Sep
07
|
Click here to View Printed Statment
یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ”ن“ چوٹ لگاﺅ اور بھاگو کے فلسفے پر کاربندہے اور اس جماعت کے شہ دماغ پی پی پی کیخلاف ابھی تک کسی باقاعدہ جنگ کو مناسب خیال نہیں کرتے۔ حالانکہ ”ن“ لیگ کے صف اول کے مجاہدین نے طالبانی انداز میں لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے دی تھی۔ لیکن چند روز قبل جناب میاں محمد نوازشریف نے اخباری مالکان اور سینئر صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے افطار ڈنر کے موقع پر اپنے جن باوضو خیالات کا اظہار کیا اور عمومی سوالات کے جو مصالحانہ جوابات دیئے۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”ن“ لیگ مشرف کے احتساب کے اشو کو اب مزید آگے بڑھانا نہیں چاہتی اور اس اشو کو مستقبل میں پی پی پی کیساتھ ناراض ہونے کے لئے محض ایک پوائنٹ کے طور پر قابل تذکرہ رکھنا چاہتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف نے عہدہ صدارت چھوڑتے وقت جناب آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو ”ڈیل“ کی تھی اس سے جناب نوازشریف کو بے خبر رکھا گیا ہو۔اگرچہ یہ ممکن نہیں اور جب میاں نوازشریف بھری بزم میں ایسی کسی ڈیل سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا معصوم چہرہ ”تجاہل عارفانہ“ سے مزید معصوم سامن جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میاں برادران کو جنرل پرویز مشرف کی دستربرد سے نکال کر حجاز مقدس لے جانے والے اور آٹھ برس تک ان کی مہمان نوازی کرنے والے سعودی دوستوںنے بھی میاں نوازشریف کو ایسی ڈیل سے بے خبر رکھا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ ملی بینڈ نے بھی جناب میاں صاحب کو اندھیرے میں رکھا ہو۔ صدر مشرف نے جناب میاں صاحب سے اقتدار چھینا تھا ادھار یا بھیک نہیں مانگی تھی۔وہ ”مواخذے“ کے خوف سے زیادہ اپنے غیر ملکی دوستوں کی ”ضمانت“ پر عہدہ صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کی الوداعی تقریر اعتراف نہیں بلکہ دھمکیوں سے پر تھی اور انہیں اپنی واپسی کا اتنا ہی اعتماد تھا جتنا آج کل میاں نوازشریف کو اپنے وزیراعظم بننے کا یقین ہے۔
ہمیں میاں صاحب کا یہ جملہ”سعودی عرب کو پاکستانی معاملا ت میں الجھایا نہ جائے“ سن کر تکلیف دہ حیرت ہوئی۔ جو شخص خود سعودی مداخلت یا محبت کے طفیل اٹک قلعے سے نکل کر مسجد نبوی پہنچ گیا اور سعودی مہربانوں کی فراغ دلی کے سبب ہی اسے وطن واپس آنے اور یہاں آکر اپنی پارٹی کو الیکشن لڑنے اور پنجاب میں برادرخورد کی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا وہی آج کہتا ہے کہ ”سعودی عرب کو پاکستانی معاملات میں نہ الجھایا جائے“۔ایسی نکتہ آفرینیاں صرف روزوں کی برکت سے ہی ممکن ہےں!
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کی طرف سے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گروپ کے چیف ایگزیکٹو جناب میاں شاہد حالات سے نہ گھبرانے والے ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں بلکہ وہ طبقہ فکر کی نمایاں شخصیات سے تعلقات نبھا نے کا بھی حوصلہ رکھتے ہیں۔افطار ڈنر کیا تھا‘پاکستانی سیاست کے ”عامل پروفیسر“ جناب شیخ رشید احمد‘تھنکرز فورم کے چیئرمین جناب جنرل (ر) اسد درانی ‘قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے وزارت داخلہ کے جراءت مند چیئرمین جناب سینیٹر طلحہ محمود‘ایئرمارشل (ر) مسعود اورجناب رضاگیلانی سمیت درجنوں اصحاب فکر دانش کی ایک بھرپور محفل تھی۔راقم اس گروپ کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کی حیثیت سے ان احباب کو خصوصی دعوت دی تھی۔ جناب شیخ رشید صاحب کو سیاسی باریکیوں کو چند اشاروں ‘کنایوں میں بیان کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کی سیاسی پھلجھڑیاں ‘بعض اوقات بڑے بڑے سیاسی طوفانوں کی پیشگی خبر ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا ”میاںنوازشریف ابھی پچھلے سفر کی تھکاوٹ اتار نہیں سکے اور دوسرے سفر کی تیاریاں کر رہے ہیں۔“
سینیٹر طلحہ محمود کو اہم ترین قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ سنبھالنے کا موقع ملا تو انہوںنے داخلی مگرمچھوں کی کلاس لینا شروع کی۔ اصلاح احوال ایک سست رفتار عمل ہے لیکن خرابیوں اور خامیوں کی بروقت نشاندہی کرنے میں سینیٹر طلحہ محمود نے کبھی غفلت نہیں برتی‘کسی دباﺅ یا لالچ کو خاطر میںنہیں لایا۔انہیں حق ہے کہ وہ اپنی خوبصورت مونچھوں کو اور بھی بلند کریں۔کہنے لگے ” یہ سیاستدان لوگ بھی عجیب الخلقت ہیں۔ لوگوں کے اصل مسائل‘قوم کے حقیقی دکھ اور قوم کی ضروری خودمختاری۔ یہ سارے اشوز نان اشوز بنا دیئے گئے “۔ جنرل (ر) اسد درانی کا اپنا انداز تکلم ہے وہ جچے تلے انداز میں منظم و مربوط تبصرے اور تجزیے کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
میرے ملک کی سیاست کو صبر کی عادت نہیں رہی۔میاں صاحب کو علم ہے کہ وہ جس ”مائنس وَن“فارمولے کو پروموٹ کر رہے ہیں اس کے روبہ عمل ہونے سے وہ خود بھی مائنس ہوجائیں گے اور ”پلس“ ہونے کے لئے کوئی اور ہوگا!۔