Feb 09

Click here to View Printed Statements

مضبوط خاندان ہی مضبوط معاشرے کا ضامن ہوتا ہے ۔یورپی تہذیب کو سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندانی نظام کے معدوم ہوجانے کا ہی ہے۔ امریکی اور برطانوی دانشوروں نے اسلامی تہذیب میں خاندان کے تصور اور تصویر کو ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھا اور کوشش کی کہ اپنے ہاں مقیم مسلمانوں کے ذریعے اپنے شہریوں کے اندر بھی اس نظام کی ترویج کرسکیں۔ برطانیہ میں پہلی مسلمان خاتون وزیر محترمہ سعیدہ وارثی جب اپنے عہدے پر فائز ہوئیں تو ان کی پارٹی کے رہبر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں

کہ برطانوی شہری سعیدہ وارثی کے ذریعے اسلام کے خاندانی کو اپنالیں۔محترمہ سعید وارثی نے حال ہی میں ایک پاکستانی ٹی وی چینل کو تفصیلی انٹرویو دیا۔ سوال تھا کہ آپ برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستانی لباس پہنتی ہیں‘اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہیں اور شعائرا سلام کی پابندی کرتی ہیں آپ کو عجیب نہیں لگتا؟۔ویسے تو اس سوال کے پیچھے ہی مغرب زدہ ذہنیت کار فرما ہے۔لیکن سعیدہ وارثی نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بتایا کہ انہیں پاکستانی ہونے‘ مسلمان ہونے اور خاندان سے جڑے رہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ان کی قریبی برطانوی خواتین نے بھی باپردہ لباس پہننا شروع کردیا ہے۔سابق صدر بش سمیت متعدد امریکی صدور نے جب بھی ماہ صیام اور افطار کے حوالے سے مسلمان کمیونٹی کی طرف سے منعقدہ پروگراموں میں شرکت کی تو ان کی تقاریر میں اہم نکتہ اسلام کے شاندار خاندانی نظام کی تعریف تھا۔حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں اس خاندانی نظام کے تاروپود بکھیرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں اور ان کی کوششوں میں اس وقت سرکاری ٹیلی ویژن کے بھی کئی ڈرامے اور پروگرام شامل ہیں۔جہاں تک پرائیویٹ ٹی وی شوز اور ڈراموں کا تعلق ہے تو یوں لگتا ہے کہ ان چینلز کے مالکان نے طے کر لیا ہے کہ اس قوم کو ہر حال میں اپنے خاندان سے بیزار کرنا ہے‘طلاق کو معمول کا کام ثابت کرنا ہے اور میاں بیوی کے مقدس رشتے کی اہمیت ختم کرکے ناپاک اور ناجائز رشتوں کو پرکشش بنانا ہے۔ایسے تمام ڈرامہ نگار‘ہدایت کار‘اداکار اور اشتہاری گروہ جو اسلام کے دیئے ہوئے مقدس رشتوں کی توہین کر رہے ہیں یہ یا تو کسی اسلام دشمن لابی کے پالتو کتے ہیں یا ان کی ولدیت مشکوک ہے۔ یہ ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں وہ زہر گھول رہے ہیں جو صرف کسی دشمن کی چال ہوسکتی ہے کوئی اپنا خیرخواہ‘انسانیت دوست‘روشن سوچ رکھنے والا ایسے بے ہودہ مناظر‘ایسے لچر جملے اور ایسے قاتل نظریات کو فروغ نہیں دے سکتا جن سے خاندان بکھرجائیں‘اولاد کے اندر والدین کے خلاف بغاوت پیدا ہوجائے اورمیاں بیوی ہوتے ہوئے کسی اور مرد اور عورت کے ساتھ آفیئرز کو معمولی سا معاملہ سمجھا جاسکے!یوں تو اس ملک میں وزیراعظم سے لیکر پی ٹی وی کے ایم ڈی تک ہر کوئی نظریہ پاکستان کے تحفظ کی رٹ لگا رہا ہے لیکن حقیقت میں نظریہ پاکستان کی جڑیں کاٹی جارہی ہیں۔ ”گڈمیڈیا سوسائٹی“ کے صدر اور ہمعصر کالم نگار بیگ راج نے مجھے بتایا کہ ان کی سوسائٹی نے پاکستانی چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں اور بھارتی چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے درمیان مماثلت کے حوالے سے گھریلو خواتین سے ایک سوالنامہ پر کروایا ہے۔ لیکن اس سروے کے نتائج اس لئے روک لئے کہ پاکستانی خواتین کی ایک کثیر تعداد اب پاکستانی ڈراموں کی بجائے انڈین ڈرامے دیکھ رہی ہے۔ اور اس تبدیلی کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بھارتی ڈرامے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا ممکن ہورہا ہے لیکن پاکستانی ڈراموں میں ایسے مناظر جملے اور کہانی ہوتی ہے کہ بیٹی‘ بہو‘ یا بیٹے کی موجودگی میں انہیں دیکھنا محال ہوجاتا ہے اور بار بار چینل تبدیل کرنا پڑتا ہے۔پیمرا کہاں ہے؟ کیا پیمرا کی ذمہ داری صرف نیو زچینلز کو حکومت کے حق میں رام کرنے کے لئے ان کی مشکیں کسنا ہے؟ ہمارے سماجی اثاثوں اور مقدس رشتوں پر حملہ آور ہونے والے میڈیائی ڈاکوﺅں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔میں والدین سے اور گھر کے سربراہ خواہ مرد ہے یا عورت سے دست بستہ التماس کروں گا کہ خدارا اپنے بچوں کو ڈراموں اور شوز کی شکل میں ہونے والی دماغی جارحیت اور نظریاتی یلغار سے کسی نہ کسی طرح محفوظ کر و۔آنے والی نسلوں کو بے اعتبار ہونے سے بچالو۔ اپنے گھر کی حفاظت کرو! قرآن کا حکم ہے۔”اللہ تم کو حکم کرتا ہے عدل‘احسان اور قرابت داروں سے حسن سلوک کا اور منع کرتا ہے تم کو فحاشی ‘منکرات اور سرکشی سے“۔

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply