Feb 21

Click here to View Printed Statements

جب سے امریکی کانگریس کی کمیٹی میں بلوچستان کے اندر انسانی حقوق پر ”تشویش“ بھری بحث ہوئی ہے پاکستان کے محب وطن حلقوں میں ایک سراسمیگی سی پھیل گئی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے ڈسے ہوئے پاکستانی خوفزدہ ہیںکہ پاکستان کے سقوط کی اب ایک اور عالمی سازش ترتیب پا رہی ہے اور اب کی بار شائد اس گھناﺅنی سازش کا مرکز و محور ماسکو کی بجائے واشنگٹن ہے۔امریکی کانگریس کمیٹی میں پاکستان کے کسی علاقے کے بارے میں باقاعدہ بحث ہونا اس لحاظ سے شرمناک ہے

کہ ہماری وزارت خارجہ اور اس کے ماتحت سفارتکار اسے رکوانے میں بری طرح ناکام ہوئے لیکن اس ناکامی کے پیچھے سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ‘ اس کے نتیجے میں سڑک کے ذریعے تاحال نیٹو سپلائی کی بندش پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کا پارلیمانی کمیٹی کو اختیار دینا اور امریکی ”جاسوسوں“ کو واپس بھجوانے کا ردعمل بھی ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ وہاں بھارتی لابی امریکی کانگریس میں پوری طرح نفوذ کر گئی ہے آدھا سچ ہے۔آج کل بھارت اور امریکہ کی گاڑھی چھنتی ہے اور ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح کے تعلقات کا نقشہ بنا رہے ہیں۔پاکستان ایران سے گیس لینے پر بضد ہے جبکہ بھارت نے ایران سے تیل میں کمی کوسعودی عرب کے ذریعے پورا کر لیا ہے اور امریکہ کو خوش رکھا ہے۔عالمی سیاست میں ہم اب امریکی بلاک سے دور ہٹ رہے ہیں اور ایسے عالم میں امریکہ والے ہماری بلائیں نہیں لیں گے اور شائد اسی دوری میں ہی ہمارا بھی فائدہ ہے۔مجھے یقین ہے کہ امریکیوں نے بلوچستان کو ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ اس اشو کے ذریعے پاکستان کے بازو مروڑنے کی حکمت عملی بھی طے کر لی ہوگی۔یہ ممکن ہے کہ یہ اشو سرکتا ہوا اقوام متحدہ تک بھی پہنچ جائے۔کیا اس تمام ممکنہ سنگین صورتحال کے سبب بلوچستان پاکستان سے الگ ہوجائے گا؟ میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ بلوچستان کا پاکستان سے الگ ہونا سیاسی‘ جغرافیائی اورآبادی کے لحاظ سے ناممکن بلکہ مکمل طور پر ناممکن ہے۔ آج کے پاکستان اور ستر کی دھائی والے مارشلائی ملک میں زمین آسمان کا فرق ہے۔”امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے ورنہ ہم امریکی معاملات میں مداخلت کریں گے“ ۔دفتر خارجہ کی طرف سے اس مفہوم کے بیانات کا تصور ماضی میں کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ حکومت کی ناکامیاں اپنی جگہ لیکن پاکستانی ریاست پے در پے ناکامیوں سے نکلتے‘بچتے بچاتے بڑی حد تک اس خطے کا ایک طاقتور ملک بن چکی ہے۔عوامی شعور کی سطح‘مضبوط سول سوسائٹی‘سن بلوغت کو چھوتی ہوئی سیاسی جماعتیں اور خود احتسابی کے عمل پر آمادہ ہوجانے والے آزاد میڈیا اور مضبوط اعصاب کی حامل عدلیہ کے ہوتے ہوئے کسی ”انہونی“ کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔مٹھی بھر بلوچ ایسے ہیں جو غیر ملکی آقاﺅں کی طرف سے ملنے والے وظیفے‘بارود اور خیالات سے مسلح ہو کر ”آزادی“ کے نعرے لگاتے ہیں۔بنگلہ دیش میں عوام کی اکثریت نے شیخ مجیب الرحمن کو ووٹ دیئے تھے لیکن بلوچستان کی کثیر تعداد نے علیحدگی کی بات کرنے والوں کو رد کردیا ہے۔ کئی بار رد کیا ہے اور بری طرح شکست دی ہے۔ تجزیہ نگار”بلوچستان جارہا ہے“ کے حق میں دلائل دیتے وقت آبادی کی اکثریت کو کیوں نظرانداز کردیتے ہیں۔اصل توجہ جس پہلو پر مرکوز کرنی چاہیے تھی وہ آرمی چیف جناب اشفاق پرویز کیانی کے ”تنگ آمد بجنگ آمد“ والے انکشافات ہیں۔ ہم نے فیشن بنا لیا ہے کہ اپنی ہر ناکامی کو فوج کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔دشمن تو فوج کو گالی دیتا ہی رہے گا دوستوں کو کیا ہوگا۔کیا ”ویلنٹائن ڈے“ کی طرح یہ بھی کوئی سپانسرڈ فیشن ہے جسے ہمارے نام نہاد ”لبرل“ اور ”موڈریٹ“ لوگوں نے ہرحال میں اپنانا ہے۔ جن ”آزادی پسندوں“ کو سنٹرل ایشیاءسے اسلحہ آرہا ہے‘ افغانستان کی سرزمین سے بھارتی آشیرآباد مل رہی ہے اور وہ اس ملک کو کچوکے لگانے کی جسارت کر رہے ہیں انہیں محض”احساس محرومی“ کی گنجائش دے کر قابل معافی سمجھنا اور ”مظلوم“ سمجھنا زمینی حقائق کو جھٹلانے کے سوا کچھ نہیں۔اگر آپ اتنے ہی ان کے خیرخواہ ہیں تو ان کرائے کے آزادی پسندوں کو مشورہ دیں کہ کم از کم اپنے لوگوں پر ہی ہتھیار نہ اٹھائیں۔ بلوچستان تو کہیں نہیں جارہا البتہ یہ لوگ وہ اپنے فرار کی تیاری کرلیں کہ امریکہ ان کی مدد کو نہیں پہنچے گا اور بھارت کو ”آزاد بلوچستان“ سے پہلے کشمیر سمیت سات ”آزاد ریاستیں“ بنانا ہوں گی۔

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply