Jul 20

Click here to View Printed Statement

JANG LAHORE

ہر سال ماہ صیام میں منبرومحراب سے روزے کی فضیلتیں بیان کی جاتی ہیں اسلامی سکالرز انتہائی فصاحت وبلاغت کے ساتھ اس ماہ مقدس کے ساتھ وابستہ برکتوں’رحمتوں اور بخششوں کے تذکرے دہراتے ہیں۔نماز تراویح’نوافل ‘صدقہ اور خیرات کے طور طریقوں اور آداب و اسلوب کا موثر ذکر ہوتا ہے۔ہمارے اخبارات’رسائل اور ٹی وی چینلز خصوصی پروگرام اور اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ کوئی بھی صاحب شعور مسلمان پاکستانی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے روزے کی اہمیت’افطار اور سحر کے طریقے اور رکوع و سجود کے انداز سے واقفیت نہیں ہے۔ لیکن کیا سبب ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلائی جانے والی آگاہی کے باوجود معاشرے میں اس مقدس مہینے کے طفیل جو بہتری متوقع ہوتی ہے وہ وقوع پذیر نہیں ہوتی اور معاشرے میں اصلاح کی بجائے ہر سال پہلے سے زیادہ بگاڑ دکھائی دیتا ہے؟یوں تو حکومت بھی رحمتوں والے اس مہینے میں عوام الناس کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے حکومتی سطح پر کئی اقدامات اٹھاتی ہے۔

مثلاً یوٹیلٹی سٹورز میں سینکڑوں اشیاء کی قیمتیں کم کردی گئی ہیں اسلام آباد’ لاہور اور کراچی میں خصوصی بازار سجائے جاتے ہیں تاکہ روزہ داروں اور عام آدمی کو سستی اشیائے خوردونوش بآسانی دستیاب ہوسکیں۔ رمضان پیکج کے نام پر بھی ہر بازار اور مارکیٹ میںبظاہر لوگوں کی سہولت کے لئے پرکشش سٹال سجائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ماہ رمضان میں مہنگائی کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آکر صارفین کا منہ چڑانا شروع کردیتا ہے۔اس ماہ کے تقدس کا شعور بھی ہر شہری کو حاصل ہے۔مسجدیں نمازیوں سے بھری پڑی ہوتی ہیں ۔ تراویح کے دوران قرآن اور اس کی تفسیر کا اہتمام ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہر طرف نیکیوں کی برسات آگئی ہے لیکن عملاً لوٹ مار ہی ہوتی ہے’جھوٹ پر جھوٹ گھڑے جارہوتے ہیں اور ہمارے کردار اندر سے مزید کھوکھلے ہورہے ہوتے ہیں۔ آخر رمضان شریف کی برکتیں ہمارے حصے میں کیوںنہیں آتیں ۔غریب امیر کیوں نہیں ہوجاتا’مظلوم کو انصاف کیوں نہیں مل پاتا’ہم بحیثیت قوم ہر سال پہلے سے زیادہ مقروض کیوں ہوجاتے ہیں۔عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ رسوائی ہمارے نصیب میں کیوں لکھ دی جاتی ہے؟یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سماج میں مصنوعی رکھ رکھائو نے اسقدرجڑیں گاڑ لی ہیں کہ اب روزے جیسی عبادت کو بھی ہم نے ”انجوائے” کرنے کا کوئی ذریعہ بنا لیا ہے۔ہمارے ذرائع ابلاغ خصوصاً ہماری ٹی وی سکرین نے خالصتاً تذکیہ نفس کے لئے اور تعلق بااللہ کو از سر نو پروان چڑھانے کے لئے مختص روزے جیسی عبادت کو بھی اشتہارات کے ذریعے ایک ”سٹیٹس سمبل” بنا دیاہے۔ٹی وی چینلز نے ایسے سکالرز ”ہائر” کر لئے ہیں جو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ناظرین کا دل موہ لیتے ہیں۔اور پھر وہ ماہر مداری کی طرح لوگوں کوکسی پراڈکٹ کی طرف راغب کردیتے ہیں۔گویا روزے اور رمضان میں لوگوں کے مذہبی اور دینی رجحانات کا استحصال کرنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد ہوگیا ہے اور یہی حالات ہمارے اخبارات کے بھی ہیں ۔کھانے پینے کی اشیائ’پہننے’ہاتھ منہ دھونے اور سجنے سجانے کے سامان کی جس قدر تشہیر ‘مارکیٹنگ اور سیل ماہ رمضان میں کی جاتی ہے شائد ہی کسی اور ماہ میں یہ کاروبار اس قدر عروج پاتا ہو۔ ٹی وی پروگرام اور اشتہارات نے اس عبادت کو ایک کلاس کے لئے خوشی اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے لئے ایک آزمائش بنا ڈالا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مقدس کی برکتیں بھی ہم سے روٹھ چکی ہیں۔ ”روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا” اس حدیث مبارکہ کے بالکل برعکس اب روزہ اور اس سے زبردستی جوڑ دی جانے والی پرتعیش افطار و سحر نے اسے بھی شہرت’ بڑائی اور امارت کے اظہار کا ذریعہ بنا ڈالا ہے۔پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ صیام میںایسا کوئی عمل لازم نہیں فرمایا جس کی تشہیر آج کے پاکستانی معاشرے میں کی جارہی ہے۔اصراف سے منع فرمایا گیا۔سادگی پر زور دیا گیا مال کی قربانی کا حکم دیا۔ کان’آنکھ’ ہاتھ اور پائوں تک کے روزے کی بات کی لیکن یہاں تو ہر انسانی اعضا روزہ شکنی کرتا ہوا دکھایا جارہا ہے۔ پھر برکت کیسی؟میری استدعا ہے کہ کم از کم ماہ صیام میں ٹی وی سکرین کے ملفوف شیطانی ایجنڈے سے ضرور بچیں تاکہ تذکیہ نفس کی منزل آسان ہوسکے۔ کم از کم اپنے حصے کی افطاری کے برابر  رقم ایمانداری کے ساتھ اپنے ضرورت مند قرابت داروں’ ہمسائے ‘مسکین یا شہری پر ضرور خرچ کردیں۔ذاتی طور پر ہم یہی کرسکتے ہیں شائد اس سے برکتیںنازل ہوسکیں۔

 

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply