Jun
16
|
Click here to View Printed Statement
دولت کی چمک سے بچنا محال ہوجاتا ہے۔ جو لوگ دام پھینک کر وفاداریاں خریدنے کا دھندہ کرتے ہیں ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ہر انسان کی ایک قیمت ہوتی ہے۔کامیاب بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو بندے کے ماتھے اور آنکھوں سے بھانپ لیتے ہیں کہ ان کے مخاطب کی قیمت کیا ہوگی۔ رشوت لینا اگر ایک فن ہے تو رشوت دینا بہت بڑا فن ہے۔ہرکوئی صاحب ثروت رشوت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کار شیطانی کے لئے مہارت درکار ہوتی ہے ۔
ایک کلرک سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کس طرح رشوت لی اور دی جاتی ہے فائل کو ”پہیے” اور کیس کو ”انجن” لگانے کا راز کلرک بادشاہ ہی جانتا ہے۔کلرک سے کھرب پتی بننے والے ملک ریاض نے رشوت ستانی کی ابتدائی ٹریننگ دوران کلرکی حاصل کی۔پھر انہوں نے اپنی خوش قسمتی کی فائل کو ایسے پہیے لگائے کہ وہ پانچویں گیئر میں دوڑتی چلی گئی۔ بحریہ ٹائون کے پراجیکٹ ملک صاحب کے لئے دولت کا بحر بیکراں ثابت ہوئے ۔ملک صاحب نے بہت سے سچ بولے اور ان سچائیوں میں سب سے بڑی سچائی یہ کہ انہوں نے اپنے ہر جائز اور ناجائز منصوبے کی تکمیل کے لئے موثر ترین لوگوں کی بولی لگائی اور انہیں خرید کر اپنے ”حرام کدے” میں شامل کر لیا۔یہ نہیں کہ مملکت خدادا میں رشوت’سفارش دھونس اور دھاندلی کو جناب ملک صاحب نے متعارف کرایا۔ ایسا نہیں۔ انہیں اتنا بڑا اعزاز نہیں دیا جاسکتا۔ اس کام کا آغاز قائداعظم کے ساتھیوں نے خود ہی کر دیا تھا۔جھوٹے کلیم بنانے اور ان کلیم کے مقابلے میں جائیدادیں الاٹ کروانے کے بدلے رشوت’شراب اور شباب کا چلن قیام پاکستان کے ساتھ ہی عام ہوگیا تھا۔لیکن ملک صاحب کے میدان سے اترنے سے پہلے ملک کے مقدس اداروں کے بارے میں کھلے عام شخصیت فروشی کا تاثر مشکوک تھا۔ شک تو تھا کہ محدودے چند لوگ ایسے ہوسکتے ہیں جو چھپ چھپا کر کچھ مراعات یا سہولتوں کے بدلے کسی تاجر یا کاروباری شخص کو ناجائز فائدہ پہنچاتے ہوں لیکن یقین نہیں تھا جناب ملک ریاض نے اس شک کو یقین میں بدل دیا۔انہوں نے ”انسانی وسائل” کی خریداری میں فوج’عدلیہ ‘صحافی ‘علماء اور دانشور۔ کسی کی تفریق نہیں رکھی۔ سب کو ان کی منہ مانگی قیمت ادا کی اور ان سے من چاہے فوائد حاصل کئے۔ہمارے سپہ سالار اعظم انتہائی ایماندار اور سچے سپاہی ہیں انہیں بدنام کرنے کے لئے ان کے کسی بھائی کے بارے میں افواہیں بھی پھیل چکی ہیں کہ وہ بھی ملک صاحب سے ”مستفید” ہوتے رہے ہیں اور ملک صاحب نے ان کے بارے میں بھی ایک فائل تیار کر رکھی ہے خدا نہ کرے کہ ایسا ہو۔لیکن اگر ملک صاحب منصف اعلیٰ کے لخت جگر کو اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنسا سکتے ہیں تو فوجی تو بڑے سیدھے سادھے سے لوگ ہوتے ہیں اور پراپرٹی ڈیلنگ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے ۔بازار مصر میں دولت پیغمبر خرید لیتی ہے تو پاکستانی منڈی میں چیف جسٹس کا بیٹا آخر خریدا کیوں نہیں جاسکتا۔ ملک ریاض کرپشن کے بادشاہ ہیں ان کے جادو کے آگے ہر کوئی بلی بن جاتا ہے۔ ملک صاحب کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے جناب زرداری سے بھی کاروبار کر لیا۔ہوسکتا ہے کہ جناب زرداری نے نگران وزیراعظم بنانے کا خواب دکھا کر اور جزوقتی اختیارات دے کر اربوں روپے کا چونا لگا دیا ہو۔ ملک صاحب کو دینے کے لئے جناب زرداری کے پاس کچھ نہ تھا انہوںنے تھپکی دی اور ملک صاحب نے عدالتی شیر کے منہ میں بازو دے دیا۔جناب زرداری مطمئن کہ ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔چیف جسٹس کو اپنے بیٹے کو کٹہرے میں کھڑا کرنا پڑا اور ملک ریاض ایسے پھنسے کہ اب وہ بحریہ ٹائون کے روح رواں کم اورہارے ہوئے جواری زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔گیم الٹ گئی۔ملک ریاض سلطانہ ڈاکو کا درجہ بھی نہ پاسکے اب وہ محض بے بسی کی صورت بنے دھکا دینے والے کو ترسائی نگاہوں سے دیکھتے ہیںسنا ہے کہ اب جناب زرداری ان کا فون تک نہیں سنتے۔ کہاں وہ دن تھے کہ ملک صاحب کے اشارہ ابرو پر حکومتی مشینری دوڑیں لگا دیتی تھی اور اب وہ اپنا وکیل ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن ان کی وکالت پر کوئی تیار نہیں۔چیف جسٹس نے اچھا کیا کہ اپنے بیٹے کے خلاف سوموٹو ایکشن لیا اور فیصلہ آنے تک اسے اور اپنے گھر سے نکال دیا۔امکان ہے کہ بحریہ ٹائون کے پلاٹوں کی گرتی قیمت کو روکنے کے لئے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض اپنے باپ کو بے دخل کردیں ۔ان کی اہلیہ ملک ریاض سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔کریمنالوجی کے طالبعلوں کا خیال ہے کہ ملک ریاض کو حفاظتی تحویل میں لے لینا چاہے۔کیونکہ جب لوٹ کھسوٹ اور قتل اغواء کے سینکڑوں کیس کھلیں گے اور ملک صاحب ایک ایک دن میں کئی کئی پیشیاں بھگتیں گے اور جب ان کا سایہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ دے گا تو وہ خدانخواستہ کہیں خودکشی نہ کر لیں۔ ایک جرنیل ایسا کرچکے ہیں اس لئے انہیں ایسے بدتر انجام سے بچایا جانا ضروری ہے اور جناب صدر پرانی دوستی نبھاتے ہوئے ملک صاحب کی مصروفیات کے لئے ایک ”کرپشن ڈویلپمنٹ اکیڈمی” کے قیام کا اعلان فرمادیں اور جناب ملک صاحب کو اس اکیڈمی کا سربراہ بنا دیں ملک صاحب اپنے منظور نظراینکرز کو ٹیچرز رکھ لیں تاکہ آنے والی نسلوں کو بتا سکیں کہ رشوت دینے کے صحیح انداز کیا ہوتے ہیں۔ بہرحال جو بھی فیصلہ ہو ملک صاحب کے لئے یہی نعرہ ہے کہ” رشوت کے رنگ ۔ملک صاحب کے سنگ!”