Jul
25
|
Click here to View Printed Statement
کہا جاتا ہے کہ اگر مواقع اور اہلیت باہم مل جائیں تو پھر کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد اس فارمولے کو بنیاد بنا کر جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہر سماج اور معاشرے میں ایسے افراد کی بے شمار تعداد ہے جن میں صلاحیت ہے لیکن موقع نہیں ملتا اور کئی ایسے افراد ہیں جن کے پاس مواقع تو موجود ہیں لیکن ان میں صلاحیت نہیں ہے جس کے باعث وہ معاشرے کے ناکام یا ناکارہ افراد کہلاتے ہیں۔ مواقع پیدا کرنا تاکہ اہل افراد ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر کامیابیاں حاصل کریں اور معاشرہ مجموعی طور پر متحرک ہوسکے ایک اہم ترین سماجی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بے صلاحیت افراد کی ایسے خطوط پر تربیت کرنا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔یہ بھی برابر کی اہم سماجی ذمہ داری ہے۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صلاحیت اپنے لئے مواقع پیدا کرلیتی ہے اور مواقع اپنے لئے باصلاحیت لوگ تلاش کر لیتے ہیں۔تعلیم وتربیت اور علم و ہنر دراصل اسی مقصد کے لئے ہوتے ہیں تاکہ افرادی قوت کی تعمیر ہوسکے۔کسی بھی فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف افراد کی تعمیروترقی کا نظام وضع کریں اور دوسری طرف صنعت و تجارت اور خدمات کا ایسا سسٹم تیار کریں کہ پیداواری سرگرمیاں عروج پاسکیں۔دنیا میںفلاحی ریاستیں ایسا ہی کرتی ہیں لیکن پاکستان جو کہ کسی لحاظ سے فلاحی’ جمہوری اور اسلامی ریاست نہیں بن سکا اس کے زیرسایہ پروان چڑھنے والے معاشرے اورافراد کی حالت زار بگڑتی چلی جاتی ہے۔ایسے معاشروں میں بیروزگاری تمام حدیں پھلانگ جاتی ہے۔ غرباء اور ضرورتمندوں کی فوج ظفر موج پیدا ہوتی ہے ۔پھر اپاہج’ بیوائیں’مساکین اور بیماروں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور جب غربت حد سے بڑھ جائے تو غریبوں میںردّعمل سر اٹھانا شروع کردیتا ہے اور یہی ردّعمل خانہ جنگی ‘دہشتگردی اور بغاوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔خریداروں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور چھیننے اور مانگنے والوں کے جتھے تیار ہونا شروع ہوتے ہیں جن کے وجود کے سبب بنے بنائے معاشرے اجڑ جاتے ہیں اور اس ویرانی کا سب سے زیادہ نقصان سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو ہوتا ہے۔انہیں اپنے کارخانے بند ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔یہی وہ خوف ہے جس کے تحت بڑے بڑے کاروباری اداروں اور کارپوریٹ مراکز کو اپنے اردگرد کے لوگوں کی صلاحیت بڑھانے اور ان کے لئے پیداواری مواقع پیدا کرنے کے لئے منصوبے بنائے اور اس اہتمام کو کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (سی ایس آر) کا نام دیا۔آج دنیا کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں سماجی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے بجٹ مخصوص کرتی ہیں بلکہ بعض بین الاقوامی انتظامی اداروں کی طرف سے اس بجٹ کی تخصیص لازمی قرار دے دی گئی ہے اور اسے قانون بنا دیا گیا ہے۔یوں ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس مد میں کچھ نہ کچھ خرچ کرتی اور اپنے سالانہ اعدادوشمار میں اس کا بڑھ چڑھ کر ذکر بھی کرتی ہیں۔اسلام نے سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو مسلمان کا مقصد حیات قرار دیاہے۔اسلام کے معاشی نظام کا بنیادی مقصد ہی معاشرے کے ناکام افراد کی کفالت کرنا اورعامة الناس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کمائی کے مواقع پیدا کرنے ذریعہ بنایا ہے۔صدقات’خیرات اور صدقہ جاریہ کے سارے تصورات ہی اس لئے دیئے گئے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہ رہے اور بنیادی ضرورتیں ریاست کے ہر فرد کو ملیں۔اسوہ حسنہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو کارآمد شہری بنانے کے لئے کس طرح ترغیب دیتے تھے۔”ایک بار مسجد نبویۖمیں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ بھوکا ہوں اور روزگار بھی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص سے کہا کہ کیا تیرے پاس کوئی اثاثہ ہے جس کے جواب میں اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک لوہے کا پیالہ ہے جس سے میں پانی پیتا ہوں آپۖ نے فرمایا کہ پیالہ لے آئو۔ پھر آپ ۖنے اصحابہ اکرام سے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس پیالے کو خریدلے۔ ایک صحابی نے کہا کہ میں ایک درہم میںخریدتا ہوں۔آپۖ نے فرمایا کہ پیالہ مہنگا ہے اس کے زیادہ دام کون لگائے گا۔پھر ایک اصحابی آگے بڑھے اور کہا کہ میں اس کے دو درہم دیتا ہوں۔آپۖ نے دو درہم اس بے روزگار شخص کو دیے اور فرمایاکہ ایک درہم کا کلہاڑا خریدو اور ایک درہم کی ایک رسی اور تھوڑی خوراک لے لو اور جنگل میںچلے جائواورلکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچو’وہ شخص پندرہ روز بعد آپۖ کی محفل میں حاضر ہوا اور مسکراتے ہوئے بولا”حضورۖ میںخوشحال ہورہا ہوں”۔اس مشہور واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اصل کام یہ نہیں کہ آپ کسی بھوکے کو بار بار کھانا کھلاتے رہیں لیکن بلکہ سماجی خدمت یہ ہے کہ آپ اس بھوکے کو روٹی کمانے کا ڈھنگ سکھا دیں اور اس مقصد کے لئے اگر آپ کمیونٹی کو بھی ساتھ شامل کر لیں تو پھر تعمیر افراد سے آگے بڑھ کر تعمیر معاشرہ کا مرحلہ طے ہوسکتا ہے۔قرآن حکیم نے آغاز میں ہی ارشاد فرمایا کہ ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور ہدایت ہے ان متقی لوگوں کیلئے جو غیب پر ایمان لائے’جنہوں نے صلوٰة قائم کی اور اس رزق سے (انسانوں کی ترقی اور خوشحالی) کے لئے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دیا”۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ متقی لوگ وہی ہیں جو تعمیر افراد اور تعمیر معاشرہ کی سماجی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔”یدع الیتیم” کی ہدایت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ایسے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو یتیموں کو کھانا کھانے پر ابھارتے نہیںترغیب نہیں دیتے’یعنی ایسا انتظام نہیں کرتے کہ جس کے ذریعے یتیم(جن کی رہنمائی کرنے کے لئے باپ کا سایہ نہیں رہا) تعلیم وترتیب حاصل کرے اور معاشرے کا کارآمد فرد بن جائے۔ ایسی احادیث مبارکہ اور آیات قرآنی کا ایک ذخیرہ موجودہے جس سے سماجی ذمہ داریوں کا واضح انداز میںتعین بھی ہوتا ہے اور ان ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرنے کا سلیقہ بھی ملتا ہے۔