Sep
03
|
Click here to View Printed Statement
تحریک انصاف میں نظریاتی گروپ جماعت اسلامی اور پاسبان تنظیم کے رہنمائوں اور کارکنوں پر مشتمل ہے جو بہرحال عمران خان کے ساتھ ساتھ قاضی حسین کو بھی احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح واجپائی کی آمد پرجماعت اسلامی کے جو تعلقات میاں برادران سے جس قدرکشیدہ ہوگئے تھے وہ کافی حد تک نارمل ہوچکے ہیں۔مسلم لیگ (ن) میں بھی قاضی حسین احمد کی آنکھیں شامل ہیں۔احسن اقبال جیسے لوگ مئوثر ہیں گوکہ عمران خان نے قاضی حسین احمد کی اس کوشش کو سادہ لوحی سے تعبیر کیا ہے لیکن امید کرنی چاہیے کہ جب سیاست کے میدان میں انتخابی گہما گہمی دکھائی دے گی تو پھر عمران خان بھی اس ”سادگی” پرقربان ہوجائیں گے۔تحریک انصاف کے اندر سے دبائو بڑھے گا۔ نظریاتی گروہ عمران خان کو ن لیگ سے انتخابی اتحاد پر مجبور کردے گا۔قاضی حسین احمد کا موقف بڑا واضح ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران بڑے خلوص کے ساتھ اس ملک کی بہتری کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں
‘ میاں نوازشریف بھی خلوص نیت سے اس ملک کے لئے بہتری لانا چاہتے ہیں تو پھر پرخلوص لوگ جن کا مقصد سیاست ایک ہے وہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار کیوں ہیں۔اصلاح کاروں کے اتحاد کا مشن خود جماعت اسلامی کی ”گْڈوِل” میں بھی اضافے کا سبب بنے گا۔ قاضی حسین احمد پر امید ہیں اور بقول اقبال انہیںیقین ہے کہ’آملیں گے سینہ چاکان ِچمن سے سینہ چاکاور اس چمن کی ہر کلی دردآشنا ہوجائے گیزرداری مخالف کالم نگاروں اور دانشوروں کی ایک جماعت جو پی پی پی کے ہاتھوں رسوا ہوئی اور مزید رسوائی کے خوف میں مبتلا ہے’ وہ (ن) لیگ اور تحریک انصاف کی آپس کی اس لڑائی کے باعث تشویش کی انتہائی سطح پر پہنچ چکی ہے۔وہ جانتے ہیںکہ کسی بھی حلقے میں ووٹرز کی تقسیم پی پی پی کو باسہولت کامیاب کروا دے گی۔ پنجاب میں ووٹرز تقسیم ہوںگے۔ دو کروڑ نئے ووٹرز جن کی تعداد نوے فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور جو شائد پہلی بار ووٹ ڈالیں گے وہ تحریک انصاف کے کھاتے میں جائیں گے۔کتنے نوجوانوں کے ووٹ ووٹر لسٹوں میں درج ہوچکے ہیں یہ الگ معاملہ ہے۔ اگر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے اور دونوں اطراف سے کوئی بھی نرم نہیں پڑتا تو پھر پنجاب کے اندر پی پی پی مخالف ووٹ تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ (ن) لیگ ‘عمران خان’ جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں۔ نتیجہ بڑا ہی واضح ہے۔ پی پی پی اور (ق) لیگ کا مشترکہ اتحاد جیت جائے گا۔
ہم تم ہوں گے بادل ہوگا رقص میں سارا جنگل ہوگایہی وہ خوف ہے جو جماعت اسلامی’ دفاع پاکستان کونسل اور ملی یکجہتی کونسل اور مقتدر قوتوں کو بے چین کر رہا ہے۔وہ بدترین سیاسی انجام سے بچنا چاہتے ہیں۔ جناب قاضی کی ذات سیاسی اتحاد کے اس مشن کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔ وہ سابق امیر جماعت اسلامی ہیں لہٰذا جماعت اسلامی کی انہیں بھرپور حمایت حاصل ہے۔انہوں نے حال ہی میں ایک تھینک ٹینک کے ذریعے پاکستان کی تمام سیاسی اور سماجی شخصیات سے موثر روابط قائم کر لئے ہیں۔ معلوم نہیں کہ محترم قاضی حسین احمد کا یہ از خود مشن ہے یا اس کار خیر کی ذمہ داری فرشتوں نے سونپی ہے، بہر حال اس پیرانہ سالی میں یہ جوانمردی قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی۔عمران خان کی تحریک انصاف اور میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ کو مخالفت ،مخاصمت اور عداوت کے ماحول سے نکال کر قربت ،دوستی ،اور ہمسفری پر آمادہ کرنے کا ہدف کوہکنی سے کم مشقت نہیں ۔صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر!۔”سیاست میں سب ممکن ہے ” کے امید افزاء فلسفے کو فی الحال ایک طرف رکھیں۔ معروضی حالات یہ ہیں کہ گذشتہ برس لاہور میں تیس اکتوبر کو عوام کے جم غفیر نے جہاں عمران خان کو ”آکڑ خان ”بنایا وہیں میاں برادران کو بھی پہلی بار خطرے کی گھنٹیاں سنائی دیں ۔جاوید ہاشمی کی بغاوت نے نون لیگ کی دوڑیں لگوائیں اور یوں میاں صاحب نے مجبوراًعمران خان کو” سیریس ”لینا شروع کیا ۔ تب سے اب تک ادھر سے عمران بھائی روزانہ میاں صاحب کی دھلائی کرتے ہیںادھر سے میاں صاحب کے’ بدری’ساتھی ”آکڑ خان” کے کڑاکے نکالتے ہیں۔دونوں طرف سے دشنام طرازیوں کی وہ گھن گرج ہے کہ کوئی احسن بات کانوں پڑی سنائی نہیں دیتی ۔اپنے دو دشمنوں کو یوں باہم دست وگریباں دیکھ کر پاکستانی سیاست کے مہاکھلاڑی جناب آصف علی زرداری نے پورے وثوق سے فرمایا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی ہی جیتے گی۔