Aug
18
|
Click here to View Printed Statements
خداجانے اس ملک میں پڑھے لکھے بیوقوفوں کو یہ وہم کیسے ہوگیا ہے کہ یہاں کے عوام اسلام اور نظریہ پاکستان سے بیزار ہوچکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے اندر دانشوروں کا بھیس بدل کرملک دشمن گھس آئے ہیں اور اپنے غیر ملکی آقاﺅں کے اشاروں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اس قدر موثر ہیں کہ میاں محمد نوازشریف جیسے زیرک سیاستدان کو بھی شیشے میں اتار لیا اور ”سیفما“ کے اجلاس میں میاں صاحب نے پاک بھارت دوستی کے حق میں وہ دلائل بھی دے ڈالے جو کسی مسلمان کے ایمان کو ہی مشکوک کر ڈالتے ہیں۔جب سے امریکہ کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے ہیں ہمارے بکاﺅ دانشوروں نے مذہب اور دین اسلام کیخلاف ایک اودھم مچا رکھا ہے۔”سیکولرازم ہونا چاہیے“۔”اسلامی جمہوریہ نہیںصرف جمہوریہ ہونی چاہیے“۔”یہ نظریہ پاکستان صرف ہمیں نفرت سکھاتا ہے“۔”عوام کو نظریہ پاکستان نے کیا دیا“۔”ہمیں ماضی سے چھٹکارا پانا چاہیے اور بھارت کیساتھ ملکر آگے بڑھنا چاہیے“۔ ایسے ایسے فلسفے ایجاد ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں کہ انسان خود کو پاگلوں کے درمیان گھرا محسوس کرتا ہے۔سیکولرازم کے پجاریوں کو ترکی میں اپنے اس لادینی فلسفے کا انجام دیکھ لینا چاہیے۔وہاںکے سیکولروں سے پوچھ لیں کہ اسلام سے وابستہ کسی انسان کی دلی کیفیت کیا ہوتی ہے اور کس طرح ترکی معاشرہ تیزی کے ساتھ سیکولرازم سے بیزار ہو کر پھر سے اسلام پسندوں کی طرف لپک رہا ہے۔تاجکستان میں بہت کوشش ہورہی ہے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ نہ ہونے پائے۔بچوں پر پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ مسجدوں کا رخ نہ کریں۔روسی فیڈریشن سے نجات حاصل کرنے کے بعد ان نو آزاد ریاستوں کے اندر نوجوانوں نے رغبت اور وارفتگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ شروع کیا ہے۔ ایک ایک آیت فوٹو کاپیوں کے ذریعے لاکھوں ہاتھوں میں پہنچتی ہے۔خودماسکو کے اندر مسجد کی گنجائش کم پڑ گئی ہے اور حکومت کو مجبوراً اس مسجد کی توسیع کا منصوبہ بنانا پڑا ہے۔ پرویزی دور کی جدید روشن خیالی سے چھٹکارا ملتے ہی پاکستان ٹیلی ویژن پھر سے پاکستانی چینل بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس بار رمضان المبارک میں نماز جمعہ کے اجتماعات میں نوجوانوں کی تعداد گزشتہ آٹھ برسوں میں نظر آنے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔مہنگائی اور کرپشن کے ستائے ہوئے عوام نے یوم آزادی پاکستان کا جشن بھرپور طریقے سے منایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ دشمنوں کی طرف سے پاکستان بیزاری کی چلائی گئی مہم کے باوجود پاکستانی عوام اسلامی جمہوریہ پاکستان سے پہلے سے بھی شدید محبت کرتے ہیں۔کراچی سے خیبر تک ہر کہیں سبز ہلالی پرچم لہراتے دکھائے۔حد تو یہ کہ مقبوضہ کشمیر جسے بھول جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں‘وہاں کے لوگ پاکستانی پرچم تھامے سڑکوں پر نکلے اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ بھارت نے اس موقع پر سرینگر کو چھاﺅنی میں تبدیل کردیا تھا جبکہ اگلے روز بھارت کے یوم آزادی کے موقع پرمقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ اندھوں اور بہروں کو یہ سب کچھ دکھائی اور سنائی کیوں نہیںدیتا۔پاکستان میں بلوچستان سمیت ہر جگہ‘ہر صوبے اور ہر گوٹھ میں ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے گونجے ہیں۔ حیرت انگیز خوشخبری یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں سب سے اونچا قومی پرچم لہرا کر ریکارڈ قائم کیا گیا ہے اور یہ پرچم ماضی میں پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعت اے این پی کے رہنماﺅں نے لہرایا ہے۔آخر اتنی بڑی خوشخبری کو محسوس کیوں نہیں کیا جارہا۔کیازرخرید دانشوروں کے نزدیک یہ بہت بڑا انقلاب نہیں ہے!پاکستان امریکہ نہیں بن سکتا۔پاکستان بھوٹان بھی نہیں بن سکتا۔ پاکستان کو پاکستان ہی رہنے دیں۔ یہ واحد ملک ہے جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے ہی یکتا ہے۔ اس کا نظریہ ختم ہوجائے تو ملک کیسے رہے گا؟ جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے را آلاپتے ہیں وہ دراصل پاکستان کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔بھارت سے دوستی ہونی چاہیے‘ ضرور ایسا ہوجانا چاہیے لیکن یہ دوستی ایک لاکھ کشمیری لاشوں پر چونا ڈال دینے کے عوض نہیں ہوسکتی‘کشمیر کے بغیر یہ دوستی دھوکہ اور فریب ہے اور فریب کاروں اور دھوکہ بازوں کا آج زور ہے‘کل کے حالات بدل جائیں گے۔ جو لوگ جان بوجھ کر پاکستانیوں کو پاکستان سے بددل کر رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ حکومت اور مملکت میں فرق عام اَن پڑھ آدمی ہی سمجھتا ہے۔حکومت کو ملک سمجھ کر وطن دشمنی پر ابھارنا دہشتگردی کی بدترین شکل ہے۔ پاکستان اشاریہ ایک فیصد اشرافیہ کا نہیں اٹھارہ کروڑ لوگوں کا گھرہے۔ پاکستان کو پاکستان رہنے دو اور بھارت اور امریکی غلامی کے لئے کسی اور بستی کا رخ کرو!