یورپ نے غرباء کے خوف اور خریداروں کی قوت خرید ختم ہونے کے خوف سے یا یوں کہے کہ اپنی پراڈکٹ کے خریداروں کو زندہ رکھنے کے لئے سماجی ذمہ داریوں کا احساس کیا ہے۔بنیاد جو بھی ہو بیسویں صدی کے آغاز پر اس کا احساس جاگ جانا ایک خوش آئند پہلو ہے۔ورنہ سترہویں اور اٹھارویںصدی میں تو کاروباری لوگ انتہائی سفاک تھے۔ وہ اپنے کارکنوں کو بیگار کاٹنے پر مجبور کرتے تھے ‘غریبوں کو غلام بناتے تھے اور سماج کی ہر ضرورت کو پس پشت ڈال کر محض اپنی تجوریاں بھرتے جاتے تھے۔ انسانیت نے بہ حیثیت مجموعی اس ضرورت کو محسوس کر لیا ہے کہ نفع کمانے کے ساتھ ساتھ ان بستیوں میں غربت’ افلاس’جہالت اور بے ہنری کو بھی ختم کرنا چاہیے جہاں ان کے بڑے بڑے پلانٹ منافع بخش لگے ہیں اور مٹی کو سونا بنا کر بیچ رہے ہیں۔پاکستان میںیوں تو انفرادی طور پر کاروباری حضرات صدقہ و خیرات میں کسی سے پیچھے نہیں لیکن کاروباری ادارے کے طور پرسماجی ذمہ داریاں نبھانے کا رجحان جڑ نہیںپکڑ رہا ۔البتہ بعض اداروں نے پہل کی ہے حال ہی میں فوجی فرٹیلائزرنے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں انجمن ہلال احمر پاکستان کے ساتھ ملکر اڑھائی سو گھر بنائے ہیں اور ان گھروںکی تعمیر کے تمام مراحل میں وہاں کے مقامی افراد کو مشاورت میں شامل کیا گیا۔ یہ ایک بہتر انداز ہے ۔ورنہ آسان کام یہ تھا کہ بے گھر لوگوں میں رقم بانٹ دی جاتی اور کم محنت اور کم وقت میں یہ سماجی ذمہ داری پوری ہونے کا اعلان ہوجاتا۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں یا کاروباری ادارے محض منافع کے دو فیصد یا تین فیصد کے برابر رقم ضرورت مندوں میں بانٹ کر فارغ ہوجائیں اصل ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنے سالانہ منصوبوں میں ”سی ایس آر” کے لئے بھی باقاعدہ اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرے اور اس کے لئے الگ سے ٹیم ہائیر کرے اور اپنی کارکردگی رپورٹ میں سماجی منصوبوں کی کامیابی یا ناکامی کو بھی نمایاں طور پر سامنے لائے۔پی ایس او جیسی کمپنیاں اب اس طرف خصوصی توجہ دے رہی ہیں’ تعلیم’ صحت ماحولیات اور ہنرمندی کے حوالے سے اب کچھ کام شروع ہوا ہے۔دوا ساز کمپنیوں نے بھی سماجی بہتری کے منصوبے شروع کردیئے ہیں اور صوبہ سندھ اور بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ ترین علاقوں میں تعلیم وتربیت کے مراکز اور روزگار کے مواقع مہیا کئے جارہے ہیں ۔جو سیکٹر سماجی ذمہ داریوں کو نبھانے میں سب سے پیچھے ہے وہ سروسز کا سیکٹر ہے۔پاکستان میں بینکس’انشورنس سیکٹر منافع میں جارہا ہے لیکن ان کے مالکان ابھی ”سی ایس آر” کی طرف راغب نہیں ہورہے۔البتہ ”یوآئی جی ”گروپ نے آغاز کردیا ہے’یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے چیئرمین نے ذاتی دلچسپی لے کر راولپنڈی میں تعلیم اور صحت کے منصوبے شروع کردیئے بعض بینکوں نے ماحولیات کی بہتری کے لئے اقدام اٹھائے ہیں۔ ‘ بعض میڈیا گروپس بھی اس قدر دولت کمارہے ہیں کہ وہ اور کچھ نہیں تو سماجی خدمات سرانجام دینے والے اداروں کو اپنی سکرین پر ٹائم دے سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں پا رہا۔پاکستان میں اس وقت کم و بیش اڑھائی سو ملٹی نیشنل کام کر رہی ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کارپوریٹ اداروں کو سی ایس آربجٹ کے حوالے سے پابند بنائے اور سی بی آر کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹیکس لیتے وقت اس وقت تک این او سی جاری نہ کرے جب تک کہ سی ایس آر کے تحت چلنے والے منصوبوں کی مکمل چھان بین نہ کرلے۔