Aug
04
|
Click here to View Printed Statements
رجوع کرلینے پر کتنا خرچہ آتا ہے؟ زندگی تو گزر رہی ہے۔اس کے تمام لوازمات بھی کسی نہ کسی طور پر پورے ہورہے ہیں۔آخر انسان کو کبھی رک کر تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنی منزل کا تعین کر لینا چاہیے۔اپنے سفر اور زادہ راہ کا جائزہ لے لینا چاہیے۔اگر کسی معاشرے کے افراد سدھر جائیں تو معاشرے کو سدھرنے سے کون روک سکتا ہے۔غریب آدمی سے اعلیٰ انسانی اخلاقیات کا تقاضا عبث ہے۔اسے تو شائد مجبوری ہو جھوٹ بولنے کی‘کام چوری کی۔ غیبت‘حسد اور بدکلامی ان لوگوں کامسئلہ ہی نہیں جنہیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اسی دنیاوی جہنم سے ایندھن اکٹھا کرنا ہے۔میں اور آپ جنہیں قدرت نے خطہ غربت کے قریب جانے سے روک رکھا ہے حالانکہ بہت سے ”متوسطین“ غریب ہونے کے مستحق ہیں۔اللہ نے ہمیں رذیل ہونے سے بچا رکھا ہے۔ورنہ جس ملک کے اندر دولت کی تقسیم انسانیت کی توہین بر مبنی فارمولے پر ہوتی ہو وہاں سفید پوشی کے چونچلے زیادہ دیرپا نہیں ہوا کرتے۔ ہم تو اعلیٰ اخلاقیات ‘انسانی اوصاف اور اسلامی اطوار بہ آسانی اپنا سکتے ہیں۔دنیا بھر کے ماہرین سماجیات اس بات پر متفق ہیں کہ مذہب‘ معاشرہ اور ریاست کے ارتقاءکا دارومدار مڈل کلاس طبقہ پر ہوتا ہے۔ پاکستان کے مڈل کلاسیوں کو اپنی اس پہچان سے دور بھاگنے کی بجائے اس کو اپنا فخر بنانا چاہیے۔ اُمراءجو معاشرے کا صرف اشاریہ ایک فیصد بھی نہیں ہیں انہیں اخلاقیات سے کوئی غرض وغائت نہیں ہوتی ۔ پاکستان کے بیس فیصدمتوسط طبقے کو ہی معاشرتی اقدار کا تحفظ کرنا ہے۔عمومی ہمہ ہمی میں اخلاقیات فرائض اور حقوق کا تصور ذہن کے بند دریچوں کے پیچھے دبکا رہنا ہے۔لیکن ماہ صیام ایک ایسا بابرکت مہینہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف نیت باندھ لے تو پھر اس ماہ مقدس میں پیدا ہونے والے ماحول کے سبب اعلیٰ اخلاقی اور انسانی قدروں کے احیاءکے لئے بہت آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ منافع خور‘ذخیرہ اندوز اور ملاوٹیے روزہ داروں کے جذبہ عبادت کا خوب استحصال کرتے ہیں۔لیکن کیا ہم‘ہم پر اس لئے زور ہے کہ مذکورہ بالا گروہوں میں سے کسی نہ کسی کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہمارے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم اس ماہ مقدس میں یہ فیصلہ کر لیں کہ ان ذخیرہ اندوزوں ‘گراں فروشوں اور ملاوٹیوں کو ان کے عمل بد سے روکنا ہے اور ان کو احسن انداز میں سچی بات سمجھانی ہے تو روزے کا ایک مقصد ”جھوٹ سے اجتناب“ پورا ہوجائے گا۔خود جھوٹ نہ بولنا ایک انتہائی صالح عمل ہے لیکن معاشرتی فلاح کا تقاضا ہے کہ ہم ان تمام گروہوں کو جھوٹ بولنے سے روکیں جن کے جھوٹ سے دیگر انسانوں کی معاشی‘معاشرتی اور سماجی حالت متاثر ہوتی ہے ۔اگر متوسط طبقے کا روزہ دار اپنی افطاری پر روزانہ ایک سو روپے خرچ کرتا ہے تو وہ اس روپے میں سے صرف پچیس روپے بچا کر کسی غریب آدمی کو اپنے ساتھ افطار میں شامل کرلے یا پورے مہینے کا حساب لگا کر اپنے ہمسائے میں کسی ضرورت مند کو رقم دے دے۔ اگر ہم بیس فیصد متوسطین (امیر اور غریب کے درمیان سماجی پل کا کردار ادا کرنے والے شہری)ایسے ایثار کا مظاہرہ کریں تو یقینا اُمراءکو بھی کچھ احساس ہوگا۔اور اس طرح کم از کم رمضان کے مہینے میں پاکستان کا کوئی ایسا شہری نہیں ہوگا جو محض غربت کی وجہ سے ہمارے جیسا کھانا نہ کھا سکے۔ اس طرح یہ مہینہ صرف خوشحال لوگوں کے لئے ہی نہیں غریب غرباءکے لئے بھی رحمتوں کا مہینہ ہی ثابت ہوگا۔کاروباری لوگوں کی کثیر تعداد عمرہ ادا کرنے جائے گی۔لاکھوں پاکستانی آخری عشرہ کعبة اللہ اور روضئہ رسول کے سائے تلے گزارتے ہیں۔بہت رقم درکار ہوتی ہے۔ اگر ہم میں سے وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ برس عمرہ کر لیا ہے وہ یہ عہد کریں کہ اس بار عمرہ کا خرچہ بچا کر کسی ضرورت مند کو دینا ہے تاکہ اس کی بیٹی کا جہیز بن جائے یا اس کے بچے کی فیس جمع ہوجائے یا اس کے گھر آئندہ چھ ماہ کا راشن ہو‘یا ایسا کوئی ادارہ مضبوط ہو جو لوگوں کے لئے روزگار کا بندوبست کرے تو میرے قلیل دینی اور قرآنی علم کی رو سے ایسے متمول شخص سے اللہ اور اس کے رسول یقینی طور پر راضی ہوجائیں گے۔ ہمارے ٹی وی اینکرز بھی روزہ دار ہوتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ کم از کم اس ماہ میں جھوٹ بولیں نہ بولنے دیں۔جائز کو جائز کہیں چاہے وہ جائز کسی سیاسی پارٹی سے منسلک ہو۔رمضان کے مہینے میں معاشرتی فلاح اور نجات کا عہد کرنا چاہیے۔ ہم سے ہر فرد کو اپنے حصے کے فلاحی مشن پر نکل کھڑا ہونا چاہیے۔ ہر طرف سے صدائے حیی علی الفلاح آرہی ہے۔!!