Dec 03

Click here to View Printed Statements

سپریم کورٹ کے انیس رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جناب نوازشریف سمیت متعدد درخواست گذاروں کی طرف سے میمو سکینڈل کی انکوائری کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت شروع کر رکھی ہے۔گوکہ سابق سفیر حسین حقانی نے عجلت میں استعفیٰ دے کر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی اور حکومت نے قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے ذریعے اس معاملے کی اپنے تئیں تحقیق کا بھی آغاز کر رکھا ہے لیکن اب یہ سکینڈل عدالتِ عظمیٰ کے سامنے ہے اور اس کیس کے دوران بڑے بڑے انکشافات ہونے والے ہیں۔

نیٹو کے حملے نے جہاں پاکستان کی خودمختاری اور امریکہ اور اتحادی فوجوں کے خبث باطن سے پردہ چاک کردیا ہے وہاں حکومت کی طرف سے پہلی بار قومی امنگوں کے مطابق مﺅقف اختیار کرنے پر جناب زرداری‘وزیراعظم اور ان کی ٹیم کیخلاف اٹھنے والے سیاسی طوفانوں کو وقتی طور پر روک بھی دیا ہے۔ لیکن قیاس کیا جاتا ہے کہ حکومت بہت دیر تک نیٹو حملہ سے ملنے والے وقتی ریلیف کو انجوائے نہیں کرپائے گی۔23دسمبر تک معاملہ رفع دفع ہوجائے گا اور اتحادی افواج کیساتھ حکومت پھر سے معمول کے تعلقات بحال کرے گی۔شمسی ایئربیس گیارہ تاریخ تک خالی ہوجائے گی۔ملکی سالمیت کی کوئی تحریری یقین دہانی بھی ہوجائے گی اور مسئلہ افغانستان یعنی کابل بعد از امریکہ کے حوالے سے بھی پاکستانی مﺅقف کو کسی حد تک پذیرائی مل جائے گی۔ابامہ بھی مشروط قسم کی ”سوری“ کرلیں گے۔ بہر حال یہ طے ہے کہ دسمبر کی سردیوں میں نیٹو حملہ کے حوالے سے”ناراضگی“ کی آگ بڑی حد تک ٹھنڈی ہوجائے گی۔البتہ میمو کا معاملہ ایسا ہے کہ یہ موسمی اثرات سے متاثر نہیں ہوگا۔جوں جوں سردی بڑھے گی اس معاملہ کو آگ لگے گی اور حکمران قبیلہ کو سخت دباﺅ کا شکار ہونا پڑے گا۔میاںمحمد نوازشریف نے خود سپریم کورٹ کے حضور حاضر ہو کر ایسا سیاسی چھکا مار دیا ہے جس پر عمران خان اور ان کی پارٹی انگشت بدنداں ہے۔ خان صاحب کا سارا زور اب کراچی میں پچیس دسمبر کو اپنے مجوزہ جلسہ کی تعداد بڑھانے پر ہے۔پچیس دسمبر تک حالات کیا رخ اختیار کریں گے اس کا اندازہ شائد کپتان اور ان کی ٹیم کو ہرگز نہیں ہوپارہا۔فرض کیا کہ عدالت اس کیس کی سماعت کے دوران نوازشریف کی درخواست پر صدر پاکستان‘ وزیراعظم پاکستان‘ڈی جی آئی ایس آئی اور حسین حقانی کو حاضر ہونے کا حکم دیتی ہے تو پھر احاطہ عدالت ہی نہیں کمرہ عدالت میں وہ معرکہ آرائیاں شروع ہوں گی کہ عمران خان صاحب کے جلسہ کی اہمیت ایک دن کی شہہ سرخیوں سے زیادہ نہیں رہے گی۔پیپلزپارٹی نے پیش بینی کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کے حوالے سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو خط لکھا تھا۔ عدالت نے صدر کے اس خط کو بہت عزت بخشی اور اس کیس کی سماعت بھی شروع ہوگئی۔گویا ذرائع ابلاغ کا زیادہ وقت جگہ اور سکرین اب عدالت عظمیٰ میں ہونے والی جرح‘سوال‘جواب تبصروں اور تصویروں کیلئے ہی مختص ہوجائے گی اور تحریک انصاف جو لاہور میں بڑا شو کرنے کے بعد سستا رہی ہے اسے مزید سستانا پڑے گا۔چیف جسٹس کے ابتدائی ریمارکس کے مطابق میمو لکھنے کا جرم ”سول اور کریمنل“ دونوں نوعیت کا ہے۔اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ حسین حقانی نے واقعتاً وزیراعظم‘یا صدر کی ہدایت یا خواہش پر ایسا کوئی میمو ڈکٹیٹ کر لیا ہے‘لکھا ہے کہ یا لکھا ہوا بجھوایا ہے یا ایسے کسی میمو کے لکھے جانے کی درپردہ حمایت کی ہے تو پھر آئین میں ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے بڑی سخت سزائیںد رج ہیں۔بہت ممکن ہے اور مخالفین کی کوشش بھی یہی ہوگی کہ قصر صدارت کو اس قدر قاصر کردیا جائے کہ حکومت کے پاس قبل از وقت اقتدار کو خیرباد کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ عدالت کے کسی متوقع فیصلے سے بچنے کا یہی طریقہ ہوگا۔ بہت ممکن ہے کہ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کے ریفرنس کا فیصلہ پیپلزپارٹی کی امنگوں کے مطابق ہوجائے اور میمو کا فیصلہ ان کی امنگوں کے بالکل برعکس ہو۔عدالت کی جانبداری کا ماتم نہیں ہوسکے گا اور اپنی فوج کیخلاف امریکہ کو خط لکھنے کے جرم کے لیبل سے بچنے کیلئے جناب زرداری چپکے سے ایوان صدر سے نکلیں گے اور نوڈیرو ہاﺅس پہنچ جائیں گے۔میمو کے معاملے میں معافی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ غداری کا مقدمہ یا اقتدار سے علیحدگی دونوں سزاﺅں میں سے کسی ایک سزا کا انتخاب کرنا پڑے گا!!

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply