Feb
08
|
Click here to View Printed Statements
افسوس صد افسوس! محراب و منبرنے اخلاق سنوارنے کے عظیم مقصد کو پورا کرنا تھا وہ اقتدار کی سیاست گریوں میں ایسے الجھے کہ اپنے فرض کو بھی بھول گئے۔ وہاں اب خوئے دلنوازی کے پھول نہیں نفرت اور حقارت کے کانٹے اگتے ہیں۔ جبہ و دستار جسے اقوال حسنہ کا محافظ بننا تھا وہ فرقہ واریت اور خود نمائی کے نشان بن گئے۔ خانقاہیں اہل نظر سے خالی ہوئیں اور ہوس پرست بہروپیوں نے مسندِارشاد پر قبضہ جمالیا۔مذہبی جماعتیں مذہبی سے سیاسی بنیں اور قوم کے اخلاق و اقدار کو مادر پدر آزاد خیال درندوں کے حوالے کردیا جنہوں نے دانشوری‘آرٹ ‘گلیمر اور شوبز کے پردے میں امت رسول ہاشمی کے دل و دماغ کو جاہلانہ اور حیواناتی خیالات سے داغ دار کردیا ہے
۔شرفِ انسانی کی ساری حدیں توڑ دی ہیں اور ہمارے اسلامی معاشرتی نظام کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔سیاست ہی سیاست‘اقتدار کی جنگ‘سیٹوں کی بندربانٹ‘ریفارمر کوئی نہیں‘سب لیڈر ہی لیڈر۔باریش اور بے ریش سب ایک ہوئے۔ قد آدم تصاویر سے شہر و بیابان سجا دیئے گئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے دل میں اخلاقی قدریں اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فحاشی و عریانی۔ اگر کسی نوجوان کے سامنے اس لفظ کودہرائیں تو وہ کہے گا چھوڑیں جی یہ مولویوں والی باتیں نہ کریں۔ اب دور بدل گیا۔ اب آگے چلیں !کبھی جماعت اسلامی انسداد فحاشی مہم چلایا کرتی تھی اب وہ بھی روشن خیال نوسربازوں کے پروپیگنڈہ سے دبک کر بیٹھ گئی ہے۔ اب کوئی ہے ہی نہیں جو ٹی وی سکرین‘ کمپیوٹرسکرین‘ موبائیل سکرین اور سائن بورڈ کے ذریعے اس قوم کو اخلاق باختگی کی دلدل میں دھکیلنے والے نفسیاتی مجرموں کو نکیل ڈال سکے۔ ان کے قلم اور کیمرے توڑ سکے اور لوگوں کو آگاہ کرسکے کہ انہوںنے کس طرح اپنے بچوں کوجنسی نظریات سے محفوظ رکھنا ہے۔انہیں کون بتائے کہ نعرے لگانے سے نہیں بلکہ ملک میں بسنے والوں کی تعمیر اور تربیت سے قومیں ترقی پاتی ہیں۔ تعمیر معاشرہ تعمیر افراد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جب میڈیا پوری طرح افراد کی تخریب اور بربادی پر جتا ہوا ہے تو پھر آپ کے اقتدار میں آجانے سے کون سا انقلاب آجائے گا۔ میڈیا صرف نیوز چینلز اور اخبارات کا نام نہیں سب سے موثر میڈیا وہ ہے جو شام ڈھلتے ڈرامے کے نام پر ہمارے گھروں میں گھس آتا ہے۔ سماجی مسائل‘مرد اور عورت کے تعلقات اور بچوں اور والدین کے درمیان روابطہ۔ بظاہر ان موضوعات پر بننے والے ان ڈراموں کے ذریعے ہمارے ذہنوں میں کیا ڈالا جارہا ہے۔ ایک شوہر جانتا ہے کہ اس کی بیوی کے کسی آشنا کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ وہ بیوی کو سمجھاتا ہے لیکن اس کی بیوی ان ناجائز تعلقات کو ختم نہیں کرتی۔شوہر یہ سب کچھ برداشت کرتا رہتا ہے پھر کسی ایک واقعہ سے بیوی کا دماغ تبدیل ہوتا ہے اور وہ پھر سے اپنے شوہر کی وفادار ہوجاتی ہے اور یوں شوہر اور بیوی ہنسی خوشی رہنا شروع کردیتے ہیں۔ معصوم ذہنوں میں سوال اٹھتا ہے کہ ایسے جوڑے کے ہاں ہونے والے بچے کا اصلی باپ کون ہے؟ میں یہ فرضی بات نہیں بتا رہا۔ ایک ٹی وی چینل پر چلنے والے انتہائی ہائی فائی کلچر ڈرامے کی کہانی ہے۔ بتائیں اس ڈرامے کو کس نے اور کیوں سنسر نہیں کیا۔ کیا ہمارے کسی گھر میں کوئی شوہر یہ برداشت کرتا ہے؟۔ اسی طرح ایک اور ڈرامے کی کہانی ہے کہ ایک بیوی یہ جانتے ہوئے کہ اس کے شوہر کے دوسری عورت کے ساتھ ناجائز مراسم ہیں کوئی احتجاج نہیں کرتی بلکہ ردعمل کے طور پر خود بھی آوارہ ہوجاتی ہے۔اور چار پانچ برس کے بعد پھر وہ ہنسی خوشی رہنا شروع کردیتے ہیں۔کس طرح ناپاک رشتوں کو عام سی بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دوسری جانب عورت کے حقوق کے نام پر معمولی سا اختلاف ہونے پر لڑکی طلاق لے لیتی ہے۔ اور ہمارے ڈراموں نے طلاق کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ثابت کردیا ہے۔ اس کو رکھو یا پھاڑ دو۔ ایسے ایسے ڈرامے چل رہے ہیں جن میں ہیرو بڑے اسٹائل سے شراب پی رہا ہے اور شراب کی بوتل‘ اس پر لگے لیبل کو کیمرہ فوکس کرکے دکھاتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب ہمارے ڈراموں کے ذریعے شراب کی مارکیٹنگ بھی جاری ہے۔ کہاں پاکستانی ڈراموں میں سگریٹ پینے کے مناظر دکھائے جانے پر پابندی تھی کہاں اب شراب کا نشنہ چڑھایا جارہا ہے۔انٹرنیٹ کے ننگے پن کو کیا روکیں گے‘ ہم تو ریاست کے زیر کنٹرول ان شوبز چینلز کو لگام نہیں دے سکتے۔ کوئی پریشر گروپ‘کوئی آواز کوئی مصلح آگے بڑھے اور سماج کو ذہنی اور قلبی طورپر دیوالیہ ہونے سے بچالے! علمائے کرام اور مذہبی رہنماﺅں کو اپنے حقیقی منصب کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمارے پیارے نبی نے ارشاد فرمایا کہ ”مجھے اخلاق سنوارنے کے لئے بھیجا گیا ہے“۔مصلحین کہاں کھو گئے قوم کے اخلاق و اقدار پر حملہ ہوچکا ہے!