Nov
04
|
Click here to View Printed Statement
مینارپاکستان کے سائے تلے نوجوانوں کے جم غفیر کی توہین کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ جو سیاسی تجزیہ نگار اور پارٹی ترجمان اس تاریخی جلسے کی تعداد اور استعداد کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خلق خدا کی آواز کو سننا ہی نہیں چاہتے۔ یہ ٹھیک کہ کسی ایک جلسہ سے انقلاب برپا نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف ہر حال میں جیت جائے گی لیکن یہ تو تسلیم کیا جانا ضروری ہے
کہ برسوں سے جاری گلے سڑے سیاسی نظام کے خلاف ہماری نسل نو نے بغاوت کا بگل بجا دیا ہے۔ ہم جنہیں برگر فیملی کے ممبران کہہ کر اپنی پاکیزہ نظروں سے گرا رہے تھے عمران نے ان”لفنٹروں“ کی نگاہوں نگاہوں میں بہرحال تبدیلی کے خواب سجا دیئے ہیں۔ بدلا ہوا خان جوہری تبدیلیوں کا نقیب بن کر سامنے آگیا ہے۔ٹوئٹر‘فیس بک اور یو ٹیوب نے جس طرح عرب ممالک کے اندر سوشل نیٹ ورکنگ کو آسان بنا دیا تھا‘مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہونے والوں نے بھی اسی آسان راستے کا فائدہ اٹھایا ہے۔انہوں نے ممبر و محراب سے شائد صدائے حق نہ سنی ہو لیکن اپنے کمپیوٹر اور موبائل کے ذریعے تحریک کے اثرات جذب کئے ہیں ۔ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رنگ‘نسل‘ مسلک اور قبیلے سے بالاتر ہو کر لوگ خصوصاً وہ اٹھارہ سالہ نوجوان جنہوں نے ابھی ابھی ووٹر ہونے کا حق حاصل کیا ہے وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ تبدیلی کا سب سے بڑا محرک نوجوان ہی ہوتے ہیں اور خوشی سے یہ اثاثہ عمران کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ راقم نے اپنے ایک کالم میں ایک تعلیمی ادارے میںلیکچر کا حوالہ دے کر بتایا تھا کہ آج کا نوجوان موجودہ سیاسی قیادتوں سے کسقدر نالاں ہے اور وہ عمران کو ”مسیحا“ کا درجہ کیوں دیتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سیاسی نابالغ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواہ مخواہ عمران کی توپوں کا رخ اپنی طرف موڑ لیا۔ پیپلزپارٹی عقل مند نکلی اور انہوں نے بڑے سلیقے کیساتھ عمران کی مقبولیت کو(ن) لیگ کیخلاف استعمال کر ڈالاہے۔ گو کہ اب صورتحال بدل گئی ہے اور (ن) لیگ والوں کو ہوش آگیا ہے کہ کل کلاں عمران خان کے ساتھ اتحاد بھی ہوسکتا ہے۔ توقع یہی ہے کہ (ن) لیگ اور عمران خان ایک دوسرے کیخلاف انتقامی کارروائیوں سے باز رہیں گے۔ایسے اشارے ہیں کہ بعض شرپسند عناصر قتل‘جلاﺅ اور توڑ پھوڑ کی ایسی وارداتیں کریں گے جن کا مقصد میاں برادران اور تحریک انصاف کے سربراہ کو آپس میں لڑا دینا ہو۔ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو اس صورتحال کا بغور جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ عمران اور نوازشریف انیس بیس کے فرق سے ایک ہی سیاسی بات کر رہے ہیں۔کرپشن کیخلاف‘ نئے پاکستان کی تعمیر‘غیرت مند اور خودمختار ملک۔یہ ساری باتیں مشترک ہیں۔جہاں تک ذاتی دولت اور اثاثوں کا تعلق ہے تو دونوں ماشاءاللہ طبقہ امراءسے تعلق رکھتے ہیں۔فرق صرف یہ کہ میاں صاحب کا کچھ سرمایہ شاید بیرون ملک ہو جبکہ عمران خان کے تمام اثاثے پاکستان کے اندر ہیں۔ البتہ عمران خان کے بچوں کو اگرننھال کی طرف سے حصہ یا تحفہ ملتا ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہوگا۔عمران خان کا جلسہ سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام کئے رکھے گا۔ چاہے بڑی سیاسی پارٹیاں اس سے بڑا شو بھی کر لیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عمران خان تیسرے آپشن کے طور پر میدان میں رہیںگے۔ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ اگر عمران خان نے اپنی ذات کو فیصلوں پر نہ ٹھونسا اور فیصلے اپنی پارٹی کے سینئر ارکان پر چھوڑے تو فیلڈ میں قدرے بہتر لوگ اتارے جاسکیں گے۔پاکستان میں قحط الرجال ہے۔عمران خان کو بھٹوثانی قرارنہیں دیا جاسکتا۔عمران بھٹو سے کہیں زیادہ مشکل حالات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ یہ ردعمل کا مرحلہ نہیں ہے بلکہ آگے بڑھ کر ایک نیا اور قابل عمل لائحہ عمل مرتب کرنے کا چیلنج ہے۔دلوں کو کچھ وقت کیلئے گرمایا جاسکتا ہے لیکن ذہنوں کو تادیر کسی تصور کیساتھ ہم آہنگ رکھنامشکل ترین عمل ہے۔عمران خان کے حامیوں سے گذارش کرنی ہے کہ وہ اپنے جلسہ کی دھاک کو اپنے لئے انعام سمجھیں نہ کہ اسے اپنی طاقت سمجھ کر کسی منفی سوچ میں مبتلا ہوجائیں۔ ابھی سفر طویل ہے۔ ابھی منزل کی طرف رخ ہوا ہے۔ تبدیلی کی خواہش کو کسی تحریری نعرے‘ کسی منشور کی شکل میں لانا ضروری ہے ورنہ جلسہ کی کامیابیاں تحلیل ہونے میںتھوڑا سا وقت لگتا ہے۔