محض ٹیکس چھوٹ کے لئے بھرے گئے جعلی گوشواروں سے سماج کے ضرورت مند لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔یہ خیال کیا جاتاہے کہ اگر پاکستان میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مقامی کاروباری ادارے صرف پانچ برس تک سی ایس آر بجٹ کو پوری دلجمعی کے ساتھ سماجی بہتری کے منصوبوں پر خرچ کریں تو پاکستان میں نہ صرف غربت کی شرح آدھی رہ جائے گی بلکہ معاشرتی مزاج میں ناقابل یقین مثبت تبدیلی بھی رونما ہوگی۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کا معاملہ الگ ہے لیکن بطور مسلمان پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری گروپ اس کارخیر میں منظم انداز میں حصہ لیں۔انفرادی صدقہ و خیرات سے سماجی ذمہ داری کا وسیع مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔غربت ‘بے روزگاری اور معاشرتی بے چینی ختم نہ ہوسکے گی۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غربت کے خاتمے اور افراد کی تعمیروتربیت کے لئے مال خرچ کرنے پر جس قدر زور دیا ہے اس کا اندازہ درج ذیل آیت مقدسہ کے ترجمہ سے واضح ہوتا ہے۔”جو کوئی جزا کے دن (مال کی محبت میں گرفتار رہنے کے جرم میں) مجرم بن کر آگیا وہ چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے بیٹوں کو’اپنی بیوی کو’اپنے بھائی کو اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا رہا اور روئے زمین کے ہر شخص کو فدیے میں دے دے’پھر اپنے آپ کو اس سے چھڑا لئے(جواب ملے گا) ہرگز نہیں وہ آگ کی لپیٹ ہے چمڑی ادھیڑتی۔ ہر اس شخص کو پکارتی ہوئی جس نے پیٹھ پھیری اور منہ موڑا اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا”۔قرآن مجید میں اس حوالے سے ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ”کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں ( کہ حقائق کو دیکھتا)اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے(کہ بھلائی کی ترغیب دیتا)اور دونوں راستے نہیں سمجھائے(کہ اچھے اور برے کو سمجھتا)؟ مگر وہ گھاٹی پر نہیں چڑھا اور تم کیا سمجھے کہ وہ گھاٹی کیا ہے (یہی کہ) گردن چھڑائی جائے۔ یا بھوک کے دن کسی قرابت مندو یتیم یا کسی خاک آلود مسکین کو کھانا کھلا یا جائے۔پھر آدمی ان میں سے ہو جو ایمان لائے اورجنہوں نے اس پر ثابت قدمی کی اور دوسروں سے ہمدردی کی نصیحت کی”۔میں تمام دولت مندوں اور منافع بخش اداروں اور ان کے مالکان سے التماس کرتا ہوں کہ وہ غریبوں کی بجائے غربت سے نفرت کریں اور غربت سے نفرت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ غریب کی تعلیم و تربیت اور روزگار کے لئے منظم و مربوط انداز میں تحریک چلائی جائے۔ ملک بھر میں ایسے رفاعی منصوبے شروع کئے جائیں جن کے ذریعے غرباء کی عزت نفس بھی بحال رہے’وہ کسی شخص کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ہزیمت سے بچ جائیں اور سماج کے کارآمد افراد بن کر ملک کی اجتماعی ترقی میں حصہ ڈال سکیں تاکہ ہمارا سماج بھی روشن سماج ہو یہاں کا غریب بھی مہذب اور تہذیب یافتہ نظر آئے کیونکہ’ نورسرمایہ سے ہے روئے تمدن کی جلاہم جہاںرہتے ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہےبھوک آداب کے سانچوں میں نہیںڈھل سکتی