Aug
24
|
انتہاءپسندی، تعصب، مذہبی جنونیت، عدم برداشت اور سماجی عدم مساوات بھارتی ہندوﺅں کی نفسیات اور معاشرے کا حقیقی چہرہ ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح جنہیں ان کے کردار اور کارکردگی کی بناءپر مسلمانوں نے قائد اعظم کا لقب دیا تھا۔ ان کی عظیم شخصیت اور تاریخی کردار کا جوں جوں ادراک غیر مسلموں کو ہوتا جارہا ہے وہ بھی ان کے قائد اعظم ہونے کا اعتراف اپنے ضمیر کی آواز پر کئے جارہے ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح قائد اعظم تھے اور رہیں گے۔
یہ ایک زمینی حقیقت ہے مگر اسی زمینی حقیقت کا اعتراف بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے تاریخ کا سچ کہہ کر کیا تو بغیر کوئی نوٹس دیئے بھارتی جنتا پارٹی نے جسونت سنگھ کو پارٹی سے ایسے نکال دیا جیسے مکھن میں سے بال۔ بھارتی ہندوﺅں کی تنگ نظری کھل کر سامنے آ گئی اور دو قومی نظریہ ایک بار پھر زندہ حقیقت بن کر سامنے آ گیا ہے۔ جسونت سنگھ نے ”بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو عظیم لیڈر جبکہ نہرو اور پیٹل کو تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جناح ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے جناح ولن نہیں، نہرو کی ہٹ دھرمی نے تقسیم کے بیج بوئے، جناح وفاقی نظام چاہتے تھے، گاندھی نے تسلیم کیا مگر نہرو نہیں مانے، جناح ایسی چیز وجود میں لائے جس کا کوئی وجود نہیں تھا، گاندھی نے بھی انہیں عظیم بھارتی کہا“۔ یہ تاریخ سچ اور حقیقی تاریخ لکھنے کے جرم میں جسونت سنگھ کو بی جے پی نے ہنومان سے راون کا درجہ دیدیا۔ جسونت سنگھ کا رونا کسی نے نہیں سنا کہ کتاب پڑھے بغیر ہی انہیں فارغ کردیا گیا۔ جسونت سنگھ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے سوچ و بچار کا راستہ بند ہو جائے گا لیکن جسونت سنگھ بھی کتنے سیدھے سادہ ہیں انہیں یہ اندازہ اب ہو گیا ہوگا کہ مسلم دشمنی میں متعصب ہندو کچھ سننے دیکھنے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ماسوائے ایک حقیقی نعرہ جو کبھی نقاب پہن کر دل میں اور کبھی نقاب اتار کر سرعام لگایا جاتا رہا ہے اور آج بھی ورون گاندھی کی زبان سے جاری و ساری ہے ”ہندوستان میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے“۔
بہرحال جسونت سنگھ کی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مداح سرائی پر کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشک سنگھوی کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ”جناح سے محبت“ اور گاندھی اور جواہر لال نہرو سے نفرت“ کی بناءپر اپنا نام ”بھارتیہ جنتا پارٹی“ کے بجائے”بھارتیہ جناح پارٹی“ رکھ لینا چاہئے۔ ادھر دوسری جانب بی جے پی کی ”ہم نوالہ وہم پیالہ“شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے العمروف بالا ماما نے بھی شیوسینا کے ترجمان رسالے ”سامنا“ کے اداریے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو خوب ہی لتاڑا ہے اور لکھا ہے کہ ”جناح“ کو سیکولر اور ”ہندو مسلم اتحاد کی علامت“ قرار دینے سے جنگ آزادی ہند کے لاکھوں ”شہدا“ کی ارواح کو تکلیف پہنچی ہے جس پر جسونت سنگھ سے جواب طلبی کی جانی چاہئے۔ بی جے پی سے ناراض بالا ماما کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان جناح کو ”سکولر“ کہنا ہماری اور دیش کی آزادی کے لئے جان دینے والوں کی توہین ہے۔ بال ٹھاکرے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے شری لال کرشن ایڈوانی جی جب 2005ءمیں پاکستان گئے تھے تو وہاں سے بھارت کے نظریہ آزادی پر ”ابہام“ پیدا کرکے لوٹے اور اب جسونت سنگھ نے ایڈوانی کے پیدا کردہ ابہام کو مزید ہوا دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر ”جناح“ کو سیکولر اور ”ہندو مسلم اتحاد کا حامی“ قرار دیا ہے جبکہ ساتھ ہی گاندھی اور نہرو کو تقسیم کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے۔ بالا ماما کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سال کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بدترین شکست کا سبب ان کے رہنماﺅں کی جانب سے کی جانے والی یہی حماقتیں ہیں جو آج کل ایڈوانی ا ور آج جسونت سنگھ کررہے ہیں۔ بال ٹھاکرے نے آگے چل کر لکھا ہے کہ انہیں یہ کہنے میں کوئی شک نہیں کہ آج لال کرشن ایڈوانی اور جسونت سنگھ جیسے لوگوں کے باعث عام ہندوﺅں کا کوئی نظریہ یا منزل نہیں ہے۔ وہ حیران ہیں کہ تقسیم کے ذمہ دار اگر جواہر لال نہرو اور گاندھی جیسے لوگ تھے تو ان کے رہنماﺅں کا کیا مقام ہونا چاہئے؟ بال ٹھاکرے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک شخص (قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے اشارہ ہے) جس نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کیا وہ کس طرح ”سیکولر“ قرار دیا جاسکتا ہے؟ بال ٹھاکرے نے اپنے ترجمان جریدے ”سامنا“ کے اداریے میں لال کرشن ایڈوانی کو مخاطب کرکے لکھا ہے کہ ”ایڈوانی سے استفسار کرتا ہوں کہ اگر جناح سیکولر تھے اور تقسیم کے ذمہ دار نہ تھے تو ایڈوانی جی آپ نے سندھ کیوں چھوڑا؟ رہتے وہیں پر سیکولر جناح کے ساتھ، کیوں آ گئے ہندوستان؟“۔ ان کا مزید کہنا کہ وہ ایک عرصے سے دیکھ اور برداشت کررہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماﺅں کی زبانیں پاکستان اور بانی پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور ان کے درمیان ”جناح“ کی مدح سرائی کا ایک مقابلہ سا جاری ہے جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سارے رہنماء”جناح“ پر ”گل پاشی“ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماءلال کرشن ایڈوانی نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر بانی پاکستان محمد علی جناح کو سیکولر کہا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ ان کی کوششوں کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا۔ ان کے اس بیان پر بھارت میں ایک طوفان سا کھڑا ہوگیا تھا جس کے بعد اب بی جے پی کے ایک اور رہنماءجسونت سنگھ کی جانب سے بانی پاکستان کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق اور اس پر مبنی کتاب ”جناح، انڈیا، پارٹیشن، انڈی پینڈنس“ جسے ”روپا اینڈ کمپنی“ نے شائع کیا ہے، کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت میں ایک طوفان کھڑا ہوچکا ہے جبکہ کانگریس، شیو سینا، آر ایس ایس سمیت بی جے پی کی مخالف جماعتوں اور خود بی جے پی کے رہنماﺅں کی جانب سے جسونت سنگھ کی جانب سے اپنی کتاب میں قائد اعظم کے حوالے سے لکھے جانے والے ریمارکس پر انہیں تنقید اور طنز کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکایا بھی جارہا ہے۔ کتاب میں جسونت سنگھ کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند کا اصل کردار جناح نہیں بلکہ ”جواہر لال نہرو“ تھا جس کی ہٹ دھرمی کے باعث تقسیم کا سانحہ رونما ہوا۔ جسونت سنگھ کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب میں جو کچھ بھی لکھا ہے، سچ ہے۔ ان کی کتاب میں جھوٹ اور خیالی باتیں نہیں ہیں کیونکہ اس کام اور تحقیق کے لئے انہوں نے برطانیہ سمیت دنیا بھر کی لائبریریوں کی خاک چھانی ہے اور پانچ سال تک حقائق تلاش اور بعد ازاں اپنی کتاب میں جمع کئے ہیں۔ جنوری 1938ءمیں راجستھان میں پیدا ہونے والے جسونت سنگھ کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح حقیقت میں سیکولر اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے جبکہ ہندوستانی رہنماﺅں نے ان کو منفی رویئے کا حامل شخص بنا کر پیش کیا۔ جسونت نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے کہ ”جناح“ نے 1945ءتک حتی الامکان کوشش کی کہ ہندوستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں لیکن ان کی نہرو اور گاندھی جیسے لوگوں کے سامنے ایک نہ چلی، کیوں کہ نہرو اس وقت تک ”تقسیم ہند“ کا ”اسکرپٹ“لکھ چکے تھے۔ جسونت سنگھ سے جب ایک معروف بھارتی الیکٹرونک نے استفسار کیاکہ آیا وہ ”جناح “ اور ”نہرو“ کے متعلق سابقہ موقف کو بھلا دیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ تاریخ اور سچ وہی ہے جو میں نے بیان کیا، بس ہمیں تاریخ کو درست رکھنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب جسونت سنگھ کی تحقیقی کتاب کے مندرجات سے وہ اور ہزاروں دیگر سیکولر بھارتی تو شاید متفق ہوں لیکن ان کی کتاب کے مندرجات اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے دیئے جانے والے ان کے ریمارکس سے ناصرف کانگریس ”چراغ پا“ ہے بلکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ اور انتہاءپسند ہندو رہنماءبھی ناراض ہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کی خاتون رہنماءاور سابق ترجمان اور لوک سبھا میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر شریمتی ”سشما سوراج“ کا بھارتی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہنا تھا کہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں بانی پاکستان ”جناح“ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ ان کا اپنا موقف تو ہوسکتا ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہرگز نہیں۔