Aug
10
|
Click here to View Printed Statements
امور سلطنت کو دنیا بھر میں ”بزنس افیئرز“ کے طور پر چلا جاتا ہے۔ غیر پیداواری اخراجات کم سے کم رکھے جاتے ہیں۔انتظامیہ کا حجم کم کیا جاتا ہے۔ وزراءکی تعداد گھٹائی جاتی ہے۔سرکاری عمارتوں ‘گاڑیوں‘رہائش گاہوں اور مراعات سے جان چھڑانے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ‘ ملک کے نام پر لیا جانے والے قرضہ اور عوام کی خاطر آنے والی خیرات اور امداد زیادہ سے زیادہ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی پر خرچ ہو اور معاشرہ صحت مند ماحول میں انسانی ارتقاءکی منزل کو حاصل کرسکے۔ ایسی منزل کو حاصل کرنے کے لئے جو سیاست کی جائے اسے عبادت کا درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن پاکستان میں مروجہ سیاست صرف اور صرف ووٹر کو بے وقوف بنانے تک محدود رہتی ہے۔آج کل صوبہ بناﺅ تحریکیں زور وشور سے جاری ہیں۔صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھا گیا۔ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ کیا صوبہ کے پی کے مالی طور پر خوشحال ہوگیاہے؟ کیا وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے ‘کیا وہاں مالی مالک بن گیا ہے‘کارکن ساہوکارہوگیا ہے۔آخر صوبے کا نام بدلنے سے عوام کے حاالت میں کونسی تبدیلی آئی ہے؟ ادھر نام بدلا ادھر لفظ ”خیبرپختونخواہ“ میں ہزارہ کا ذکر نہ ہونے کے باعث ہزارہ ڈویژن کے سیاستدانوں نے بغاوت کردی۔ صوبہ ہزارہ کا ایسا مطالبہ اٹھا کہ (ق) لیگ ‘(ن) لیگ اور پی پی پی سمیت ہر سیاست دان نے اس مطالبہ کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے ہیں۔ادھر ہزارہ صوبہ بننے کا اصولی طور پر اتفاق ہونے کی دیر ہوئی کہ مالاکنڈ ڈویژن کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ سر اٹھانے لگا ۔ صوبہ پنجاب میں سرائیکی صوبہ تحریک کا زور توڑنے کے لئے ریاست بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ سامنے آگیا۔صوبہ پوٹھوہار کے مطالبے نے بھی سر اٹھایا۔‘حدّ تو یہ ہے کہ ذمہ دار مسلم لیگی رہنماءنے لاہور کو الگ صوبہ کا درجہ دینے کی حمایت کی ہے۔ صوبہ سندھ کی ”تقسیم“ کیخلاف سندھ میں ہڑتال ہوئی۔حیدرآباد صوبہ کی باتیں ہورہی ہیں‘کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے تذکرے بھی جاری رہتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں کسی نئے صوبے کی کبھی بات نہیں ہوئی لیکن اب وہاںبھی ”پشتونستان“ کا نعرہ بلند ہورہا ہے۔غرض جتنے سیاستدان متوقع طور پر وزیراعلیٰ ہوسکتے ہیں‘اتنے ہی صوبوں کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ عام لوگوں کو ان مطالبات سے غرض و غایت نہیں ہے۔صرف چند ایک سیاسی کھلاڑی اور ان کے مالشیے اس خودغرضنانہ ایجنڈے کو لے کر چل رہے ہیں۔سرائیکی عوام کے حقوق غصب ہونے کی بہت باتیں ہوئی ہیں ‘تخت لاہور کو لعن طعن کی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں نے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان پر حکومت کی ہے۔آج بھی اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ملک کے وزیراعظم ہیں۔اگر مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود ان علاقوں کی حالت تبدیل نہیں ہوسکی اور جنوبی پنجاب میں معاشی بدحالی بڑھتی جارہی ہے تو اس میں قصور اس اشرافیہ کا ہے۔ایک اور صوبہ بنا کر اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے لئے مزید اقتدار چاہتی ہیں۔ ان کے اخراجات‘ان کی تنخواہیں اور ان کی مراعات اسی مجوزہ صوبے کے لوگوں پر ٹیکس لگا کر‘ ان کی محنت کی کمائی پر ڈاکہ ڈال کر پورے کئے جائیں گے۔اختیار والے مزید بااختیار ہوجائیں گے اور سرائیکی عوام ایک دوسرے سے پوچھتے پھریں گے کہ صوبہ بننے کا آخر انہیں فائدہ کیا ہوا ہے؟ جتنے صوبے بنیں گے اتنے ہی وزیراعلیٰ بھی بنیں گے اور اتنے ہی ان کے اللےّ تللّے بھی بڑھیں گے۔غریب مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوجائیں گے۔نئے صوبے نئی غربت لے کر آئیں گے!