Mar
06
|
Click here to View Printed Statements
اندازہ تھا کہ امریکی یہی کریں گے۔پاکستان کو ”باغیانہ“سوچ کی سزا ضرور دیں گے۔ جوں جوں پاکستان اقتصادی میدان میں ایران کے قریب ہورہا ہے۔امریکی غصے میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکی قیادت اہل پاکستان کو سنگین نتائج سے آگاہ کر رہی ہے۔لیکن یہ آگاہی زبانی سے کہیں آگے چلی گئی ہے۔ پاکستان کو معاشی خودمختاری کے خواب دیکھنے پر اندرونی خلفشار کا شکار کرنے کے منصوبے پر بڑی تیز رفتاری کے ساتھ عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا کہ ہے امریکیوں نے پاکستان کے اندر اپنے سدھائے ہوئے کتوں کے پٹے کھول دیئے ہیں اور وہ پورے ملک میں پھیل کر انسانوں کو کاٹ رہے ہیں۔بلوچستان کو باقی صوبوں نے اپنے حصے کے وسائل قربان کرکے آبادی کے مطابق بننے والے حصے سے دوگنا حصہ دے دیا ہے ۔آغاز حقوق بلوچستان کے سلسلے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں پر قائم مقدمات پر بھی ختم کردیئے ہیں‘لیکن ”آزادی“ کے نام پر متحرک غارت گراب قوم پرست قیادتوں کے کنٹرول میں بھی نہیں ہیں۔ ان کی ڈوریاں اور رسیاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔بلوچستان کے اندر ایف سی اہلکاروں ‘پنجابیوں‘پٹھانوں ‘سندھیوں اور پختونوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ بوری بند لاشیں روز گرتی ہیں اور حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ان لاشوں میں اکثریت ان بلوچوں کی ہے جو محب وطن ہیں۔ لیکن اس خون ناحق کا ملبہ بھی فوج پر ڈالا جارہا ہے۔ قرائن یہی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے والے شرپسند کسی کے کہنے سننے میں نہیں ہیں۔ ہدف یہ کہ حالات اس قدر مخدوش ہوجائیں کہ پاکستان ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن کو بلوچستان سے گزار ہی نہ سکے۔جند اللہ نام کی تنظیم بھی متحرک ہوگئی ہے۔ کوہستان میں جس طرح بسوں سے اتار کر ایک مسلک کے لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا ہے۔ اس کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ یہی کہ شیعہ سنی فسادات کا ایک سلسلہ شروع کردیا جائے اور اس کا دائرہ کار اس قدر پھیلا دیا جائے کہ گلگت بلتستان سے گزر کر چین داخل ہونے والی شاہراہ قراقرم بند ہوجائے۔ جب سے چین نے پاکستانی تاجروں کو پاکستانی کرنسی میں تجارت کرنے کی سہولت دی ہے تب سے سنکیانگ صوبے کو ملانے والے علاقوں میں گڑبڑ کا منصوبہ بنا دیا گیا ہے۔حالیہ کشیدگی امریکی ایجنٹوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔چین کو جھٹکا دینے اور پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے کا پھر سے سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں چین کی ایک خاتون کو ”طالبان“ کے ایک گروہ نے قتل کردیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی سنکیانگ صوبہ میں مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے کی گئی چینی کارکنوں اور انجینئرز پر پہلے بھی بہت حملے کروائے گئے۔ اب بھی بہت سے پراجیکٹس ایسے ہیں جو ادھورے پڑے ہیں کیونکہ چینی لوگوں کی جان کو ہروقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔ بہرحال ”طالبان“ کے برانڈ نیم کے تحت ایسے گروہ پھر سے متحرک کرا دیئے گئے ہیں تاکہ پاک ایران گیس منصوبے کے حوالے سے چین پاکستان کی حمایت سے باز آجائے۔امریکیوں نے کراچی کے حالات بگڑانے کا بھی یقیناً کوئی خوفناک منصوبہ بنا رکھا ہے۔ وقتی خاموشی کے پیچھے کوئی طوفان ضرور چھپا ہے۔ پاکستان پر امریکی دباﺅ کونسی خطرناک حدوں کو چھوئے گا‘آنے والے چار پانچ مہینوں میں واضح ہوجائے گا۔ پاکستان بیرونی دباﺅ کو اسی صورت برداشت کرسکے گا۔ اگر اندرونی صورتحال کو قابو رکھ سکے۔ یوں تو اپنا پیارا وطن اپنی پیدائش سے ہی خطرناک صورتحال میں گھیرا ہوا ہے لیکن اب جبکہ امریکی دباﺅ مسترد کرکے تاریخ میں شائد پہلی بار اپنی خارجی اور اقتصادی ترجیحات خود طے کرنے کا فیصلہ کر رہا ہے تو ملک میں موجود بلیک واٹرز اور مختلف روپ دھارے اس کے نیٹ ورکس ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تل گئے ہیں۔ کیا ہماری قومی قیادتیں اس دوہری جنگ کو لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جوہر پاکستانی کو پریشان کر رہا ہے۔ مقتدر طبقہ کی پرتعیش زندگی اور عوام کی بدترحالت۔ ہمارے حکمران ایران سے توانائی کے خواہاں ہیں۔کاش کہ یہ ایرانی قیادت کے کردار کی توانائی سے بھی مستفید ہوسکیں اور ان جیسی سادہ زندگیاں گذارنے کے عادی ہوجائیں تاکہ امریکہ دھمکانہ سکے اور قوم اپنے حکمران کےساتھ یکجان دو قالب ہو کر امریکی ایجنٹوں کو منہ توڑ جواب دے سکے۔