Apr 26

Click here to View Printed Statements

پی پی پی سندھ کے معتوب رہنما ڈاکٹر ذوالفقار  مرزا نے قرآن کی قسم کھائی اور بار بار کہا کہ رحمن ملک سب سے بڑا جھوٹا ہے۔ وزیر داخلہ  کی دروغ گوئی کے بارے میں بلوچ رہنمائوں نے بھی بار بار شکایتیں کی ہیں۔کراچی والوں نے بھی ناراضگی اور غصے کے عالم میں وزیر داخلہ کو کئی بار جھوٹا ثابت کیا ہے۔اے این پی کے رہنمائوں نے بھی ایسے ہی القابات سے نوازا ہے۔ خدا جانے جناب رحمن ملک کے پاس کونسا جن ہے کہ وہ ہر واقعہ’ ہر حادثہ کی جذیات پر نہ صرف یہ کہ مکمل طور پرعبور رکھتے ہیں بلکہ آنے والے حادثات اور خودکش حملوں کی پیشگی اطلاعات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ شائد یہی ”دروغ گوئی” کا فن انہیں جناب گیلانی اور زرداری کے مزید قریب کردیتا ہے

اور وہ ہر گزرتے دن پہلے سے کہیں زیادہ بااختیار ہوکر سامنے کھڑے ہوتے اور عوام کے  سمع و بصر پر اپنے ”سیکرٹ انفارمیشن” کے ہتھوڑے برساتے دکھائی دیتے ہیں۔سانحہ کورال میں بھوجا ایئرلائن کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اور  ایک سو ستائیس زندہ انسان جل کر کوئلہ  ہوگئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھوجا ایئر لائن کے مالکان جان بحق ہونے والوں سے فی الفور اظہار افسوس کرتے’ ان کے لواحقین کے لئے معاوضے کی رقم کا اعلان کرتے اور آئندہ کے لئے  اس وقت تک اپنبی فلائٹس بند کردیتے جب تک ان کے طیارے مکمل طور پر فٹ نہ ہوجاتے۔ لیکن اس حادثے میں سانحہ یہ ہوا کہ بھوجا ایئرلائن والوں کو سامنے آنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی’ ان کے ”رکھوالوں” نے واقعات اور تحقیقات کے ایسے تانے بانے بنے کہ انسانی المیہ کو سیاسی جھگڑے میں تبدیل کردیا گیا۔ لواحقین جوتے’ دوپٹے’ اور فراکیں پہچان کرکے اپنے اپنے پیاروں کی گٹھڑیاں اٹھا کر لے گئے’پی آئی اے والوں نے راکھ کی ان پوٹلیوں تک کے کرائے وصول کر لئے اورحکومت نے تحقیقات کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن بنا ڈالا جو حقیقت میں بقول وزیراعلیٰ پنجاب جوڈیشل کم اور کمیشن زیادہ ہے۔ یہ کمیشن بننے سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا کہ اس کا مقصد ہی معاملے کو الجھانا تھا۔وزیراعظم پاکستان جناب گیلانی جن کے دامن میں کرپشن کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں رہا ایک اور الزام اپنے سر لینے میں کامیاب ہوگئے کہ پیپلزپارٹی ایسے الزامات کو اپنے لئے اعزازسمجھتی ہے۔بھوجا ایئرلائنز  کے طیارے کو حادثہ کس طرح پیش آیا اس کے بارے میں کوئی غیر جانبدار تحقیق کبھی نہ ہوپائے گی۔ بلیک باکس بیرون ملک جاچکا۔ کونسی انفارمیشن منظر پر لانی ہے کس کو چھپانا ہے یہ کام ایف آئی اے کا معمولی ہرکارہ بھی سرانجام دے سکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کب تک اس طیارے کے ساتھ پیش ہونے والے معاملہ کی چھان بین کرتا رہے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ جب کوئی جوڈیشل کمیشن بنتا ہے  تو اس کی سب سے زیادہ خوشی کمیشن کے سربراہ اور کمیشن کے ممبران کے گھر والوں کو ہوتی ہے۔ ایک سال تو گزارنا کوئی مشکل کام نہیں۔سال سے قبل ہی اس حکومت کو چلے جانا ہے۔ بعد میں کون پوچھے گا کہ طیارے کے انجن میں موسم نے آگ لگائی تھی یا طیارہ کرپشن کے پر لگا کر اڑایا گیا تھا۔ سال گزرنے کے بعد بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔غم’مایوسی میں ڈھل جاتا ہے اور زخم بھرنے شروع ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک  اسلام آباد والے طیارہ حادثے  کے متاثرین معاوضے  کے لئے ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں’ سانحہ کورال  تو خراب موسم کے دوران پیش آیا۔شاہین ایئرلائنزاورایئربلیو کے دو طیارے حادثے کے اگلے روز حادثے سے بال بال بچے اور ان کے ہنگامی لینڈنگ کا سبب آئل ٹینک میں سوراخ اور ٹائر پھٹنا تھا۔یہی بوسیدہ حالت بھوجا ایئرلائن والے طیارے کی ہوگی۔جب بھاری رشوت لے کر پرائیویٹ ایئرلائنز کو لائسنس اور فٹ نیس سرٹیفکیٹ جاری کئے جارہے ہوں تو پھر ہوائی مسافروں کی ہر آہ ہوا میں ہی تحلیل ہوجاتی ہے۔کوئی اور ملک ہوتا اور عوام بااختیار ہوتے تو جلی ہوئی لاشوں کو  جلوس کی صورت میں زرداری ہائوس کے سامنے بچھا دیا جاتا اور جب تک اس حادثے کے تمام ذمہ داروں کو شاہراہ دستور پر پھانسی نہ دی  جاتی لاشوں کو خاک برد نہ کیا جاتا ۔لیکن یہاں کی کرپٹ حکومت کو فرینڈلی اپوزیشن نے عوامی غصے اورغم سے ہر بار بچایا ہے۔طیارہ حادثے پر بھی یہی سیاسی نوراکشتیاں جاری ہیں’لواحقین اپنے پیاروں کی یاد میں سسکیاں بھرتے’آنسو بہاتے اور سینہ کوبی کرتے کرتے نڈھال ہوچکے لیکن رحمن ملک  جیسے وزراء جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں'(ن) لیگ عوام کے سامنے آنکھ مچولی کا شغل فرما رہی ہے اور جلتی لاشوں پر سیاسی بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply