Oct
10
|
Click here to View Printed Statement
اس میں کیا شک ہے کہ صحافی پیشہ خواتین وحضرات انتہائی دباﺅ کے تحت کام کرنے والے طبقات میں بلند مقام رکھتے ہیں۔حیات وممات کے اندازے لگانے والوں نے ثابت کیا ہے کہ باقی شعبوں کی نسبت صحافیوں کی عمریں کم ہوتی ہیں۔ وہ جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک میں صحافت سے وابستہ افراد کی عمریں باقی ممالک کے صحافیوں سے کہیں کم ہیں۔ کم عمری یا جواں سالی کے دوران موت کے بڑے بڑے اسباب میں ایک سبب ڈپریشن ہے۔ذہنی دباﺅ ہی اعصابی تناﺅ کو جنم دیتا ہے۔
جسم کے اندر بیماریوں کی روک تھام کا خودکار نظام ناکارہ ہوجاتا ہے۔شوگر اور بلڈپریشر اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔خبر اور خصوصاً سب سے پہلے خبر نکالنے اور سنوارنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے والے دماغوں کوانتہائی بے خبری کے عالم میںہارٹ اٹیک جیسی بیماری آلیتی ہے۔صحافیوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ مڑ کر تھوڑی دیر پیچھے دیکھیں۔اہل وعیال اور بیوی بچوں سے جزوقتی ملاقاتوں کے عادی صحافیوں کو اپنی جسمانی صحت کے سلسلے میں فرصت ہی نہیں اور اگر خوش قسمتی سے وقت میسر آ بھی جائے تو وسائل میسر نہیں ہوتے اور اگر جسم مجبور کردے کہ اب میڈیکل چیک اپ کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تو وہ کسی انشورنس سکیم کے تحت یا کسی ہسپتال سے دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر زیر علاج چلے جاتے ہیں۔ہمارے ایلوپیتھی ڈاکٹر حضرات صحافیوں کے جسم پر بھی وہی نسخے آزماتے ہیں جو سٹریس اور ڈپریشن سے بچے ہوئے دوسرے مریضوں کیلئے یقیناکارآمد ہوتے ہوں گے۔میں ذاتی طور پر کتنے ہی صحافی بھائیوں کو جانتا ہوں جو وقتی طور پر ”ریلیف“ حاصل ہوجانے کے بعد تہہ در تہہ پیچیدگیوں میں گھر جاتے ہیں اور بالآخر ان کے معالج کے پاس ان کی دوائی کی مقدار میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔دوائیوں کے مارے ہوئے ایسے انسانی جسم اداروں کیلئے بوجھ بن جاتے ہیں۔ان کی دماغی صلاحیتیں شدید متاثر ہوتی ہیں اور وہ کسی تخلیق‘کسی نئے آئیڈیا اور کسی اچھوتی سٹوری یاخبر کے سامنے لانے کے قابل نہیں رہتے۔میں ایلوپیتھی طریقہ علاج کا ہرگز مخالف نہیں ہوں۔الٹرنیٹومیڈیسن میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے دوران میرا یہ احساس پختہ ہوا کہ مختلف طریقہ ہائے علاج کے ماہر ڈاکٹرز کو آپس میں مخاصمت کی بجائے ہسپتال یا کمیونٹی کی بنیاد پر ایسے مشاورتی بورڈ بنانے چاہیں جن کے ممبران میں ایلوپیتھی‘ہومیوپیتھی‘یونانی حکمت‘آکوپنکچر اور دنیا میں رائج مختلف طریقہ ہائے علاج کے ماہرین شامل ہوں۔جدید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک سو مریضوں میں ستر مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں کسی متبادل طریقہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایلوپیتھی حضرات یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی اپنے مریض کو کبھی ہومیوپیتھی میڈیسن تجویز نہیں کریں گے ۔ ہومیوپیتھی ڈاکٹرز اور یونانی حکیم بھی اپنے مریض کو کبھی ایلوپیتھی ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ نہیں دیں گے۔افسوس کہ پاکستان کے اندر ابھی متبادل ادویہ کا طریقہ علاج جڑ پکڑ ہی نہیں پایا اور مریضوں کے مرض ٹھیک ہونے کی بجائے عمومی طور پر صحتیں گرتی جارہی ہیں۔لندن اور واشنگٹن میں اب ایسے کلینک کھل رہے ہیںجہاں الٹرنیٹ میڈیسن میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرزمریض کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرض کے لئے کونسا طریقہ علاج اپنائے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دماغی دباﺅ کے تحت کام کرنے والی خواتین وحضرات کیلئے ایلوپیتھی ادویات فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بنتی ہیں۔ جس کی تازہ مثال آج کل ڈینگی کا وائرس ہے۔ماہرین طب متفق ہیں کہ ڈینگی وائرس کا حملہ ان مریضوں کیلئے مہلک ثابت ہوتا ہے جن کے جسموں کا دفاعی نظام کمزور ہے۔شائد اسی لئے اس بخار کو امیروں کا بخار بھی کہا جاتا ہے۔حالانکہ مسئلہ امارت یا غربت کا نہیں ہے ۔ جو جسم تسلسل کیساتھ ایلوپیتھی ادویا ت استعمال کرتے ہیں۔ایسے جسموں کے اندر ڈینگی جیسے وائر س سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ایلوپیتھی ادویات میں شائد ہی کوئی ایسی میڈیسن ہو جو بغیرنقصان پہنچائے انسان کے دفاعی نظام کو بحال کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کو دھڑا دھڑ ادویات دی جارہی ہیں لیکن افاقہ توقعات سے بہت کم ہے۔میری شدید خواہش تھی کہ اپنی صحافی برادری کو ڈینگی کے وائرس سے بچاﺅ کیلئے ادویات فراہم کروں۔ اسی غرض کے تحت30 اکتوبر کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں فری میڈیکل کیمپ لگایا گیا اور میرے ہمراہ ڈاکٹروں کی چھ رکنی ٹیم نے صحافیوں اور ان کے اہلخانہ سمیت ایک دن میں تقریباً چھ سو مریضوں کو نہ صرف چیک کیا بلکہ مفت ہومیوپیتھی ادویات بھی فراہم کیں۔پریس کلب کے عہدیداران اس بات پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے ممبران کی صحت مندی کے بارے میںفکر مند رہتے ہیں اور فری میڈیکل سہولتوںکی فراہمی جاری رکھتے ہیں۔میرا ایمان ہے کہ صحت مند جسم رکھنے والے لوگ ہی صحت مند دماغ سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحافت میں صحت مندرجحانات پروان چڑھیں تو پھر ہمیںصحافیوں کیلئے فری میڈیکل سہولتیں مہیا کرنا ہوںگی۔صحافی برادری کو اپنے کام کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایلوپیتھی سے بچنا ہوگا اور الٹرنیٹ میڈیسن کے تصور سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