Nov
30
|
Click here to View Printed Statements
سکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ پہلے تولوپھر بولو۔ ماسٹر جی اس محاورے کی تشریح اس طرح کرتے تھے کہ ”بچو اپنے منہ سے لفظ نکالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ ان لفظوں کا مخاطب پر کیا اثر پڑے گا۔ اگر آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ الزام‘ بہتان‘شرارت اور شہوت پر مبنی ہیں تو پھر ان کو زبان سے باہر مت آنے دینا کیوں کہ ان کی ادائیگی سے تہذیب شرمندہ ہوگی‘خدا اور اس کے رسول ناراض ہوں گے۔“ یہ سبق ماضی میںکوئی اہمیت رکھتا تھا۔سخت کلامی‘بدزبانی اور توتکار کو غیر مہذب اورگنوار شخص کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔
شائستگی‘دھیما لہجہ اور شستہ انداز اپنانے پر زور دیا جاتا تھا۔ غیبت‘چغل خوری‘افواہ سازی‘بہتان بازی جیسے عوامل کو مکروہ اور انسانیت سے گرا ہوا فعل سمجھا جاتا تھا۔ خصوصاً عمر میں بڑے آدمی کا ادب تو گویا فرض عین تھا‘ اس میں کوتاہی کا مرتکب گھر‘ محلے اور سماج میں ”بدتمیز“ کے لقب سے نوازا جاتا تھا۔نظریاتی اور مسلکی اختلافات تو ایک معمولی بات تھی‘ اگر بڑے بڑے سیاسی اختلافات بھی ہوجاتے تو پھر بھی زبان ادب اور آداب کے دائرے سے نکالنا عیب ہی قرار دیا جاتا تھا۔اس تمہید کے پیچھے ایک تشویش کارفرما ہے۔دل دکھتا ہے جب سیاسی جلسوں اور ٹی وی مناظروں میں انتہائی بازاری زبان بولی جاتی ہے اور اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ سامعین حاضرین اور ناظرین اس بازاری پن پر بھی اپنے اپنے لیڈر اور نمائندے کو دادو تحسین سے نواز رہے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں بدزبانی کی راہ کھولنے میں ٹی وی اینکرز نے عمل انگیز کا کام کیا ہے۔الاماشاءاللہ جب پروگرام کی کامیابی کا معیار میز پڑے گلاس توڑنے‘ایک دوسرے کیخلاف دشنام بکنے‘ گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنے دروغ کو سچ ثابت کرنے جیسے ”فارمیٹ“ پر ہو تو پھر ظاہر ہے ہر رات ٹی وی سٹوڈیوز سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھے گا اور تہذیب وتمدن صحافت‘دانش اور خبر کے دامن سے لپٹ کر ماتم ہی کریں گے۔حیرت ہوتی ہے کہ بظاہر بڑے معتبر قسم کے ترجمان‘ فرفر انگریزی بولنے والے اور دستاویزی ثبوت کے پلندے اٹھائے محققین ٹی وی ٹاک شوز میں ‘سرکسی جانوروں کی طرح اینکرز پرسن کی گرفت میں ہوتے ہیں اور ان کی انگشت پر ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔ ادھر کسی خاتون اینکر نے آنکھوں کے اشارے سے اکسایا ادھر رگیں پھولنے لگیں‘کلائیاں چڑھائی گئیں ‘منہ سے جھاگ بہنے لگی اور مخالف کیخلاف وہ باﺅلہ پن اگلنا شروع کردیتے ہیں۔سیاسی جلسوں کا حال بھی عجیب ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے پاس تو خیر پہلے سے ایسی ٹولیاں تیار ہیں۔جو”مﺅقف“ کے نام پر ایسی ایسی ”واحیات“ اور لغویات اگلتے ہیں کہ ان کی دماغی حالت پر شک کرنا پڑتا ہے۔محض اپنے ”قائد“ کو خوش کرنے اور مخالف کو لتاڑنے کیلئے بدکلامی کا سہارا لیتے لیتے شرف انسانیت سے ہی نیچے گرجاتے ہیں۔ترجمان اور بھونکا ہونے میں کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔عمران خان جو کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں آئے ہیں وہ وزیراعظم بن کر کوئی تبدیلی لائیں گے یا نہیں فی الحال ان کے لب و لہجے اور روایتی سیاسی رہنماﺅں کے انداز تکلم میں کوئی فرق نہیں۔شریف برادران کو ”ڈینگی برادران“ کہنا اور ”چورچور“ کہنے سے عمران خان اپنے سیاسی نابالغ پن کا ثبوت ہی نہیں دے رہے لگتا ہے ”اقبال فہمی“ نے بھی ان کی سوچ اور انداز فکر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ انہیں اپنے طرز کلام اور لب ولہجے سے ایک بدلا ہوا شخص دکھائی دینا چاہیے لیکن وہ بھی عمل اور ردعمل کے روایتی فلسفے کا شکار ہوچکے ہیں۔مجھے عمران خان اور(ن) لیگ کے جناب رانا ثناءاللہ اور پی پی کے جناب عابدی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد اور ایم کیو ایم کے جناب وسیم اختر میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔عمران خان شائدذوالفقار مرزا کی”لسانی بدکاریوں“ سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوگئے ہیں۔سچی بات گالی دیئے بغیر بھی کہی جاسکتی ہے۔مﺅقف گلا پھاڑنے سے سچا نہیں ہوجاتا۔وقتی طور پر کسی محفل‘جلسہ میں گالی گلوچ کے ذریعے اپنے مخاطبین کو متاثر کیا جاسکتا ہے‘مجمع لوٹا جاسکتا ہے لیکن مسیحائی کا کام نہیں ہوسکتا۔نوح انسانی کی تقدیر بدلنے والے عظیم رہنماﺅں نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی کبھی گالی نہیں دی۔ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے واحد روشنی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اور پاکستان کے سیاستدانوں کو جو ماشاءاللہ مجھ سے اچھے مسلمان ہیں کم از کم اپنے قول کو ہی اسی روشنی میں سنوار لینا چاہیے۔اپنے افعال کو اسوہ رسول کے مطابق ڈھالنا تو بڑے نصیب کی بات ہے۔اگر ہمارے سیاستدانوں نے ان بدکلامیوں کو نہ چھوڑا تو آنے والی نسلیں مزید بدتہذیبی کا شکار ہوجائیں اور مہذب قوم ہونے کے ہمارے سارے دعوے فراڈ اور جھوٹ ثابت ہوں گے۔دنیا والے کہہ اٹھیں گے‘حیرت ہوتی ہے مجھے اس سیاستدان پربدکلامی خود کرے لعنت کرے شیطان پر