Dec
29
|
Click here to View Printed Statements
میں عمران خان کا حامی تھا اب نہیں رہا۔عمران نے انقلاب کا نعرہ لگایا۔”چور چوروں کا احتساب نہیں کرسکتے“”روایتی سیاست اور گھسے پٹے سیاستدان اس ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے“۔”تحریک انصاف بالکل نئی ٹیم لے کر آئے گی“۔” اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گے“ یہ سیاسی عہد و پیماں تھے جن کے سحر میں میرے جیسے بہت سے محب وطن اسیر ہوئے‘ عمران خان کی صورت میں ہمیں ایک مسیحا نظر آنے لگا۔ میں اور میرے ساتھیوں نے عمران کی ذات سے جڑی بہت سی منفی حقیقتوں‘کہانیوں اور تبصروں کو توجہ نہیں دی اور نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے تبدیلی کے اس نشان کو دل ودماغ میں سجا لیا۔مجھے ذاتی طور پر پہلا دھچکا اس وقت لگا جب عمران خان نے پیپلزپارٹی کی قیادت سے روٹھ کر آنے والے شاہ محمود قریشی کو نہ صرف یہ کہ پارٹی میں شامل کیا بلکہ انہیں وائس چیئرمین بھی بنا ڈالا۔شاہ محمود قریشی جاگیردار ہیں یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک گدی نشین ہیں
اور ہر سال اپنے ہزاروں مریدین کا ذہنی اور مذہبی استحصال کرتے ہیں۔ غریب غرباءسے ہر سال کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں۔ان کی سیاسی اہمیت کی بنیاد بھی موروثیت ہے صرف اس کی شکل پیری مریدی ہے۔ ان کے ووٹروں کا ان سے ایک استحصالی رشتہ ہے۔عمران خان تو علامہ اقبالؒ کے فلسفے کو لیکر چلنے کا دعویٰ کر رہے تھے پھر کیا ہوا کہ عقیدت مندوں سے نیازیں اکٹھی کرنے والے اس قریشی پیر کو اپنی انقلابی جماعت کا وائس چیئرمین مقرر کر لیا۔ اگر شاہ محمود قریشی اور زرداری کے ٹولے کے درمیان ریمنڈ ڈیوس کے ایشو پر اختلاف نہ ہوتا اور اگر جناب گیلانی کی جگہ جناب قریشی کو وزیراعظم کی باری دے دی جاتی تو آج بھی اس شاہ کے منہ سے اپنے بادشاہ کے لئے پھول جھڑ رہے ہوتے اور یہی شاہ محمود قریشی ‘عمران خان اور تحریک انصاف کے کیخلاف شعلے اگل رہے ہوتے۔ذاتی مفادات کے سبب اپنی سابق پارٹی سے روٹھ جانے والے سیاستدان کو عمران خان نے کلین چٹ دے کر اپنے ساتھ شامل کر لیا ۔جعلی ڈگری والوں اور نیب زدگان کی پوری ٹیم اکٹھی کر لی۔ہاشمی سمیت یہ ساری وہ ٹیم ہے جو خود انتہا کی متکبر ہے‘عام آدمی کے ساتھ ہاتھ ملا کر دس بار دھوتے ہیں۔عمران نے اپنے نظریے کے باعث اپنے ساتھ ملنے والوں سے پہلی ناانصافی کی اور یوں یہ سلسلہ ایسا چلا کہ رکنے کا اب نام ہی نہیں لیتا۔سیاستدانوں کا ”دکھی گروپ“ اپنے لئے سکھ ڈھونڈنے تحریک انصاف میں شریک ہوچکا ہے۔عمران خان اس ”فیاضی“ کا جو ا ب دینے کی بجائے ”فرشتے تو ملیں گے نہیں“ کہہ کر نظریاتی کارکنوںکو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اگر آپ کے پاس ”فرشتے“ نہیں تو پھر باقی پارٹیوں کو ”شیطان“ ہونے کے طعنے کیوں دیتے رہے۔عمران خان نے دوسرا بڑا دھچکا ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر دیا۔ہم جب متحدہ قومی موومنٹ کے حق میں لکھ رہے تھے تو عمران کے حامی حلقے ہمیں ایسا کرنے سے روکتے تھے۔عمران خان جناب الطاف حسین کیخلاف لندن میں ثبوت لئے پھرتے رہے۔انہیں ماہ مئی والا خون خرابہ نہیں بھولتا تھا۔ لیکن اچانک ایسا کیا انقلاب آیا کہ ایم۔کیو ۔ایم ایک حقیقت لگنے لگی اور اب وہ نائن زیرو جانے کیلئے بیتاب نظر آتے ہیں۔آخر یہ دوغلا پن اور دھوکہ دہی کس کے حکم پر ہے۔اگر ایم کیو ایم حقیقت ہے جو کہ ہے‘تو پھر (ن) لیگ‘ پی پی پی اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی حقیقتیں ہیں۔ تحریک انصاف نے اگر مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کر نی ہے تو اس ملک کے معصوم نوجوان کب تک ”خان جی“کا جھریوں بھرا چہرہ دیکھتے رہیں گے ۔اورساٹھ سالہ ہیرو کو لوگ کیوں پوجیں گے؟جنون گروپ کب تک نئی نسل کو مجنوں بنائے رکھے گا؟لوگوں کو سب کچھ یاد آرہا ہے۔عمران خان کے اپنے بچے اپنے ننھیال میں پل رہے ہیں۔ ان کے رگ و پے میں یہودی رزق سرایت کر رہا ہے۔ عمران خان کو اسلامی ریاست کا ماڈل بھی انگلینڈ ہی دکھائی دیتا ہے۔ ان کو اچانک امریکی مظالم بھی بھول گئے ہیں۔ان کی حریت فکر کا دائرہ دھیرے دھیرے سمٹتا جارہا ہے۔وہ امریکیوں سے زیادہ اب ان کی مدد کرنے اور انہیں باعزت واپسی کا راستہ دینے کے فارمولے کو پروموٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان نے لاہور میں جلسہ کرنے سے قبل واشنگٹن میں کن کن امو رپر امریکی عہدیداروں کو اعتماد میں لیا کسی کو خبر نہیں۔شاہ محمود قریشی کو بھی امریکہ بلایا گیا تھا۔ پھر معاملات طے پا گئے۔عمران کی تلخ زبان امریکہ کے حق میں شیریں ہوگئی۔عمران یعنی ہمارا خان بھی”حقیقت پسند“ ہوگیا۔یہ جان کر تیسرا بڑا دھچکا لگا کہ تحریک انصاف کی پروجیکشن اور لابنگ کیلئے پاکستان کے سب سے بڑے امریکہ نواز میڈیا گروپ کے ساتھ باقاعدہ ڈیل طے پا گئی ہے۔عمران خان کن ہاتھوں میں پھنستے جارہے ہیں؟ ان کو کس نے یرغمال بنانا شروع کردیا ہے؟ افسوس کہ عمران نے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کے اعتماد اور پیار کیساتھ روایتی کھلواڑ شروع کردیا ہے۔تحریک انصاف معاشرے کو انصاف دینے کی بجائے ناانصافیوں کی آماجگاہ بن گئیہے۔