Jan
05
|
Click here to View Printed Statements
مارتے کیوںہو۔غریبوں کو کیوں مارتے ہو؟۔ ان بے آواز لوگوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔کون سی بغاوت کی ہے۔کب آپ کے گریبان چاک کئے ہیں۔انہیں بھوک ستاتی ہے تو رو لیتے ہیں۔آپ کو کبھی نہیں ستاتے۔مرنے پر تیار رہتے ہیں۔اجتماعی خودکشیاں کر لیتے ہیں۔ خودسوزیاں کرتے ہیں۔کسی اور ملک کے غرباءنے کبھی ایسا شریفانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ باقی دنیا کے غریب ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔تخت و تاراج کو اچھالتے رہتے ہیں۔میرے وطن کے افلاک زدگان تو پتھر بھی ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔
ایک دوسرے کا راستہ روک لیتے ہیں۔ایک دوسرے سے الجھ کر وقت کو دھکا دیتے رہتے ہیں۔یہ تو وہ لوگ ہیں جو صرف یہ چاہتے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے۔جوتے کھانے سے انہیں کبھی انکار کی جرات نہیں ہوئی۔اگر مصر جیسا ملک ہوتا تو تحریراسکوائر پر پڑاﺅ ڈالتے اور کسی صدر کو مسند اقتدار سے گھسیٹ کر سکون لیتے۔شام کی گلیوں میں خون بہا دیتے اور تہران کے شاہ کو دربدر کر دیتے۔لیکن یہ تو بیچارے اسقدر جمہوریت پسند ہیں کہ جمہوری دیوتاﺅں کو پوچتے رہتے ہیں۔اہل اقتدار کے ”واری وٹے“ اور ”وٹے سٹے“ کے کھیل میں زرخرید غلاموں کی طرح مشقت کاٹتے ہیں۔سرکس کے سدھائے ہوئے جانوروں کی طرح قطاروں میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں پرچیاں تھامے دھوپ اور سردی میں دل میں کسی نئے وزیراعظم کی تصویر سجائے”ٹکاٹک“ ووٹ ڈالتے جاتے ہیں۔قطاروں کے عادی ہوگئے ہیں۔بجلی نہیں لیکن بل دینے کے لئے پورا پورا دن قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان کا سارا غصہ قطار توڑنے والے پر اترتا ہے۔انہوںنے کبھی نہیں سوچا کہ بل کی رقم حاصل کرنا خود واپڈا والوں کی ضرورت ہے‘لیکن یہ کیسے شریف عوام ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس جرمانہ نما بل کو حاصل کرنے کے لئے ادارے ان کی دہلیز پر جائیں اور خوشامد کرکے رقم حاصل کریں‘الٹا بیچارے یہ صارفین جو کہ صارف کم اور مصروف زیادہ ہیں۔ بل ہاتھوں میں تھامے بینک والوں کی منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ خدارا جلد از جلد یہ جرمانہ وصول کر لیں کہ کہیں دیر ہوجانے سے مزید جرمانے نہ پڑ جائیں!کبھی صرف بل ادائیگیوں کے لئے لائن میں کھڑا کیا جاتا تھا۔پھر حکمران طبقے نے عوام کی بے بسی کو مزید ”انجوائے“ کرنے کے لئے اب گیس اور پٹرول کے حصول کے لئے بھی انہیں قطاروں میں کھڑا کرنے کی راہ نکالی۔گیس نہیں ہے لیکن میلوں لمبی قطاریںصبح سے شام تک۔ اب کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ گیس مہنگی کیوں کی‘گیس کہاں چھپا دی گئی‘ سی این جی کو کس کا پیٹ بھرنے کے لئے سٹور کر لیا گیا۔عوام کو یہ سوچنے کی جرات ہی کہاں ہے۔ وہ تو اب اس مہنگی گیس کے لئے صرف قطاروں میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ ان کا سارا زور اس پر ہے کہ کوئی قطار نہ توڑ دے۔توانائی کا بحران کیسے پیدا کیا جاتا ہے‘ اس فن میں ہمارے حکمران مافیا کے ماہرین کمال مہارت رکھتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جو اقتدار میں ہیں وہ سی این جی اور گیس کے مسئلہ کو مسئلہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔جو باہر بیٹھے ہیں ان کا عوام سے وعدہ ہے کہ جب وہ اقتدار میںآئیں گے تو یہ مسئلہ چٹکی بجا کر حل کردیں گے۔ اقتدار سے دور ہر سیاسی گروہ اور لیڈر کے پاس توانائی بحران کا ایک حل ہے‘فارمولا ہے لیکن انہوں نے یہ فارمولے ابھی چھپا کر رکھ لئے ہیں۔ ڈار صاحب کے پاس بھی فارمولا ہے‘عمران خان کے پاس بھی ایک گیدڑسنگھی ہے‘حد یہ کہ جناب سید منور حسن صاحب کے پاس بھی کلید ہے۔لیکن یہ سب ”راز“ ہے۔انہیں اقتدار میں آنے دیں پھر وہ یہ فارمولہ‘یہ گیدڑ سنگھی‘ یہ کلید کام میں لائیں گے اور ”کھل جا سم سم“ ہر طرف گیس ہی گیس ہوگی‘بجلی ہوگی لیکن لینے والے نہیں ہوں گے۔پٹرول تو درختوں سے نچڑے گا۔ یہ ملک ان کے دور اقتدار میں ایشیائی ٹائیگر بن جائے گا۔عوام پھر تیار ہیں۔طبقہ اشرافیہ کے دوسرے گروہ کو باری دینے کےلئے اپنے کندھے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔سڑکیں بلاک کردی ہیں۔اپنے جیسے مڈل کلاسیوں کی گاڑیاں جلائی جارہی ہیں۔کوئی نہیں سوچتا کہ انہی شہروں میں سارے ایم۔ این۔ اے‘ وزیر‘وزیراعظم اور صدر ۔سب کے گھر ہیں۔ان گھروں کا گھیراﺅ کوئی نہیں کرے گا۔کیونکہ اس ملک کے عوام سات ارب انسانوں میں سب سے انوکھے لوگ ہیں۔یہ ہر دکھ اور ہر غم کے علاج کے طور پر اپنے وجود کو جلا کر ‘ اپنے گلے میں پھندے ڈال کر اپنی راہوں کو بند کرکے مطمن ہوتے ہیں۔قصر شاہی کی طرف بڑھنا ان کی ترجیحات میں آتا ہی نہیں!ایسے لوگوں کو کیوں مارتے ہو۔فوج کی طرف دیکھنا گناہ کبیر قرار دیاجاچکا ہے۔شائد فوج والوں کو بھی عوام کے حالات سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہ صرف حسرت بھری نگاہوں سے آپ کی طرف ۔اے اہل جمہوریت صرف آپ کی طرف۔ دیکھتے ہیں۔انہیں اپنی طرف دیکھنے پر اس قدر مارتے کیوں ہو؟