Aug
13
|
Click here to View Printed Statements
ماہ صیام میں روزہ داروں کیلئے آسانیاں پیدا کی جانی چاہیں۔لیکن پاکستان میں اسی ماہ مقدس کے اندر لوٹ مار کا وہ سلسلہ جاری ہوتا ہے کہ روزہ دار پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں‘الحذر! الحذر!کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ اے بار الٰہی رحمتوں کے اس مہینے میں ہم سے قصور کیا ہوا کہ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے والی عمومی چیزیں بھی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ہلال رمضان نمودار ہوا تو مبارکبادیںدیں‘”رمضان شریف مبارک ہو“۔متوسط گھرانے نے بجٹ بنایا۔ اور تمام تر احتیاطیں ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب کی بار سحر و افطار کے اوقات میں ہرگز فضول خرچی نہیں کرنی۔ اہل خانہ سے طویل مشاورت کے بعد طے پایا کہ میٹھا شربت بند‘کولڈ ڈرنکس بند‘صرف لیموں والی نمکین شکنجوین استعمال کی جائے گی۔ لیکن لیموںزخموں پر چھڑکنے کو دستیاب نہیں‘ جو ہے وہ پچاس ساٹھ روپے پاﺅ ہے‘گرمی اور حبس کے بعد اگر صرف نمکین اشکنجوین سے روزہ افطار کیا جائے تو کم از کم ساٹھ روپے کے لیموں چاہیں۔کھجور‘گوکہ اب عیاشی کے زمرے میں آتی ہے لیکن سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جان کر خریدنے کا ارادہ کرلیں۔گٹھلی نما کھجور جس پر ”گودا“غریب کے جسم پر کھال کی مانند کسا ہوا ہوتا ہے وہ بھی دو سو روپے کلو ہے۔ پکوڑے پانی میں تو تلے نہیں جاتے اس کے لئے بہرحال کوئی روغن نما سیال درکار ہوتا ہے۔جس ملک میں ڈیزل سو روپے کلو ہو وہاں گھی کا تصور کر لیں۔ ایک عزیز جو ہر سال افطاری کا اہتمام کیا کرتا تھا اب کی بار اس نے سموسے بھجوا دیئے اور ساتھ کہلوا بھیجا کہ زحمت فرما کر تل خود لینا کہ گھر میں گھی ہے نہ گیس ‘ لیکن ثواب کمانے کی غرض سے اتنا ہی کر پایا ہوں۔آنکھیں ڈبڈبا گئیں کہ الٰہی ملک پاکستان میں اس قدر لاچاری۔!ایک برطانوی ادارے نے تحقیق کی ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد لوگ ایسے ہیں جن کو پوری خوراک میسر نہیں۔ ان میں سے تیس فیصد وہ ہیں جن کو کم خوراکی کے باعث مختلف بیماریاں لگ چکی ہیں اور ان میں پندرہ فیصد وہ ہیں جن کو اگر اب پوری خوراک مل بھی جائے تو ان کے پچکے ہوئے گال ‘سوکھی ہوئی ہڈیاں اور پھولے ہوئے پیٹ ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ایک زرعی ملک میں خوراک تک نارسائی کا یہ عالم کسی اور ملک میں دکھائی نہیں دیتا۔ قحط ہے نہ زمینیں بنجر ہوئی ہیں۔ بارشیں ہوتی ہیں‘ فصلیں بوئی جاتی ہیںاناج اور غلہ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔پھر بھی اس ملک کے آٹھ کروڑ لوگ پوری خوراک کو ترستے ہیں۔اسے بے برکتی کہتے ہیں۔حکمرانوںکی نیتیں جب ٹھیک نہ رہیں تو پھر بے برکتی پھیلتی ہے۔گودام بھرے ہیں لیکن پیٹ خالی ہیں۔ رمضان المبارک میں بدنیتیاں ننگا ناچ ناچتی ہیں اور افلاس قہقے لگاتا ہے۔غریب سہم جاتے ہیں ۔ایسی فضاءمیں آنکھ ٹی وی پر امراءکے سجے دستر خوانوں کو دیکھتی ہے اور حسد پیدا ہوتا ہے‘آنکھ کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔کان دولت مندوں کے منصوبے سنتے ہیںاور طبعیت میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔سماعت کا روزہ بکھر جاتا ہے۔ زبان قابو میں کب رہتی ہے۔جھوٹی عزت کی خاطر نئے کپڑے مانگتے بچوں کو ٹالنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولنا پڑتا ہے‘دل ہی دل میں اس نظام‘اس سماج کو گالیاں دینا پڑتی ہیں‘حکمرانوں کے لئے زبان بددعائیں کرتی ہے۔زبان کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسے میں غریب کیا دعا کریں؟یہی کہ یا اللہ روضے واپس لے لے ‘تقویٰ کے تقاضے نبھائے نہیں جارہے۔جہاں رحمت بھی زحمت بن جائے وہاں نیکیوں کا تصور بھی بھیانک ہوجاتا ہے۔ عالم اسلام کے وہ ممالک خوش قسمت ہیں جہاں امراءسحر وافطار کے وقت بہترین خوراک کی طشتریاں بھرے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر اپنی طرف بلاتے ہیں اور خود کھانا کھلاتے ہیں۔ پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت ہے ‘ لیکن مہنگائی نے لوگوں کی خرید کی طاقت چھین لی ہے۔حکومت بھی سفاک‘ حکومتوں کے حاشیہ بردار بھی سفاک۔ ایسی مہنگائی کو ایمان شکن مہنگائی ہی کہیں گے!!