چوہدری برادران اتنا بڑا ”رسک“ نہ لیتے۔سچ یہ ہے کہ شریف برادران کو قطعاً توقع نہیں تھی کہ چوہدری مونس الٰہی اس جرات کے ساتھ عدالت کا سامنا کر پائیں گے لیکن نہ صرف یہ کہ مونس الٰہی پابند سلاسل ہوئے بلکہ انہوں نے پیشیوں سے بچنے کے لئے بھی کبھی کوئی حیلہ بہانہ نہیں گھڑا۔ وہ تو خود ”فردجرم“ کے لئے پکارتے رہے۔
تحقیقات ہوئیں۔تمام ریکارڈ اور گواہ پیش ہوئے اور تمام گواہوں نے چوہدری مونس الٰہی کی بے گناہی کی قسم کھائی۔اگر تھوڑا سا دامن بھی داغدار ہوتا تو کوئی ایک گواہ ہی ”سچ“ بول دیتا کہ آج ایسے کسی گواہ کے تحفظ کیلئے پنجاب حکومت مکمل طور پر تیار بلکہ منتظر بیٹھی ہے۔ مونس الٰہی کے وکلا کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا واحد کیس ہے جس میں ملزم کیخلاف کوئی ثبوت نہیں‘ گواہ منحرف ہوگئے لیکن عدالت ضمانت تک لینے کو تیار نہیں اور جب میرٹ پر فیصلے کا تقاضا زور پکڑ گیا تو کیس سننے سے ہی انکار کر دیا گیا۔
چوہدری شجاعت حسین نے صورتحال پر بڑا معنی خیز تبصرہ کیا ہے۔”اصل میں نوازشریف کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے۔ظفر قریشی کو محض قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے“۔
نوازشریف نے میثاق جمہوریت کے وقت اعلان کیا تھا کہ ان کے دور میں بے نظیر اور آصف علی زرداری کیخلاف قائم کئے گئے تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔ماہرین کہتے ہیں کہ مونس الٰہی کا کیس بھی سیاسی نوعیت کاہے۔ ایسے حالات میںچوہدری مونس الٰہی کو مزید بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔سیاسی نوعیت کے مقدمات طویل ضرور ہوتے ہیں لیکن پاکستانی جیلوں میں جی داری کیساتھ جبر سہنے والے ”مردان حر“صدر پاکستان بن جاتے ہیں اور مچھروں سے ڈرنے والے مخالفین کے طعنوں کی زد پر رہتے ہیں۔اس لئے مونس الٰہی گھبرانا نہیں!