Jan
07
|
Click here to View Printed Statements
علم نہیں کہ اب کی بار پیپلزپارٹی کو مظلوم بننے کا موقع ملتا ہے یا نہیں لیکن خلق خدا کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے”زرداری کب جارہا ہے“۔نااہلیوں اور بدنیتوں سے بوجھل ملکی فضاءمیں پروان چڑھنے والے عوامی غیض و غضب نے انڈے بچے دینے شروع کردیئے ہیں۔اگر ”سٹیٹس کو“ کا مخالف کوئی حقیقی عوامی لیڈر ہوتا تو وہ بیروزگاروں کی فوج کی کمان سنبھال لیتا ۔کراچی سے پشاور تک ہر چوک چوراہے پر اس کا پرہجوم استقبال ہوتا۔لیکن بظاہر وہ تمام لیڈرجو انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں
حقیقت میں وہ بھی اس گلے سڑے نظام کے محافظ ہیں اور کوئی ایسا انقلاب برپا نہیں ہونے دینا چاہتے جس سے اس ملک کا غریب امیر ہوجائے اور امیر تر ہوتا اشرافیہ فٹ پاتھوں پر آجائے۔انقلاب کا نعرہ لگانا آسان اور اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔میرے جاننے والے حکمران جماعت کے ایک ایم این اے نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خدا کا شکر ہے کہ یہ ڈنڈا بردار مظاہرین ہمارے گھروں میں نہیں گھس رہے ورنہ ایسی تباہی آئے گی کہ فوج بھی ہمیں ان بھوکوں سے نہیں بچا سکے گی۔میں نے پوچھاجناب کی سیاسی بصیرت اب کیا کہتی ہے‘کہنے لگے کہ سچ یہ ہے کہ ہمیں اب انتخابات کا بگل بجا دینا چاہیے ورنہ عوام ہمارا باجا بجا دیں گے۔وزیراعظم گیلانی کا کمال یہ ہے کہ وہ ”جمہوری دکانداری“ بند نہیں ہونے دینا چاہتے۔انہیں ہر طرف اچھا ہی اچھا دکھائی دے رہا ہے۔انہوںنے عوامی غصے کو بھی جمہوری مخالف قوتوں کی کارستانی قرار دے کر آنکھیں موند لی ہیں۔پنجاب کی پارٹی کو انہوں نے ایک بہت بڑی ریلی کرنے کا ٹارگٹ دیا ہے۔جناب گیلانی نے پنجاب کے عہدیداروں کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسنس دینے کا لالچ دیا ہے اور ایم۔این ۔اے کے ترقیاتی فنڈز سے بھی حصہ دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ ان انعامات اور نوازشات کے عوض پارٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عمران خان اور نوازشریف کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے لاہور میں ایک بہت بڑا شو کریں۔جناب آصف علی زرداری مرد بحران ہونے کے باوجود بحرانوں پر قابو نہیں پاسکے اور اپنے اردگرد ان لوگوں کو جمع کر لیا ہے جن کی وجہ شہرت صرف اور صرف کرپشن رہی ہے۔پیپلزپارٹی کے دامن میں جیالے تو بہت ہیں لیکن اہل اور ایماندار لوگوں کی شائد نسل ختم ہوگئی ہے۔بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ گیلانی حکومت کسی کو عہدہ بخشنے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لیتی ہے کہ عہدے پر براجمان کئے جانے والے شخص پر کم از کم ایمانداری کا کوئی الزام نہ آتا ہو۔ اس احتیاط کا نتیجہ نکلنا شروع ہوگیا ہے۔بجلی‘ گیس اور پٹرول کے بحران سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔وقتی طور پر جھک جانے سے شائد حکومت کو سکھ کے کچھ سانس میسر آجائیں لیکن مستقل حل کوئی نہیں۔کوئی ایک وزیر‘کوئی مشیر‘خود وزیراعظم بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ لوگوں کا اعتمادبحال کرسکیں۔توانائی کی ترسیل اور طریقہ تقسیم کے جائزہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقفے وقفے سے عوام سڑکوں پر آتے رہیں گے اور اگر تھک ہا رکر لوگ بیٹھ بھی گئے تو بھی ہر زبان سے بددعائیں ہی نکلیں گی‘ہمدردی کے دوبول۔خواب ہی رہیں گے ۔چاہے آئندہ الیکشن میں بلال بھٹو اور آصفہ بھٹو ماتمی لباس پہن کر اپنی شہید ماںاور نانا کے نام پر ووٹ کیلئے منتیں ہی کیوں نہ کریں‘غیرجانبدار حلقے اس خیال کے حامی ہیںکہ عوام کی اکثریت اب اس عفریت زدہ ماحول کو پھر سے قابض نہیں ہونے دے گی۔البتہ پروپیگنڈا اپنی طاقت رکھتا ہے اور ہونی انہونی ہوسکتی ہے!جناب زرداری کہاں کہاں سے بچیں گے۔ایک بار گھبرا کر دبئی چلے گئے تھے۔اب کی بار گئے تو شائد واپس نہ آسکیں اورنہ گئے تو شائد برسوں جانہ سکیں۔میمو کیس کسی نہ کسی کے گلے میں حمائل ہونے والا ہے اور حکومت اپنی ہی فوج کے خلاف کوئی واردات کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے تاکہ مظلوم بن سکے۔”مظلومیت“ کا سیاسی ڈرامہ لکھا جارہا ہے۔کردار ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اس مشن پر کمر بستہ ہو چکی ہیں۔لیکن کیا کیا جائے کہ اب کی بار عدالت انصاف کا ترازو پوری قوت سے تھامے ہوئے ہے ‘نہ مارشل لاءلگے گا نہ میمو ٹلے گا۔ سوئس بینک کے حکام کو خط لکھا تو بھی کرپشن ثابت ہوجائے گی نہ لکھا تو بھی چوری ثابت ہوجائے گی۔گھیرا تنگ ہورہا ہے اور فرار کی راہیںمسدود!