Jun 22

Click here to View Printed Statement

ذاتی مفادات کیلئے بااثر لوگ کس طرح قومی اداروں کو تباہ کرتے ہیں اس کی تازہ جھلک انجمن ہلال احمر پاکستان (پاکستان ریڈکریسنٹ سوسائٹی)کے نیشنل ہیڈکوارٹرز کے اندر ملازمین کے ایک گروپ کی طرف سے ہفتوںجاری  رہنے والی سیاسی ہلڑ بازی ہے ۔اسلام آباد کے سیکٹر ایچ ایٹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کارنر میں انسانی خدمت کے اس عظیم ادارے کا ہیڈ آفس واقع ہے۔2005ء کے زلزلہ کے دوران اس ادارے نے لوگوں کو امدادی سامان پہنچانے اور گرے ہوئے سکول و کالج بنانے میں عالمی شہرت حاصل کی تھی اور اس ادارے کی خدمات کو اخبارات میںسراہا بھی گیا تھا۔آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کے لئے بھی یہ ادارہ پیش پیش رہا تھا ‘ اس لئے نیشنل ہیڈکوارٹرز میں ہڑتال اور احتجاج کا سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔

جستجو کی کہ معاملہ کیا ہے اور انسانی ہمدردی کے لئے کام کرنے والے آفیسرز کو ہڑتال کا حق کس نے دیا ہے۔مجھے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سعید احمد قریشی سابق سیکرٹری جنرل فنانس کے بعد ایوان صدر کی طرف سے ڈاکٹر بشارت جذبی کو اس ادارے کا چیئرمین بنایا گیا لیکن سابق سینیٹر نیلوفربختیار اس فیصلے پر خوش نہ تھیں اور انہوں نے آفیسرز کے ایک گروہ سے ملی بھگت کرکے علیل جذبی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا اور خود بغیر کسی صدارتی نوٹیفیکیشن کے چار برس تک خودساختہ چیئرپرسن کے طور پر براجمان رہیں۔””ایگزیکٹو کمیٹی کو قابو میں رکھنے کے لئے نیلوفر نے ملازمین کے نام پر یونین بنوائی اور اس یونین کو فنڈز فراہم کئے اور مسلسل پیٹھ ٹھونکتی رہیں۔ گو کہ ہلال احمر کے چیئرمین کے لئے کوئی تنخواہ نہیں ہوتی لیکن نیلوفر نے گاڑیوں اور آئے روز بیرون ممالک دوروں کی مد میں تنخواہ سے کہیں زیادہ مراعات سمیٹیں۔ انہوں نے اس ادارے کے لئے ہونے والی پرنٹنگ کے بجٹ کو غیر ضروری طور پر بڑھا کر اپنے خاوند کو کام دلوایا اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو کام دینے کی یہ شرط رکھی کہ پرنٹنگ ان کے شوہر کے پریس سے ہی کرائی جائے گی اور بل ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے نام کاٹے جائیں گے۔یہی نہیں بلکہ وہ اپنی ذاتی این جی او ”برداشت” اور ہلال احمر کی بیک وقت سربراہی کرتی رہیں۔ ان کے ہر دورے میں ہلال احمر کے ساتھ ساتھ ”برداشت” کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم بھی شامل تھی۔ اخراجات اور انفراسٹرکچر ہلال احمر کا استعمال ہوتا رہا اور وہ درپردہ اپنی این جی او کو مضبوط کرتی رہیں۔کنسٹرکشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے دیئے گئے ٹھیکوں میں کرپشن کی حوصلہ افزائی جاری رہی اور مالی گھپلوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔اس دوران وہ صدر اور وزیراعظم سے اپنے لئے ہلال احمر کے چیئرمین کے نوٹیفکیشن  کے لئے بھی مسلسل رابطے میں رہیں لیکن ان کی شنوائی نہ ہوسکی۔محترمہ شیریں رحمان کو چیئرپرسن بنا دیا گیا۔ لیکن وہ جلد ہی امریکہ میں سفیر نامزد ہوگئیں۔شیریں رحمان کو نیلوفر صاحبہ کی ”مفاداتی طبیعت” کا پوری طرح علم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے امریکہ جانے سے قبل صدر کو تحریری سفارش کی کہ قانون و ضوابطہ کے پابند اور کسی ایماندار آدمی کو یہاں کی ذمہ داری دی جائے ورنہ حکومت کے لئے اس ادارے کے حوالے سے کسی بھی وقت کوئی بڑا سکینڈل سامنے آسکتا ہے۔صدر پاکستان نے ہلال احمر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سب سے سینئر ممبر میجر(ر)جنرل نواز خان کو حسب دستور اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روشنی میں آفیشٹننگ چیئرمین بنانے کی سفارش کی جس کے بعد پرائم منسٹر ہائوس نے ضروری کارروائی کے بعد منسٹری آف ریگولیشنز کے ذریعے جنرل صاحب کو تاحکم ثانی چیئرمین بنا دیا۔ اس اچانک اور غیر متوقہ فیصلے نے نیلوفر اور ان کے منظور نظرملازمین کومشتعل کردیا۔ اور یوں مفاداتی ٹولے نے نہ صرف یہ کہ اس اپائنٹمنٹ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا بلکہ ہلال احمر کے اندرہڑتال کے لئے ملازمین کو ورغلانے اورہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔”جنرل (ر) نواز کی ایمانداری اور اصول پرستی سے یہ لوگ خوفزدہ ہیں۔ ان کے اللے تللے بند ہوچکے ہیں اور مستقبل میں مفادات پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جنرل صاحب نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اس قومی ادارے کو مفاداتی ٹولے سے نجات دلا کر اعلیٰ ترین انسانی خدمت کے کاموں کیلئے پھر سے متحرک کردیں گے۔ لیکن نیلوفر کی سربراہی میں مفاداتی ٹولہ نت نئی سازشیں تیار کرتا اور ادارے کے ماحول’ساکھ اور اس کی کارکردگی کو تباہ کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے۔”ہلال احمر کی سابق ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا۔ ذرائع کے پاس نیلوفربختیار کے خلاف نہ ختم ہونے والا مواد موجود ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ شیخ صاحب نے مبالغہ آرائی بھی کی ہو لیکن نیلوفربختیار صاحبہ کے خاص الخاص آدمی انجینئر گوہر علی شاہ نے نوائے وقت کی لیڈی رپورٹر کو  ایک انٹرویو دیتے ہوئے جنرل (ر) نواز پر الزام لگایا کہ وہ آرمی اور ہلال احمر سے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بیک وقت تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔یہ بات عقل کے اندھوں کو بھی معلوم ہے کہ برسوں پہلے ریٹائرڈ ہونے والے جنرل کوآرمی ابھی تک تنخواہ کیوں دے گی اور ہلال احمر میں چیئرمین کو سرے سے کوئی تنخواہ ملتی ہی نہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مفاداتی ٹولہ ہلال احمر کے وسائل پر پھر سے قابض ہونے کے لئے کیا کیا بہتان گھڑ سکتا ہے۔ اس ملک کے اہم ترین قومی اداروں کو چند لوگوں کے ذاتی مفادات نے ہی تباہ کردیا ہے یہ تو خالص انسانی خدمت کا ادارہ ہے ۔خدارا اس کو تو بخش دیجیے۔ کوئی ادارہ تو رہنے دیجئے جو مصیبت کی گھڑی میں اس قوم کے کام آسکے!!

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply